نظام کون چلاتا ہے

الیکشن قریب ہیں اور نون لیگ کی اشتہار بازی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ میاں شریف کے بیٹے، بہو، پوتی، داماد اور دیگر نت نئے گیٹ اپ میں نظر آتے ہیں۔مفاد پرست میڈیا اِس اشتہار بازی کی مد میں روزانہ اربوں روپے کمارہا ہے اور پہلے سے طے شدہ حصہ میاں خاندان کے بیرون ملک خفیہ اکاؤنٹوں میں ڈال رہا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی آپا لیگ سے پیچھے نہیں۔ سندھ میں ترقی بام عروج پر ہے اور ہر طرف خوشحالی اور ہریالی ہے۔ بڑے بڑے اشتہاروں میں بھٹو خاندان کے شہداء اور غازی قوم کی آبیاری کرتے نظر آتے ہیں اور زرداری خدمتگاری کی ضرب المثل بن چکے ہیں۔ زرداری، غمم خواری،خودداری اور خدمتگاری کا نعرہ سندھی عوام کے دلوں کی دھڑکن اور روح کی صدا بن چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمن، اچکزئی اور اسفندیار ولی ،دلی اور کابل سے دل لگائے نئی چالوں اور حربوں کے استعمال پر غور کررہے ہیں اور پختونوں کی خدمت کی نئی منصوبہ بندی میں مشغول ہیں۔ جوں جوں الیکشن نزدیک آئینگے انہیں پختونوں کے حقوق کا غم شدت سے ستائے گا اور شیرپاؤ، ان کی ڈھارس بندھائے گا۔

ایک طرف کرپشن کے دلدل میں گوڈوں تک دھنسی سیاسی پارٹیاں قوم کو نئی فریب کاری کے جال میں پھنسانے کے حربے استعمال کررہی ہیں اور دوسری جانب سادہ لوح عمران خان اپنی غلطیاں تسلیم کررہا ہے۔ عمران خان کو شائد پتہ نہیں کہ پاکستانی قوم سچ اور سادگی کی قائل نہیں۔یہ قوم خود فریبی کا شکار ہے اور فریبی ، فراڈیوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر جینے کے نشے میں مبتلا ہے۔ اصول، ضابطے، خلوص اور خدمت اب اہل مغرب کا شیوہ ہے، مشرق کا نہیں۔ جس ملک میں کرپشن کا نام جمہوریت اور غنڈہ گردی کا نام سیاست ہو وہاں عمران خان جیسے لوگ مایوسی کے سوا کیا کرسکتے ہیں۔ عمران خان کی مایوسی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر میدان میں رہنا بھی ضروری ہے۔

عمران خان انگلش میڈیم کا طالب علم رہا ہے اور ہم نے اردو اور فارسی پڑھ رکھی ہے۔ شائد عمران خان نے چیونٹی اور تیمور کی کہانی نہیں پڑھی ہوگی اور نہ ہی اُس کے دوست ہارون رشید نے اسے سنائی ہوگی۔تیمور کو کسی جنگ میں شکست ہوگئی اور وہ اپنی سپاہ سے جدا ہوکر ایک غار میں جاچھپا۔ اس نے دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنے وزن سے بھاری دانہ اٹھاکر بل میں جانے کی کوشش کرتی ہے مگر تھوڑی دیر بعد نیچے گر جاتی ہے۔ تیمور دیکھتا رہا ار چیونٹی اپنی کوشش میں لگی رہی ۔ ایک سو بار گرنے کے بعد چیونٹی دانہ بل میں لیجانے میں کامیاب ہوئی تو تیمورغار سے باہر آگیا۔ جنگل میں گھوم کر شکست خوردہ سپاہیوں کا ایک دستہ جمع کیا اور دشمن پر شب خون مارکر انھیں ہلاک کردیا۔

