کسی جنگل اور انسانی معاشر ے میں بنیا دی فرق ضابطہ کار
کا ہوتاہے۔جنگل میں تو صر ف طاقت آزمائی کا سیدھا سادا ضابطہ ہوتاہے۔جو
جتنا طاقتور ہو ۔اس کا مرتبہ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔مگر انسانی معاشرے میں
جنگل کا یہ قانون کام نہیں دیتا۔ضروریات ایک دوسرے سے جڑی ہونے کے سبب
معاشرے کا کوئی بھی فرد اور گروہ ایک دوسرے کے لیے ناگزیر بنا رہتاہے۔کسی
ایک کوبھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔اس لیے ایک دوسرے کو مناسب اور
جائز مقام دینے کے لیے قوانین مرتب کیے جاتے ہیں۔جب تک معاملات ان قوانین
کے مطابق چلتے رہیں۔ماحول ٹھیک رہتاہے۔ایک دوسرے کے لیے جگہ چھوڑی جاتی ہے۔
جب کبھی مناسب ضابطوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ جنگل کے قانون کااطلاق لاگو
ہوا۔تو ماحول یکسر بدل گیا۔کرپٹ اور ناجائز حکمران عموما جنگل کے قانون کے
حامی رہے ہیں۔فوجی آمرہمیشہ ناجائز اور غلط طریقہ سے حکومت پر قابض ہوئے
۔اس لیے انہوں نے سب سے پہلے آئین کو معطل کرنے کی راہ اپنائی۔آئین جو
اداروں اور عہدوں کے اختیارات کے درمیان معقول تناسب کا ضامن ہوتاہے۔ہر آمر
نے آئین کو سب سے پہلے راہ سے ہٹایا۔سبب یہ کہ یہ اس کی آمد کو قطعی طور پر
ناجائز اور غلط قرار دیتاتھا۔یہ آئین تب تک بحال نہ کیا گیا۔جب تک آمر نے
اپنی مرضی کے کچھ ججز کو عدالتوں میں عہدے دے کر اپنی آمد کو جائزاور درست
قرار دیے جانے کا حکم نامہ نہیں لے لیا۔کرپٹ جمہوری حکمران بھی ہمیشہ جنگل
کے قانون کو پسندکرتے ہیں۔زرداری دور میں ڈوگر کورٹ کو از حد سپورٹ کیا
گیا۔وجہ یہ تھی کہ یہ کورٹ زرداری کی مفاہمتی سیاست کے گھناؤنے کرتوتوں پر
چپ رہنے پر آمادہ تھی۔زرداری صاحب نے افتخار محمد چوہدری والی عدلیہ کی
بحالی کی مخالفت آخری دم تک محض اس لیے کی کہ اس عدلیہ کے ہوتے سیاہ کاریاں
ممکن نہ ہو پاتیں۔
سابق وزیر اعظم نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی کا یہ پہلو بڑا حیر ان
کن تھا۔کہ آپ جوں ہی عدالت میں داخل ہوئے۔ججزنے اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور
کہا ٹھیک ہے ۔آپ جاسکتے ہیں۔اسی کچھ منٹ کی پیشی پر تحریک انصاف کے فواد
چوہدری نے بھی اپنی تنخواہ ہلال کرنا ضروری سمجھا ۔بولے وزریر اعطم کی پانچ
منٹ کی حاضری پر لاکھوں روپے ضائع کردیے گئے۔فواد چوہدری کا یہ بیان سابق
وزیر اعظم کی اس شان بان سے عدالت حاضری کے سبب تھا۔جو گاڑیوں کی ایک لمبی
چوڑی قطار اور سینکڑوں لیگیوں کے ساتھ احتساب عدالت پہنچے۔سیاسی طاقت کا
ایک مظاہرہ اس سے قبل بھی کیا گیا۔ جب وہ لندن سے واپس وطن لوٹے تھے تو تب
بھی اعلی حکومتی اور پارٹی عہدے داران نے ان کا شاندار استقبال
کیا۔فوادچوہدری کا یہ گلہ اسی قسم کے عالی شان پروٹوکول کے سبب ہے ۔کچھ لو
گ نوازشریف کو نشان عبرت بنانا چاہتے ہیں۔کسی لاوارث کی طرح بے بس اور بے
کار بنانے کی تمنا رکھتے ہیں۔مگر نوازشریف کے پاس جانے کیا گیدڑ سنگھی ہے
کہ ان کی شان بان میں کوئی فرق نہیں آیا۔انہیں نااہل کروایا جاچکا۔مگر اس
نااہلی کو نہ عوام تسلیم کررہی ہے نہ ان کی سیاسی جماعت عوام نے ابھی کل ہی
حلقہ این اے ایک سو بیس میں سازشیوں کے سارے ہتھکنڈے بے کار بنا کر ان کی
نااہلی کو مسترد کردیا۔حلقہ کی عوام نے ثابت کردیا کہ وہ تحریک انصاف اور
