پاکستان کی خوشحالی کے دو بڑے اسباب پر بات کی تھی اور
ان اسباب کی موجودگی کی وجہ سے یہ سوچ لینا کہ مستحکم حکومت موجود ہے سوال
ہی نہیں پیدا ہوتا جب تک وہ اسباب شفاف اور خالص نہ ہوں۔ بھٹو صاحب کا طرزِ
حکمرانی جمہوری ہر گز نہیں تھا بلکہ شخصی آمریت کا معاملہ لگتا تھا اور اس
کے آثار بھی نظر آنے لگے تھے پیپلز پارٹی بنانے والے نظریاتی لوگ آہستہ
آہستہ پسِ منظر میں جانے لگے تھے انہیں نظرانداز کیا جا رہا تھا اور ان کے
ہوتے ہوئے ون مین شو نہیں چل سکتا تھا اور یا تو وہ نکال دئیے گئے یا انہیں
پیپلز پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ۔بھٹو صاحب پاکستان میں اس وقت کے
مقبول ترین سیاست دان کے طور پر سامنے آئے اس مقبولیت کے پیچھے ایوب خان کا
ہاتھ واضح اور نمایاں نظر آیا ورنہ اچانک لاہور ائیر پورٹ پر بھارتی ہائی
جیک شدہ طیارے کی ہنگامی لینڈنگ اور ان اغواہ کار بھارتی خفیہ ایجنسی را کے
ایجنٹوں سے ملاقات اور جو خبر دوران سفر ہی بھٹو صاحب کو مل چکی تھی اس سے
لا تعلقی کا اظہار ان کی ساری شہرت پر پانی پھیرنے والا عمل تھا اور پھر
ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب نے جو پر پرزے نکالے اس پر بھی بھٹو کی مقبولیت
ہونا سب افسانہ سا لگتا ہے۔وہ مثال تھے جو آگے بڑھی لیکن وہ اچھے سیاست دان
نہیں تھے صرف مقبولیت سے کچھ نہیں ہوتایہی وجہ تھی کہ اب تک جمہوری حکومت
مستحکم نہیں ہو پائی ہاں البتہ فوجی حکومت ضرور مستحکم ہوئی ۔ایوب خان،ضیا
ء الحق اور پرویز مشرف کی مثال ہمارے سامنے ہے اور یہ صرف ہماری بات نہیں
کوئی ایک بھی اسلامی ملک ایسا دکھا دیں جہاں جمہوریت ہو۔ اور جہاں بادشاہت
نہیں وہاں شخصی آمریت ہے خواہ وہ جمہوریت کے پردے میں ہو۔اور بھٹو صاحب نے
اسی انداز میں اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش کی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ
یہ ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہے ۔ملک کا دفاع کرنے والے ذلیل کئے جائیں گے
تو سرحدوں کو خطرہ لاحق ہو گا دوسرا ہدف انہوں نے بیورورکریسی کو بنایا اور
اسکے بعد بیوروکریسی میں ایماندار افسروں کی گنجائش نہیں رہی تھی اور صرف
خوشامدی ہی اپنے عہدوں پر رہ پائے ۔عام عوام اچھی طرح سمجھ سکتی ہے کہ اہل
افسر کس طرح حکومت کی راہ نمائی کرتے ہیں اسے غلط اور نقصان دہ فیصلوں سے
بچاتے ہیں سربراہِ مملکت تو بہت دور کی بات ہے وزیر کو ہی اپنے شعبے کے
بارے میں کیا علم ہوتا ہے ! کچھ بھی نہیں !! وہ تو مشیروں کا محتاج ہوتا ہے
اور تمہیں یاد ہو کہ اوپر سے جو مثال قائم ہوتی ہے نیچے تک اسی مثال پر عمل
کیا جاتا ہے جو اوپر خوشامد کرتے ہیں وہ نیچے والوں سے خوشامد کراتے ہیں
خوشامدی مشیر ہوں گے تو ان کے ماتحت اور ماتحتوں کے ماتحت سب خوشامدی ہوں
گے۔ خوشامدی ہوں گے تو یا تو اہلیت سے محروم ہوں گے یا اپنی اہلیت کو