ناکامیوں کا اعتراف بھی صاف ستھری اور حقیقی سیاست کا ایک پہلو ہے مگر مایوسی گناہ ہے۔ عمران خان اگلا الیکشن ہار بھی جائے تو پھر کیا ہوگا۔ جو جیت جائے گا وہ اُس کے نیزے کی نوک پر ہوگا۔ جیسے شریفوں کا شیر زخم چاٹتا پھر رہا ہے اور پوچھتا ہے کہ مجھے رسوا کرکے کیوں نکالا۔جہاں تک مملکت خداداد کا تعلق ہے تو اسے کوئی سیاستدان نہیں بلکہ پٹواری، تھانیدار اور کلرک چلاتے ہیں۔ افسراور وزیر صرف دستخط کرتے ہیں۔ ہر تھانے اور پٹوار سرکل کے ذمے ایک مخصوص رقم پہلے سے طے ہوتی ہے جسکا انتظام ہر پٹواری اور تھانیدار کرتا ہے۔ وہ اپنا حصہ رکھ کر بقیہ رقم خفیہ خانوں میں رکھ دیتا ہے جو نہایت ایمانداری سے متعلقہ محکمہ کے سربراہ تک پہنچ جاتی ہے۔ سڑکوں ، پلوں ، سکولوں ، کالجوں اور دیگر سرکاری عمارتوں کی تعمیر اور مرمت پر پہلے سے کمیشن طے ہوتا ہے جو متعلقہ ٹھیکیدار ، محکمے کے وزیر اور دیگر اہلکاروں کو کام شروع کرنے سے پہلے ہی ادا کردیتا ہے۔ سارا ملک کرپشن، کمیشن، رشوت، سفارش، دھونس دھاندلی اور غنڈہ گردی کے مضبوط اور مربوط نظام کے تحت چل رہا ہے اور سیاسی جماعتیں اس نظام ہی کی پیداوار ہیں۔ عوام اس نظام کے عادی ہیں اور اسے جمہوریت کا نام دیکر اس کی مضبوطی کے خواہاں ہیں۔ جناب عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ دلبرداشتہ نہ ہوں بلکہ عائشہ گلا لئی سے ایک بیک ڈورمیٹنگ کرلیں تو یہ معاملہ چند منٹوں میں حل ہوجائیگا۔ آخر پاکستانی جمہوریت بھی تو بیک ڈور چینل چلارہے ہیں اور حکومتیں بھی بیک ڈور ڈپلومیسی کے سہارے ہی چل رہی ہیں۔ ایوب خان، بھٹو، ضیاء الحق ، بینظربھٹو اور پرویز مشرف جب تک بیک ڈور پالیسی پر گامزن رہے حکومت کرتے رہے۔جونہی فرنٹ ڈور پر آئے ہٹا دیئے گئے۔ آصف علی زرداری نہ تو سیاستدان ہے اور نہ کوئی اعلیٰ ذہن کا حامل رہبروراہنما۔ وہ ایک شاطر انسان ہے اور بیک ڈور چینل پر چلتا ہے۔زرداری نے بیک ڈور اپنے لئے اوپن رکھا اور فرنٹ ڈور پر چین سموکر کرم خوردہ کتابوں کے رسیا جنرل کیانی کو بٹھا دیا۔زرداری نے اپنی اسی خوبی کی بناء پر پانچ سال حکومت کی اور کرپشن کی کمائی بھی بچالی۔زرداری کا سب سے بڑا کارنامہ اٹھارویں آئینی ترمیم ہے جس نے نہ صرف پاکستان کے عدالتی اورانتظامی ڈھانچے کو مفلوج کردیا بلکہ دیگر اداروں کی بھی بنیادیں کھوکھلی کردیں۔

