فرنٹ فٹ انگریزی زبان کے دو لفظوں کہ مرکب کے طور پر پیش
کئے گئے ہیں جن کا اردو میں ترجمہ اگلے قدم بنتا ہے ۔ جو لوگ کرکٹ کے شوقین
ہیں اور ساتھ ہی کرکٹ کی سوجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں انہیں تو یقیناسمجھ آگیا
ہوگا لیکن جن کو سمجھ میں نہیں آیا انہیں سمجھانے کی کوشش کر تے ہیں۔جہاں
اگلا قدم ہے تووہاں پر پچھلا قدم بھی ہوگا ، جی ہاں بلکل کرکٹ پچھلے قدم سے
شروع ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بلے باز کا اعتماد بڑھتا جاتا ہے تو وہ
اگلے قدم پر کھیلنا پسند کرتا ہے ۔ کرکٹ میں یہ قدم اسطلاحی طور پر استعمال
ہوتے ہیں یعنی اگلے قدم کا مطلب جارحانہ اورپچھلے قدم کا مطلب دفاعی حکمت
عملی کے ہوتے ہیں ۔ دوسری صورت میں بلے باز کی تکنیک اور مہارت پر عبور کی
بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی کرکٹ سے عشق کرتے ہیں اوربچپن میں گلی
محلوں میں شروع کی جانے والی کرکٹ سے ہی سیاست کی سوجھ بوجھ بھی آنا شروع
ہوجاتی ہے اور کرکٹ ہم پاکستانیوں کی سیاسی نشونما بھی کرتی ہے اور کسی حد
تک داؤ پیچ بھی سکھادیتی ہے ۔ پھر اس سیاست کو عملی زندگی میں جہاں جہاں
جاتے ہیں بلکہ جہاں تک جاتے ہیں لاگو کرتے چلے جاتے ہیں۔ کرکٹ کو سیاست کی
نرسری بھی لکھتے چلتے ہیں کیوں کہ میاں نواز شریف صاحب بھی کرکٹ کا شوق ہی
نہیں رکھتے بلکہ کھیلتے بھی رہے ہیں۔ جب سے پاکستان کی سیاست میں کرکٹ کی
دنیا کے شہرہ آفاق آلرؤنڈر عمران خان صاحب نے قدم رکھا ہے تو کرکٹ باقاعدہ
طور پر ہماری سیاست کا حصہ بن گئی ہے ۔
کرکٹ جب تک پانچ روزہ اور ایک روزہ مقابلوں کیلئے ہوا کرتی تھی تو پاکستانی
سیاست کی سوچ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہوا کرتی تھی یعنی پچھلے قدموں پر
زیادہ توجہ دی جاتی تھی اور آسان الفاظ میں دفاعی حکمت عملی کو اپنایا جاتا
تھا اور کھیل لمبا کیا جاتا تھا۔ پانچ روزہ میچ ڈرا ہوا کرتے تھے اور ایک
روزہ مقابلوں میں نتائج تونکلتے تھے مگر کھیل اپنے روائتی انداز سے ہی
کھیلا جاتا تھا یعنی دفاعی انداز سے۔ پھر اچانک سے ٹوئنٹی ٹئنٹی مقابلوں کا
انعقاد ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرکٹ کا مزاج اتنا جارحانہ ہوا کہ دنیا
دنگ رہے گئی جتنا اسکور پانچ روزہ مقابلوں کے پانچوں دنوں میں بنتا تھا وہ
اسکور صرف اور صرف ساڑھے تین گھنٹوں میں بننے لگا مقابلوں میں انتہائی
سنسنی آگئی اور جو لوگ اب تک کرکٹ کے بخار میں مبتلا نہیں تھے وہ بھی کرکٹ
کے شوقین ہوتے چلے گئے ۔ پاکستان اپنی دفاعی اور مفاہمت پر مبنی سیاسی حکمت
عملی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر کافی پیچھے رہ گیا لیکن ٹوئنٹی ٹوئنٹی
کے اثرات پاکستان کی عملی سیاست پر پڑنا شروع ہوئے سیاست دانوں نے بھی ان
مختصر ترین مقابلوں کی طرز پر سیاست کی بساط بچھانی شروع کردی۔ ایک جلسہ
ادھر ہوا تو دوسرا جلسہ کہیں اور تیار دوسری جماعتیں پہلے جلسوں کا جواب
دینے کیلئے اور جلسوں کے انعقاد کی تیار ی میں مصروف۔ کرکٹ کی طرح پاکستانی
سیاست کا نقشہ بھی تبدیل ہوکر رہے گیا ۔ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستانی
افواج نے جارحانہ مگر مستحکم انداز اپناتے ہوئے تابڑ توڑ کاروائیاں کیں اور
ملک بھر میں دہشت گردوں کیخلاف آپریشن پر آپریشن کئے اور اس سے حاصل ہونے
والے نتائج ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ خصوصی طور پر کراچی کی صورتحال قابل
داد اور قابل ستائش ہے۔
ہم پاکستانیو کیلئے سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے بانی قائد
اعظم محمد علی جناح جو کہ خود ایک قانون دان تھے اور آپ نے پاکستان کا
مقدمہ ہر فورم ہر محاذ پر لڑا اور کیا لڑاکے اپنی تو جان سے گئے مگر برِ
صغیر کے مسلمانوں کو ایک حیثیت دلا گئے۔ محمد علی جناح کا احترام کرنے والے
قانون کا احترم کیوں نہیں کرتے (جس سے یہ مان لیا جائے کہ قائد اعظم سے بھی
محبت بس واجبی سی ہے) ۔ قانون نے کبھی اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش ہی
نہیں کی شائد اس کی وجہ سیاست میں فوجی مداخلت بھی ہوسکتی ہے ۔ جو کام جب