بالائے طاق رکھ کر خوشامد پر گزارا کرنے کی کوشش کریں گے۔اس طرح امورِ
مملکت کیسے چل سکتے ہیں ؟؟؟؟ ایوب خان فوجی آدمی تھے ۔ معیشت کے بارے میں
کیا جانتے تھے لیکن انہوں نے لائق اور ایماندار لوگوں کو اکٹھا کیا مشرف نے
بھی اپنے آمریت والے دور میں ایسا ہی قدم اٹھایا تھا ،میرٹ کی بنیاد رکھی
لیکن بعد میں جب سیاست میں آکر سیاسی پارٹی سے گٹھ جوڑ کیا تو خراب ہوا۔پھر
ان اہل لوگوں کے مشورے سنے اور ان پر عمل کیا وہ پنج سالہ منصوبے کامیابی
سے مکمل کئے گئے ان کے نتیجے میں معیشت متوازن ہوئی صنعت کو فروغ ملا
برآمدات میں اضافہ ہوا خام مال کی بجائے مصنوعات برآمد کی گئیں جس سے زر
مبادلہ بڑھا ملک وہاں کھڑا تھا جہاں سے ترقی کی راہ صاف دکھائی دے رہی تھی
خوشحالی آ چکی تھی اور اس میں اضافہ ہونا تھا لیکن بھٹو صاحب نے صنعتوں کو
قومیانہ شروع کر دیا ۔جو کہ ان کے منشور میں تھا اور انہیں ہر حال میں ان
پر عمل کرنا تھا لیکن یہ بات ان تین جملوں کی تھی جو بائیں بازوؤں سے تعلق
رکھنے والے پیپلز پارٹی کے باغیوں نے بڑی ذہانت سے ترتیب دئیے تھے ۔اسلام
ہمارا دین ہے ،جمہوریت ہماری سیاست ہے اور سماجیت ہماری معیشت ہے ۔لیکن یہ
وہ لوگ تھے جنہیں آج تک کبھی عوامی سطح پر پذیرائی نہیں ملی انہوں نے سمجھ
لیا کہ اس ملک میں نمازی چاہے دس فیصد بھی نہ ہوں لیکن عوام اسلام کے خلاف
کوئی معمولی سی بات بھی برداشت نہیں کریں گے کوئی نظام تو بہت دور کی
بات۔اس لئے اسلام ہمارا دین ہے سے شروعات کی گئی ۔اور جہاں تک جمہوریت
ہماری سیاست ہے کا تعلق ہے تو عملی طور پر ثابت کیا گیا کہ یہ محض ایک نعرہ
ہے ۔ڈپلومیسی بہت اہم ہوتی ہے سفارتی آداب کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اقوام
متحدہ سب سے بین الاقوامی فورم ہے ،اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ
حالت جنگ میں ہے اور کوئی تیسرا اس کی جنگ بندی کروانے کیلئے قرارداد پیش
کرتا ہے تو ا س ملک کے مندوب کی ذمہ داری ہے کہ اس قرارداد کو بڑی ذمہ داری
کے ساتھ پڑھے اور اپنے اکابرین سے مشاورت کرے اس میں ترمیم پیش کرنے کا ،
اس پر اعتراض کرنے کا اس کا پورا حق ہے کہ ڈپلومیسی میں افہام و تفہیم سے
کام لیا جائے ۔ اسے مسترد کرنے کا بھی حق بنتا ہے لیکن اس کے پرزے پرزے کر
کے پھینکنا اور ہزار سال لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے اس فورم سے واک آؤٹ کرنا
ڈپلومیسی کی مخالفت ہی نہیں ،بد تمیزی بھی ہے۔یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس
کے مقاصد کیا تھے ؟اس سے پاکستان کی رسوائی اور جگ ہنسائی کے سوا کیا حاصل
ہوا؟ اگر آپ وہ قرارداد منظور کر لیتے تو آپ کی فوج ریکارڈ تعداد میں
ہتھیار ڈالنے کی ذلت سے بچ جاتی توکیا یہ دانستہ طور پر کمائی گئی ؟ ایسے
بہت سے سوال ہیں لیکن پوچھنے والا کوئی نہیں ۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔ |