میانمار کی ریاست راکھائن میں روہنگیا مسلمانوں پر
برمی فوج، حکومت اور دہشتگرد بدھ بھگشوؤں کی جانب سے درندگی کا سلسلہ جاری
ہے۔ برمی فوج، حکومت اور دہشتگرد بودھ نہتے اور بے بس روہنگیا مسلمانوں کا
تاحال قتل عام کر ر ہے ہیں۔ یہ انسانی بحران دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتا
جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ، دیگر تنظیموں اور حلقوں نے برمی فوج اور حکومت کی
جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا
ہے، لیکن اقوام متحدہ اتنی بے بس دکھائی دے رہی ہے کہ نسل کشی قرار دینے کے
باوجود میانمار کے خلاف ابھی تک کوئی ہلکی سی عملی کارروائی بھی نہیں کر
سکی۔ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے بھی چپ سادھی ہوئی ہے، جس پر دنیا
بھر میں سوچی پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں عوامی سطح پر اسے
دہشتگرد اور درندہ صفت خاتون قرار دیا جارہا ہے اور اس سے نوبیل انعام واپس
لینے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل روہنگیا اقلیت کو نظر انداز کر رہی ہے۔ انسانی
حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ عالمی برادری کو
چاہیے کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام رکوانے کے لیے میانمار کی حکومت پر دباؤ
ڈالے اور اس پر ہتھیاروں کی خریداری سمیت دیگر پابندیاں عاید کی جائیں،
تاکہ برمی فوج مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ بند کرنے پر مجبور ہو جائے۔
تنظیم نے اقوام متحدہ سے درخواست کی کہ وہ میانمار کی حکومت سے مطالبہ کرے
کہ امدادی تنظیموں کو متاثرہ علاقوں تک امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے،
جبکہ اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن کو بھی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے
ان علاقوں تک رسائی دی جائے۔ بہرحال یہ معاملات اپنی جگہ ہیں، لیکن مسلم
ممالک کی طرف سے تاحال سوائے زبانی جمع خرچ کے کوئی عملی اقدامات سامنے
نہیں آئے۔ کسی مسلمان ملک نے برما کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے ہیں، نہ
ہی تجارتی پابندیاں عاید کی ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے خلیجی ملکوں نے بھی
برما کے ساتھ اپنے تجارتی اور دو طرفہ تعلقات کو جوں کا توں رکھا ہوا ہے۔
ترکی اور انڈونیشیا وغیرہ وہاں امدادی کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن
اس سے مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ او آئی سی کے
پلیٹ فارم سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں باقاعدہ درخواست دی جاتی اور
برمی حکومت کو مجبور کیا جاتا کہ وہ سب سے پہلے روہنگیا کے خلاف فوجی
آپریشن بند کرے، اس کے بعد دیگر ممالک میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کو
واپس بلائے اور ان کی آبادکاری کے لیے اقدامات کرے، روہنگیا مسلمانوں کی
برمی شہریت کو بحال کرے اور ان کو سرکاری ملازمتوں اور کاروباری مواقع
فراہم کرے، لیکن کسی مسلمان ملک اور تنظیم نے ایسا کرنے پر توجہ نہیں دی۔
دنیا بھر میں میانمار کے درندوں کے خلاف احتجاج کیا گیا ہے، لیکن اس کے بھی
کوئی خاص نتائج سامنے نہیں آئے۔ چین برمی حکومت کی درندگی کی حمایت کر رہا
ہے، انتہا پسند بھارت نے تو برما کی فوج اور حکومت کی درندگی کی حمایت کرنے
کے ساتھ بھارت میں پناہ لینے والے روہنگیا مسلمانوں کو نکالنے کا اعلان بھی
کردیا ہے۔ برما کے ایک اور ہمسایہ ملک تھائی لینڈ کی آواز بھی کمزور ہے اور
وہ بھی اس حوالے سے عملی اقدام نہیں کر رہا ہے۔ ان ساری کارروائیوں کا
جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف
درندگی کی جو لہر چلی ہوئی ہے، اس کے بارے میں عالمی رائے عامہ اتنی سنجیدہ
نہیں جتنی کہ ہونی چاہیے۔ برمی حکومت کی پالیسی واضح ہے اور وہ چاہتی ہے کہ