آج پاکستان اندرونی اور بیرونی لحاظ سے غیر محفوظ اور سیاسی لحاظ سے متزلزل ہے۔ خُدا کا شکر ہے کہ بیرونی قوتوں کے اشاروں پر ناچنے والا پاکستانی میڈیا اور بیک ڈور کی برکات سے چلنے والے سیاستدانوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود پاکستان آرمی اندرونی اور بیرونی حملہ آوروں کا انتہائی جرأت اور جانفشانی سے مقابلہ کررہی ہے اور ہر محاذ پر دشمنوں کے سینوں پر چرکے لگا رہی ہے۔ پاکستانی ماؤں نے اپنے خوبصورت بیٹے اور بیویوں نے جوان اور جرأ تمندخاوند نظریاتی لحاظ سے منقسم اور فکری لحاظ بے فکر اور بے حس قوم کی حفاظت کیلئے میدان عمل میں اتارے جو ہر روز پاکستانی پرچم میں لپٹے وطن کی مٹی کو دشمنوں کے ناپاک عزائم سے پاک کررہے ہیں۔ ایک طرف یہ جوان خون وطن کی مٹی پر نثار ہورہا ہے اور دوسری طرف مریم نواز کا میڈیا سیل او راسکا ہم خیال میڈیا اس خون کی تذلیل کررہا ہے۔مولوی فضل الرحمن جماعت اسلامی کا سابق سربراہ ڈاکٹر منورحسن اور سلیم صافی ان شہیدوں کے لہو کو امریکن کتے کی شہادت پر ترجیح دے رہے ہیں۔ نوازشریف ، زرداری، الطاف حسین، اسفندیارولی، اچکزئی اور فضل الرحمن کی پہلی ترجیح اُس فوج کو دیگر اداروں کی طرح مفلوج کرنا ہے جو ان سب کی مشترکہ کوششوں سے اجڑے دیار کی پاسبان بن کر اسے مزید اُجڑنے اور برباد ہونے سے بچارہی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ عمران خان روایتی کرپٹ اور جدی پشتی مکار سیاستدان اور کسی ایوب خان اور ضیاء الحق کے کھیت کی پیداوار نہیں مگر وہ اپنی تمام تر انسانی خامیوں کے باوجود وطن دوست ، قوم پرست، اصول پرست اور جرأ تمند مردمیدان ہے۔

عمران خان کو مرکزی یا صوبائی حکومت کی فکر نہیں ہونی چائیے۔ اس کی منزل کرپشن فری پاکستان اور فکری لحاظ سے متحد پاکستانی قوم ہونی چاہئے۔ عمران خان کو سوچ بچار اور مزاج میں کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو ذکر الہٰی سے ہی ممکن ہے۔ اس کام کیلئے کسی پیر فقیر اور شیر کی ضرورت نہیں ۔ جب انسان فکری اور ذکری تنہائی میں بیٹھتا ہے تو مرشد اُسکے گھر اور دل کے دروزارے پر دستک دیتا ہے۔

قائداعظمؒ نے پاکستان فکر اور ذکر کی قوت سے بنایا ورنہ مولونا حسرت موہانی انہیں مبارک باد دینے نہ آتے کہ آپ کامیاب ہونگے اور پاکستان قائم ہوکر رہیگا۔ قائداعظم ؒ نے سوالیہ نگاہوں سے مولا نا کی طرف دیکھا اوران کو اپنا خواب سنایا ۔ فرمایا حضورﷺ نے بشارت دی ہے۔

یہ بشارت فکر اور ذکر کے بغیر ممکن نہیں۔ عمران خان میں یہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر وہ اپنی تسخیر میں کامیاب ہوگیا تو کرپشن کے بت خود بخود پاش پاش ہو جائینگے اور وطن دشمن میڈیا اپنی موت آپ مرجائیگا۔عمران خان نظام کی فکر نہ کریں۔ مملکت کا نظام بھی کائنات کا نظام چلانے والارب العالمین ہے مگر جب مخلوق اپنے خالق کو چھوڑ کر مادی بتوں اور شیطانی نظریے کی پیروکار بن جائے تو نظام شیطانی قوتوں کے ہاتھ چلا جاتا ہے جو زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا۔

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90030 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.