ان چایس جماعتوں کی بجائے وہ نوازشریف کی جماعت کو زیادہ اہل سمجھتی
ہے۔جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے۔نوازشریف کے سوا کسی اور کی دال نہیں کل
رہی ۔چوہدری نثار نے اپنے تئیں بڑے جتن کردیکھے مگر ابھی تک وہ اتنے پارٹی
لیڈران کو ہنموا نہیں بنا پائے کہ نوازشریف کے خلاف بغاوت کا اعلان
کرسکیں۔احتساب عدالت پیشی کے بعد سابق وزیر اعظم نوازشریف کی پریس کانفرنس
میں چوہدری نثار کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ چوہدری صاحب فی الحال
پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر آمادہ ہیں۔
نوازشریف اور ان کی مخالف قوتوں میں اب زور آزمائی کی جنگ چھڑ چکی
ہے۔معاملات اب قانون اور ضابطوں کی حد سے بہت دور نکل چکے۔جس اندازمیں سابق
وزیر اعظم کو ناہل کروایا گیا۔یہ ایک طرح سے نوازشریف کو ایک کھلا پیغام
تھاکہ تم کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہو۔اس پیغام کے بعد سابق وزیر
اعظم کے پاس بھی قانون اور ضابطوں سے بالا تر اس جنگ میں کچھ اسی طرح کا
طرزعمل اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔وہ اپنی اسلام آباد سے لاہور ریلی
سے اس کا آغاز کرچکے۔اب حلقہ ایک سو بیس کا انتخاب جیت کر وہ ایک قدم آگے
آچکے۔جس طرح سے ان کی پارٹی نے ان کی صدارت کی راہ ایک آئینی ترمیم سے بحال
کرنے راہ نکالی ہے۔اس نے بھی انہیں حوصلہ دیا ہے۔ان کے مخالفین عرصہ سے یہ
کانٹا نکالنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔عدلیہ کو بھی اس کارخیر میں حصے دار
بنانا اس منصوبے کا حصہ تھا۔۔عدلیہ نے ایک لمبی چوڑی مزاحمت کے بعد ہتھیار
ڈالے ہیں۔ناں ، ناں کرتی عدلیہ شاید اپنی برداشت کی اس حد تک جا پہنچی جہاں
سے مزید ناں کی گنجائش نہیں رہتی۔ اس حد سے آگے جانے کے لیے افتخار محمد
چوہدری جیسی دلیری چاہیے ۔یا پھر خلیل الرحمان رمدے جیسی ہمت ۔ایسی دلیری
اور ہمت نہ ہونے کے سبب ہی ناں کو ہاں میں بدلنا ممکن ہوا۔معاملات اب کسی
قانون اور ضابطے کی حدود سے نکلنے کے سبب ہی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے
اصول تک آن پہنچے۔اب دونوں طرف سے طاقت آزمائی کا دور چل رہاہے۔نوازشریف
مخالفین اپنا زور آزما رہے ہیں۔اور نوازشریف اپنی طاقت دکھانے کی کوشش میں
ہیں۔حکومت وقت گلہ کرتی رہی ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کے فون ٹیپ ہورہے ہیں۔ایک
شکایت حسین نواز کی پیشی کے دورا ن ریکارڈ کی گئی تصویر تحریک انصا ف سے
متعلقہ لوگوں کے سوشل اکاؤنٹس سے جاری ہونا بھی ہے۔نوازشریف مخالف قوتوں نے
حکومت وقت کو تصوری لیک کے ذمہ دار کا نام بتانے سے روک دیا۔سپریم کورٹ نے
جے آئی ٹی کو حکم دیاتھاکہ حسین نوا زکی تصویر لیک کرنے والے کانام حکومت
کو بتایا جائے ۔مگرطاقت آزمائی کا یہ کھیل اس نام کو روکے ہوئے ہے۔سابق
وزیر اعظم بھی اب کسی طور پیچھے ہٹنے پر آمادہ نظر نہیں آرہے۔معاملات کو کو
کسی قانون کے مطابق چلانے کی بجائے بذور نبٹانے کا خطرنا ک طریقہ اختیار
کرلیا گیاہے۔نوازشریف کسی بھی قیمت پر اپنی سیاست کی بقا کی سوچ رہے ہیں۔ان
کے مخالفین انہیں کسی بھی طرح سے حرف غلط کی طرح مٹانے کے درپے ہیں۔قانون
اور ضابطوں سے ہٹ کر طاقت آزمائی کا یہ جنون محب وطن قوتوں کے لیے تشویش کا
باعث بن رہاہے۔ |