کبھی عدلیہ کو کرنا تھا فوج نے وہ کام ان سے پہلے کردیا جس کی وجہ سے عدلیہ
ہمیشہ پچھلے قدموں پر رہی اور عدلیہ کا مزاج اسی طرز پر کاربند ہوگیا۔
موجودہ دور میں اب جب کے فوج نے اپنے آپ کو سیاست سے حکومت کرنے کے معاملات
پر کسی حد تک علیحدہ کر لیا ہے تو عدلیہ نے اگلے قدموں پر کھیلنے کی سعی کی
ہے اور ملک کی تاریخ کے اہم فیصلے کر دئیے ہیں ۔ اب جن کے خلاف یہ فیصلے
ہوئے ہیں انہیں سمجھ ہی نہیں آرہی کہ پاکستان کی عدلیہ پاکستان کے وزیر
اعظم کو نااہل دے سکتی ہے ۔جس کی وجہ سے شکوک اور ابہام کی فضاء ملک میں چل
رہی ہے ۔
پاکستان کی سیاست میں قانون کا کردار ہمیشہ سے مشکوک ہی رہا ہے ۔ چاہے وہ
بھٹو صاحب کی پھانسی ہو یا پھر میاں صاحب کو نااہل قرار دئے جانا ہو۔
پاکستان پیپلز پارٹی آج تک اس پھانسی کو سیاسی قتل کے نام سے زندہ رکھے
ہوئے اور اپنی سیاسست درپردہ اسی فیصلے پر چلائے جا رہی ہے اور اب میاں
نواز شریف صاحب اپنے خلاف دئے جانے والے فیصلے کیخلاف اپیلیں پر اپیلیں
دئیے جا رہے ہیں اور بھرپور قانونی جنگ لڑنے کے خواہشمند دیکھائی دے رہے
ہیں۔ آخر یہ سیاسی جماعتیں یا ان کے قائدین اپنی جماعت اور اپنی ذات کو
قانون سے بالا تر کیوں سمجھتے ہیں کیوں یہ عدلیہ کے فیصلوں کو چیلنج کرتے
چلے جا رہے ہیں اور افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ ہماری عوام جسے مسلسل تقسیم
در تقسیم کر کے رکھا ہوا ہے کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم
دیکھائی دیتی ہے اور ویسے بھی جارحانہ حکمت عملی میں تو دیکھا بھالا ویسے
بھی کم ہی جاتا ہے ۔ پاکستان نے قدرے کم تجربہ کار کپتان اور ٹیم کے ساتھ
چیمپین ٹرافی میں شرکت کی اور فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے اپنے سے کہیں گنا
تجربہ کار اور سپر سٹارز سے بھر پور ٹیموں کو شکست ہی نہیں دی بلکہ عبرت
ناک شکست دی اور دنیا ئے کرکٹ میں ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا
منوایا ۔ اس بین الاقوامی جیت نے دنیا کی آنکھیں کھول دیں اور پاکستان میں
بین الاقوامی کرکٹ کو واپس کھینچ لائی ۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف صاحب نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے وہ باتیں
منظر عام پر پیش کردیں جن سے پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی ترین قیادت پر
محترمہ بینظیر صاحبہ کے خون کہ الزامات ڈال دئیے ہیں اب پیپلز پارٹی بھی
فرنٹ فٹ پر آگئی ہے ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانے سے قبل موجودہ وزیر اعظم سے
کسی خاص خطاب کی توقع نہیں کی جارہی تھی لیکن سیاست میں اگلے قدموں پر کھیل
شروع ہو چکا ہے تو مسلم لیگ کی قیادت نے اس موقع کو اپنی سیاسی بقاء کی
تقریر کے طور پر وزیر اعظم کو کھل کر کھیلنے کی اجازت دی اور جناب شاہد
خاقان عباسی صاحب اور انکے ساتھ دفتر خارجہ کے افراد نے خطاب میں پاکستان
کا اتنا واضح اور موثر موقف دنیا کے سامنے پیش کیا کہ دنیا کی انکھیں کھلی
کی کھلی رہے گئیں ۔ اب اس سے نا اہل وزیر اعظم کا تو کچھ نہیں کہا جاسکتا
مگر مسلم لیگ میں نئی روح محسوس کی جاسکتی ہے ۔ سیاست موروثیت سے الگ ہوگی
تو پتہ چلے گا۔ پاکستان کی حکمران جماعت کی گرتی ہوئی دیوار کو بھرپور
سہارا مل گیا ہے اور شائد اسی کی بنیاد پر نااہل وزیر اعظم اپنے سمدھی کے
ہمراہ ایک نڈر اور بے باک سپاہی شاہد خاقان عباسی کے ساتھ وطن واپس تشریف
لے آئے ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کا پورے کا پورا مزاج جارحانہ دیکھائی دے رہا
ہے ۔ پاکستان اب فرنٹ فٹ (اگلے قدم) پر کھیل رہا ہے اور اس انداز سے کھیلتے
ہوئے دنیا میں اپنی کھویا ہوا مقام پانے کی کوشش بھی کر رہا ہے امید کی
جاسکتی ہے کہ مثبت حکمت عملی کے ساتھ جارحانہ مزاج لے کر آگے چلیں تو کسی
کو گیدڑ بھپکی دینے سے پہلے سو دفع سوچنا پڑے گا اور انشاء اللہ پاکستان
بہت جلد ناصرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا دیکھائی دیگا بلکہ خطے میں اپنا اثر
و رسوخ بھی منوا لے گا۔
|