ریاست راکھائن سے مسلمانوں کا خاتمہ کردیا جائے۔ اسی لیے وہ گاہے بگاہے
وہاں فوجی آپریشن کے نام پر ان کی نسل کشی کرتی ہے، تاکہ مسلمان ان علاقوں
سے ہجرت کر کے دیگر ملکوں کی طرف بھاگ جائیں۔
برمی فوج اور حکومت کی سفاکیت سے لاکھوں مسلمان برما سے نقل مکانی کرچکے
ہیں اور آنے والے دنوں میں برما کی حکومت اور فوج برما کے دیگر علاقوں میں
سفاکیت کی مثال قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کا قتل عام کرسکتی ہے، جس کے نتیجے
میں مزید مسلمان وہاں سے انخلاء پر مجبور ہو جائیں گے۔ برمی فوج اور حکومت
کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کی قتل و غارت گری کا سلسلہ رک نہیں سکا ہے۔ ان
کی درندگی سے بچ کر تاحال روہنگیا مسلمان جان بچا کر وہاں سے نکلنے کی کوشش
کر رہے ہیں اور غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق 25اگست سے اب تک بنگلادیش کے
علاقے کاکس بازار پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کی تعداد 5لاکھ سے تجاوز
کرچکی ہے۔ ان کا اثاثہ لوٹ لیا گیا ہے اور گھر بلکہ پورے پورے گاؤں جلا کر
راکھ کر دیے گئے ہیں۔ میانمار سے بنگلا دیش آنے والوں کی جو داستانیں میڈیا
رپورٹرس کے ذریعہ ہم تک پہنچ رہی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ برمی فوج اور
حکومت نے ہزاروں روہنگیا مسلمان بچوں اور خواتین کو ذبح کیا اور ایک بڑی
تعداد کو زندہ جلایا ہے، بنگلادیش پہنچنے والے روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے
کہ برمی فوج حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کو انتہائی سفاکانہ طریقوں سے قتل
کیا ہے۔ میانمار سے لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کرکے بنگلا دیش پہنچ
رہے، لیکنبنگلا دیش میں بھی روہنگیا مسلمانوں کے مصائب ختم نہ ہوسکے،
میانمار سے فرار ہوکر کاکس بازار پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کو بدترین
صورتحال کا سامنا ہے۔ لاکھوں افراد اب بھی بھوک کا شکار ہیں اور ان کے لیے
سائبان کا انتظام نہ ہوسکا۔ تیزبارشوں نے لاکھوں مہاجرین کی پریشانی میں
مزید اضافہ کردیا ہے، شدید بارشوں سے بالوکیلی میں واقع کئی کیمپوں میں
پانی جمع ہوگیا جس کے باعث مہاجرین کو دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔ ہزاروں
بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو گود میں اٹھائے شدید بارشوں
میں خوراک کے پیکٹ ملنے کے لیے قطاروں میں کھڑی ہیں۔ سنگین صورتحال کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 15 ستمبر کو خوراک تقسیم کرنے کے
دوران بھگدڑ کے واقعات میں دو بچے اور ایک خاتون کچل کرجاں بحق ہوگئیں۔ 2
لاکھ سے زائد افرادعارضی قائم کی گئیں، جھونپڑیوں میں مقیم ہیں، جہاں بارش
سے بچاؤ کا انتظام نہیں ہے۔ یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ بنگلا دیش میں
کیمپوں میں مقیم1 لاکھ سے زائد شیر خوار بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔ یونیسیف
کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش کیمپوں میں مقیم 2 لاکھ 30 ہزار بچے بنیادی
ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔ 36 ہزار بچوں کی عمریں ایک سال سے کم، جبکہ 92
ہزار پانچ سال سے کم ہیں۔ کیمپوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ہزاروں حاملہ
خواتین بھی امداد کی منتظر ہیں۔ مہاجر کیمپوں میں روہنگیا بچے جاں بحق
ہورہے ہیں، کیونکہ وہاں ان کے پاس نہ کھانے پینے کے لیے کچھ ہے اور نہ ہی
سر چھپانے کے لیے جگہ ہے۔ بارشیں بھی زوروں پر ہیں، جس کی وجہ سے بھی
بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ بنگلادیش کے مہاجر
کیمپوں میں بچے انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ گزشتہ صرف ایک ہفتے میں 3سو
بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بھوک پیاس، ناقص غذا، آلودہ پانی اور ادوایت کی کمی
