این اے 52میں دلچسپ سیاسی صورتحال

جب سے پانامہ کیس کا فیصلہ ہوا ہے ن لیگ کی پوزیشن تھوڑی کمزور ہونا شروع ہو گئی ہے فیصلہ کے فورا بعد ن کو کچھ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن بہترین حکمت عملی کے باعث اور بر وقت اچھے فیصلوں سے ن لیگ نے خود کو سنبھال لیا تھا اب نیب کی کاروائیوں اور سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق فیصلہ کے بعد حالات کچھ اس طرح نظر آ رہے ہیں کہ ن لیگ پر مشکل اور بر وقت آنے والا ہے بلخصوص سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے ن لیگ پنجاب پربہت منفی اثرات پڑیں گئے اور ن لیگ کے لیے نہایت ہی خطرات پیدا ہوتے جا رہے ہیں ان تمام حالات کے پیش نظر ن لیگ کے تمام لیڈران ہی متاثر ہوئے ہیں خاص طور پر چوہدری نثار علی خان کی سیاست ان حالات سے زبوں حالی کا کاشکار ہو گئی ہے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ نہایت ہی سمجھ دار ااور وقت پر فیصلہ کرنے والے سیاستدان ہیں لیکن اس با ر یہ تمام باتیں غلط ثابت ہوئی ہیں پانامہ کے فیصلہ کے بعد انکی سیاست پستی کی جانب رواں دواں ہے اور ہر آنے والا دن ان کی سیاسی پوزیشن مزید خراب کر رہا ہے ان کی اپنی پا رٹی کے قائدین ان سے نالاں ہو چکے ہیں انہوں نے ایک ایسے وقت میں پارٹی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا جب پارٹی پر مشکل وقت آچکا تھاجب ن لیگ کو سہارے کی ضرورت تھی لیکن چوہدری نثار علی خان نے پارٹی کا ساتھ نہ دے کر اپنی پوزیشن بہت خراب کر دی ہے ان کا یہ کام بنتا تھا کہ اگر آپ ن لیگ کی پا لیسیوں سے اتفاق نہیں کرتے تو فوری طور پر ان سے علیحدگی اختیار کر لیں یا اگر ایسا کرنا اتنا آسان نہیں تھا تو وہ پارٹی کا دفاع کرتے اچھے اور برے دن آتے رہتے ہیں لیکن مخلص وہی ہوتا جو برے دنوں کا ساتھی ہو لیکن چوہدری نثار علی خان نے مشکل وقت میں پارٹی کیلیے مشکلات میں مزید اضافہ کیا جس سے ان کی سیاسی پوزیشن مشکوک ہو کر رہ گئی ہے آج نہ ہی پارٹی کی نظروں میں ان کو قدر حاصل ہے اور نہ ہی حلقہ کے عوام ان سے خوش ہیں ہر طرف سے یہ آواز سنائی دے رہی ہے کہ انہوں نے پا رٹی کے ساتھ وفاداری نہیں کی ہے ان کا ہر اگلا قدم ان کی پارٹی میں اہمیت کو کم کر رہا ہے اور وہ چوہدری نثار علی خان جن کی مرضی اور رضامندی کے بغیر پارٹی کا کوئی اجلاس بھی ہونا ناممکن تھا آج وہ خود اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ بڑے بڑے فیصلوں میں ان سے کوئی مشورہ نہیں لیا جا رہا ہے عام عوام بھی یہ کہہ رہے کہ چوہدری نثار علی خان نے اپنی پارٹی کا ساتھ نہ دے کر زیادتی کی ہے یہی وہ تمام عوامل ہیں جن سے ان کی سیاسی ساکھ خاصی خراب ہو چکی ہے آنے والے دنوں میں اگر صورتحال یہی رہی تو ان کے لیے مشکلات مزید بڑھ جائیں گی انہی حالات کے پیش نظر پاکستان تحریک انصاف نے این اے 52 میں اپنی سیاسی سرگرمیوں مزید اضافہ کر دیا ہے ان کے ورکرز اور کارکنوں نے پہلے کی نسبت اپنی سپیڈبڑھا لی لے اور عوامی رابطہ مہم میں بھی اضافہ کر دیا ہے پاکستان تحریک انصاف کی ضلعی قیادت نے حال ہی میں خافظ ملک سہیل اشرف کو تحصیل کلر سیداں کا صدر مقرر کیا ہے جنہوں نے عہدہ سنبہالتے ہی تحصیل میں پی ٹی آئی کے حوالے سے ایک حل چل مچا دی ہے جس