میسور کے نام سے تقریباً قارئین واقف ہی ہونگے یہ
ہندوستان کی ایک ریاست کا نام تھا مگر آجکل ایک جدید شہر کا نام ہے ۔دنیا
اس شہر کے نام سے بہت اچھی طرح واقف ہے جسکی ایک اہم ترین وجہ وہاں کہ
سلطان حیدر علی کے صاحبزادے فتح علی ہیں جنہیں دنیا ٹیپو سلطان کے نام سے
جانتی ہے۔ٹیپو سلطان کو ہم ایک سپاہ سالار یا ایک سپاہی کی حیثیت سے یاد
کرتے ہیں جبکہ وہ ایک اسکالر اور شاعر بھی تھے۔ مختصراً یہ کہ جب ٹیپو
سلطان قلعہ کے محاصرے میں بری طرح پھنس گئے تو فرنگی جرنیلوں نے انہیں بھاگ
جانے کی پیشکش کی جس پر انہوں نے وہ تاریخی الفاظ کہے جو آج تک دنیا کے
کانوں میں گونج رہے ہیں وہ الفاظ یہ تھے کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی
سوسالہ زندگی سے کہیں بہترہے۔ آپ اس محاصرے کے دوران شہید ہوئے مگر راہ
فرار اختیار نا کی اور اپنے تاریخی جملے کو عملی جامہ پہنایا۔ یہ وہ الفاظ
ہیں جو تاریخ کے اوراق میں ہیروں کی مانند جھلملارہے ہیں اور جو رہتی
دیناتک جھلملاتے رہینگے ۔
شیر جنگل کا بادشاہ ، صدر ، وزیراعظم، سپاہ سالار اورتواور منصف بھی خود ہی
ہوتاہے یہ اقتدار شیر کووراثت میں ملا اور اسکے پاس شائد نا معلوم وقت سے
ہے ۔ ان ساری خصوصیات کہ ساتھ جنگل پر شیر کاراج چل � آرہا ہے۔ شائد اب
ترقی کرتی دنیا نے جنگل پر بھی اپنا حق جتانے کیلئے یا پھر شیر کی خلاف
محاذ کھولنے کیلئے ایک ادارہ بنا دیا ہے جو جنگلی حیات اور جنگلات پر اپنا
اثر و رسوخ قائم کرنے کے درپے ہے۔ کیا معلوم اس ادارے کے موجد ایساہی
سوچتےہوں اور آنےوالی دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہوں کہ زمین پر کوئی جگہ
ایسی نہیں ہے جہاں صرف اور صرف انسانی راج ہے ۔کچھ سال پہلے ہالی وڈ نے ایک
فلم مڈاگاسکر کے نام سے بنائی یہ فلم بہت مقبول ہوئیجس کی وجہ سے اسکا
دوسرا پارٹ بھی بنایا گیا۔ اس فلم کاتذکرہ یہاں اسلئے کیا جارہا ہے کہ اس
فلم کا مرکزی کردار بھی شیر تھا ا۔اس فلم میں شیر کوبطور ڈکٹیٹر مخالف پیش
کیا گیا ہے اور جمہوری روایات کا پاسدار دیکھانے کی کوشش کی گئی ہے ایک
ایسا شیر جسکا شوق جنگل میں رہنے اور جانوروں پرحکومت کرنے کی بجائے
انسانوں کے دلوں پر حکومت کرنے کو ترجیح ہی نہیں دیتا بلکہ باقی دوسرے
جانوروں کو بھی ایسی ہی زندگی کیلئے قائل کرنے کی کوشش کرتا دیکھائی دیتا
ہے۔ دنیا کہ انسانوں نے مذکورہ قول کی نفی تو نہیں کی مگر عملی طور پر غلط
یا پھر متروک ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی جارہی ہے۔
ہمیں یہ بھی علم ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے والوں میں کچھ ایسے جہاں دیدہ
افراد بھی ہوسکتے ہیں جو ٹیپوسلطان کی کہاوت شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ
کی سوسالہ زندگی سے کہیں بہتر ہے کو خودکشی سے تشبیہ دیتے ہونگے کیونکہ
انکے پاس وقتی طور پر حالات سے پنجہ آزماجی کرنے کے سازو سامان موجود ہیں
اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی گردنوں میں