کے باعث ڈائریا، نمونیا اور دیگر بیماریوں کے شکار بچوں کی اموات کا سلسلہ
جاری ہے، جس سے روہنگیا پناہ گزینوں میں شدید بے چینی ہے۔ بنگلادیشی جریدے
ڈھاکا ٹربیون کی ایک رپورٹ کے مطابق کیمپوں سے ملحق زمینیں ان معصوم بچوں
کا قبرستان بن چکی ہیں، جن میں 90فیصد شیرخوار اور نوزائیدہ بچے ہیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ناقص غذا، آلودہ پانی اور ادویات کی کمی کی وجہ سے
مزید بچوں کے جاں بحق ہونے کا خدشہ ہے۔ تقریبا سوا دو لاکھ بچے کیمپوں میں
موجود ہیں، جن میں سے ایک لاکھ بچے شدید طبی مسائل کا شکار ہیں۔ ان کو
متعلقہ امدادی ٹیموں کی جانب سے مناسب ادویات اور فوری طبی امداد نہیں مل
رہی۔ مہاجر کیمپوں میں بچوں کی اموات کا تناسب سب سے زیادہ ہے، جو ماں کے
دودھ پر انحصار کر رہے ہیں، لیکن روہنگیا ماؤں کو پیٹ بھرنا نصیب نہیں
ہورہا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے بچوں کو دودھ پلانے سے قاصر ہیں، اسی وجہ سے
اموار بڑھ رہی ہیں۔ ٹیکناف میں کارگزار بنگلادیشی ڈاکٹر شفیق الرحمن کے
مطابق 90فیصد روہنگیا بچے ڈائریا، کھانسی، آنتو کے انفیکشن، پھیپھڑوں کے
انفیکشن، پسلی چلنے سمیت نمونیا کا شکار ہیں، جن کو کیمپوں میں طبی امداد
فراہم کی جارہی ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے طبی سہولیات ناکافی ہیں۔ ذرایع کے
مطابق بنگلادیش کے مہاجر کیمپوں میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے،
سیکڑوں ایسے مرد و خواتین ہیں جن پر بودھ انتہاپسندوں نے تشدد کر کے کان کے
پردے پھاڑ دیے ہیں، ان کے کان سے خون رس رہا ہے، لیکن کیمپوں میں ان کے
علاج کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ کئی ایسے متاثرہ مہاجرین بھی ہیں جن کو
گولیاں لگی ہوئی ہیں،ان پر خنجروں، چاقو، تلوار اور دیگر تیز دھار آلات کے
وار کیے گئے ہیں اور مختلف قسم کے زخمی کیمپوں میں موجود ہیں۔ ان کے جسموں
سے خون رس رہا ہے۔ 10ہزار افراد سے زیادہ کی ہڈیاں ٹوٹی ہوئی ہیں، جن کے
معذور ہونے کا خدشہ ہے۔ بروقت علاج نہ ہونے سے زخم ناسور بننے کے باعث جان
کا خطرہ ہے۔ کیمپوں میں ہڈی ٹوٹنے، کان کا پردہ پھٹنے اور دل کے امراض میں
مبتلا مریضوں کے لیے طبی سہولیات نہ ہونے سے مسائل بڑھ گئے ہیں۔
دوسری جانب روہنگیا پناہ گزینوں کے بچوں کو خسرہ، روبیلا اور پولیو جیسی
جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے لیے عالمی ادارہ صحت نے ویکسینیشن مہم شروع
کی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے کل یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق اقوام
متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) 68
پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے 15 سال سے کم عمر کے تقریبا ڈیڑھ لاکھ روہنگیا
بچوں کی ویکسینیشن کے لیے بنگلا دیش کی وزارت صحت کی جانب سے چلائی جانے
والی مہم میں تعاون کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی صحت سے متعلق ایجنسی نے سات
روزہ مہم چلائی ہے جس کا انتظامات اور نگرانی بھی وہی کرے گی۔ یونیسیف اس
مہم کے لیے ویکسین، سرنج اور وٹامن ایکیپسول فراہم کرے گا۔ یونیسیف کے
بنگلا دیش کے سربراہ ایڈورڈ بگ بیڈر نے کہا کہ ‘‘خسرہ متعدی اور خطرناک
بیماری ہے، خاص طور پر ان بچوں کے لیے جو پہلے سے ہی کمزور اور مناسب پرورش
و غذاسے محروم ہیں۔جبکہ بنگلہ دیش کی حکومت نے میانمار سے آنے والے چار
لاکھ روہنگیا مسلمان اقلیت کو پناہ دینے کے لیے ایک جامع منصوبے کا اعلان
کیا ہے۔ حکام کے مطابق بنگلا دیش میں امدادی ادارے فوج کے تعاون سے آئندہ
دس روز میں نیا کیمپ بنائیں گے، جس میں 14 ہزار عارضی پناہ گاہیں تعمیر کی
جائیں گی۔ روہنگیا اقلیت کے پرانے کیمپ کے ساتھ بننے والے اس نئے کیمپ میں
14 ہزار رہائش گاہوں میں سے ہر ایک یونٹ میں چھ خاندان رہائش پذیر ہوں گے۔
|