کی واضع مثال یہ ہے انہوں نے چند روز قبل کلر سیداں میں ایک بہت بڑی تقریب کا انعقاد کیا جس میں انہوں نے 54کے قریب عہدہ داروں کو ان کی تقری کے نوٹیفیکیشن جاری کیے ہیں ان عہدہ داروں میں یونین کونسلز اور تحصیل کی سطح پر تقرریاں عمل میں لائی گئی ہیں یک دم ایک تحصیل میں اتنے زیادہ عہدیدار مقرر کرنے سے تحصیل کلر سیداں میں پی ٹی آئی کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی آئے گی اور پی ٹی آئی کو سیا سی لحاظ سے تقویت ملے گی ادھر اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پانامہ کے فیصلہ کے بعد ن لیگ کے حوالے سے کلر سیداں میں جو سیاسی خلاپیدا ہوا تھا پی ٹی آئی اس خلا کو پر کرنے میں نا کام رہی ہے اور ن لیگ کی متاثرہ ساکھ سے استفادہ حاصل کرنے سے قاصر رہی ہے اور میرے خیال میں پی ٹی آئی نے ایک بہت بڑا موقع ضائع کر دیا ہے جس میں ن لیگ کے خلاف مہم چلا کر وہ ایک بڑا سیاسی فائدہ حاصل کر سکتی تھی بہر حال پی ٹی آئی کے مزید ایسے مواقع ابھی متوقع ہیں جن سے وہ بھر پور سیاسی فائدہ اٹھا سکے گی دوسری طرف متوقع امیدوار ایم این اے کرنل اجمل صابر راجہ بھی خاصے متحرک ہو چکے ہیں جبکہ تحصیل کلر سیداں سے ہی تعلق رکھنے والے راجہ ساجد جاوید بھی امیدوار ہیں میں یہاں میں یہ بات کھلے طور پر کروں گا کہ تحصیل کلر سیداں ن لیگ کے حوالے سے پی ٹی آئی کا کوئی بھی لیڈر اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کر رہا ہے اگر ایسا ہو رہا ہے تو وہ راجہ ساجد جاوید ہیں جو ہر وہ زبان بند کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو پی ٹی آئی یا اس کے لیڈران کے خلاف کھلتی ہے اور میں اس بات کا گواہ ہوں کہ پی ٹی آئی کے خلاف جب کبھی بھی کسی نے کوئی غلط زبان استعمال کی راجہ ساجد جاوید نے اس آواز کو اس طرح بند کرایا کہ دوبارہ اس نے کھلنے کا نام نہ لیااور اپوزیشن کا کردار ابھی تن تنہا ادا کر رہے ہیں راجہ ساجد جاوید کے بارے میں تھوڑا زکر کرتا چلوں ان کا طرز سیاست یورپین ہے جہاں پر امیدوار کا کردار اس کی پالیسیاں اور اس کا چال چلن دیکھ کر پارٹیاں ٹکٹ جاری کرتی ہیں لیکن یہ پاکستان ہے یہاں پر سب کچھ بر عکس ہے بہر حال ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھے امیدوار میں ہونی چاہیں پی ٹی آئی کی قیادت کو چاہیے کہ وہ این اے 52 اور پی پی 5کے امیدواروں کے نام فائنل کر دے تاکہ وہ امیدوار اپنا کام تسلی بخش طریقے سے شروع کرسکیں موجود صورتحال میں سب اسی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ ٹکٹ شاید کس کو ملے گا پی ٹی آئی کے حوالے سے بہتر ہو گا کہ وہ اپنے امیدواروں کا فیصلہ جلد کرے اس کے علاوہ اس حلقہ کی ایک اور اہم سیاسی شخصیت بھی ن لیگ کے حوالے سے خاصی متحرک ہو چکی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ اگلے جزل الیکشن 2018میں اس شخصیت کا کوئی نہ کوئی اہم کردار ضرور ہو گابہرحال الیکشن میں تھوڑا وقت رہ گیا ہے تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدوار جلد ہی نامزد کردیں گی جس کے متعلق آنے والے دنوں میں سب کچھ سامنے آجائے گا ۔

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 169555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.