آسائشوں کے طوق لٹکا رکھے ہیں اور وہ اپنے مال و دولت کی ایماء پر گیدڑ کی
زندگی کو ترجیح دینے پر خوش دیکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی مثال لے
لیجئے ذرا کچھ ہوا فوراً ملک سے رفو چکرہو جاتے ہیں اور عوام کو تو جب خبر
ہوتی ہے جب وہ دوسرے ملک پہنچ کر وہاں سے کوئی خیریت کا بیان دیتے ہیں۔
قدرتی آفات کی زد میںآکر بھی عوام کا ہی نقصان کیونکہ حکمرانوں کو چنتا کون
ہے ۔ ہم عوام ووٹ ڈالتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ
رکھا جا سکتا ہے مگر ایک آنکھ تو ایسی ہے جو وہ بھی دیکھ لیتی ہے جو ہم خود
بھی دیکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے یعنی ہمارے من میں کیا ہے ۔
یوں تو اسلامی تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک شیر مل جائے گااورہمارے لئے کسی
ایک کی بڑائی کو واضح کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ ان شیروں کی اکثریت حکمران
تھی جب حکمران شیرتھے تو ایک ایک فرد شیر تھا اورامت شیر کا کچھار تھی یہی
وہ وجہ تھی کے مسلمان اپنے عروج پر تھے ہر طرف ان شیروں کی بہادری کے قصے
ہی نہیں جیتے جاگتے جلوے تھے۔ محرم الحرام کا ماہ مبارک ہے اور محرم ایک
اور شیر کی یاد تازہ کرتا ہے ، وہ شیر جو شیرِ خدا کالختِ جگر ہے ۔ یہ سارے
شیر ایک دن کی زندگی پر یقین رکھتے تھے اور عملی مظاہرے کر کے دیکھائے نا
تو زندگی کی بھیک مانگی اور ناہی اپنے سروں کو کٹوا دیا مگر غیراللہ کے
سامنے جھکنے نہیں دیا ۔ میسور کے سلطان ٹیپو نے یہ بات بہت اچھی طرح سے
سمجھ لی تھی جسے انہوں نے اپنی زبان مبارک سے ادا کیا اورنبھا کر بھی
دیکھایا ۔
اکیسویں صدی نے ایک دن کی زندگی سے پیار کرنے والے شیروں کی افزائشِ نسل پر
پابندی لگادی یہ پابندی اسائشوں کی مرہون منت تھی اور جو باقی شیر تھے
انہیں سرکس میں بھرتی کرنے کا حکم دیا گیا کچھ کو چڑیا گھر میں بچوں کو خوش
کرنے کیلئے قید کردیا گیااور رہی سہی کثر انتخابی نشانوں کے حوالے کردی
گئی۔ہم عرصہ دراز سے اپنے اسلاف کی طرز پر لڑنے مرنے والے شیروں کا انتظار
کر رہے ہیں جبکہ دنیا کی بدلتی ہوئی روایات نے شیروں کو بھی سمجھا دیا کہ
گیدڑ کی سوسالہ زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے بہت بہتر ہے ۔ اب شائد جو
شیر ہیں وہ گیدڑوں کی کھال پہن کراپنی اپنی زندگیا پرتعیش طور سے گزار رہے
ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو شہری زندگی میں اتنا الجھا دیا ہے کہ انہیں
تو یہ بھی نہیں معلوم کے ہمیں تو قدرت نے بادشاہت کیلئے پیدا کیا تھا۔ شیر
کے ساتھ ہونے والی اس ستم ظریفی میں شائد ہی کسی جنگلی جانور کا حصہ ہو
کیونکہ یہ سارا کچھ تو معاشرتی جانور کا کیا دھرا ہے ۔ جنگل میں راج آج بھی
شیر کا ہی ہے مگر جنگل کے جانوروں کو بھی نہیں پتہ کہ اصل میں شیر ہے کہاں۔
کیا ہمیں ٹیپوسلطان کے اس قول میں استعمال ہونے والے الفاظ میں ردو بدل
کرنی ہوگی یا پھر ہم اس کی بقاء کیلئے کوئی عملی اقدام کرنے والے ہیں؟یہ
سوال ہم سب کیلئے ہے۔
|