امریکہ میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے تازہ بیانیے جس
میں انہوں نے حقانی نیٹ ورک، حافظ محمد سعید اور لشکر طیبہ کے حوالے سے بات
کی ،پر بھارت میں جشن کا سماں دیکھنے کو ملا۔بھارت اور بھارتی میڈیا چیخ
چیخ کر کہہ رہے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ جو ہم کہتے تھے ہو بہو پاکستان نے
تسلیم کر لیا ہے سو اب اسے اگلے اقدامات بھی وہی کرنے چائیں جو ہم کہتے
ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواجہ آصف سے اس طرح کے بیانات کون دلوا رہا
ہے۔بھارت روز کشمیریوں اور ملک میں مسلمانوں کا قتل کرتا ہے لیکن وہاں کبھی
کوئی نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے اور بھارت کو یہ رویہ تبدیل کرنا چاہئے۔آخر
کیوں؟ صرف اس لئے کہ انہیں پتہ ہے ایسا کرنے سے ان کے ملک کو لازمی نقصان
پہنچ سکتا ہے لہذا ملک کی خاطر سچ کو بھی جھوٹ بنا دیا جاتاہے اور ہمارے
ہاں کہانی بالکل الٹ ہے۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ اس بیانئے سے چندروز پہلے چین
میں منعقدہ 5ملکی کانفرنس (برکس) میں بھارت نے اعلامیہ میں پاکستان کے
حوالے سے خصوصی شق شامل کروائی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان میں
دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جن کے خلاف عالمی طاقتوں کو منظم ہونا ہو گا۔
بھارت نے پہلے ڈوکلام سے فوجیں واپس بلا کر اپنے حوالے سے چین کے رویے میں
نرمی پیدا کی تو دوسرا وار کرتے ہوئے اس نے انتہائی چالاکی کے ساتھ ان
تنظیموں کے نام اعلامیے میں شامل کروا دیئے تھے جن کے ساتھ نہ بھارت کا
کوئی لینا دینا ہے، نہ چین کا اور نہ ہی باقی تین ممالک یعنی برازیل، روس
یا جنوبی افریقہ کا۔ مثلاً اس فہرست میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کا نام بھی
ڈال دیا۔ اعلامیہ منظور ہوا تو پاکستان میں ہاہاکار مچ گئی اورپھر پاکستان
نے اس اعلامیے کو پہلے تو مسترد کیا اور پھر یہ کہہ دیا گیا کہ اس اعلامیے
میں جن تنظیموں کا ذکر ہے وہ تو پہلے ہی پاکستان میں کالعدم ہیں۔خواجہ آصف
نے مزید نہلے پہ دہلا پھینکتے ہوئے حافظ محمد سعید جیسے فردکو بوجھ قرار دے
دیا کہ جن پر ملک میں کوئی مقدمہ نہیں۔ان کی جماعت نے کبھی ملک میں ایک پتہ
نہیں توڑا ۔ان کا جرم یا تو ملک و قوم کی خدمت ہے یا پھر بھارت و امریکہ
جسے دشمنوں کے عزائم سے قوم کو آگا ہ کرنا اور متحد کرنا جس پر دشمن بہت
سیخ پا ہے اور صرف چند پیسے لینے کے لئے ہمارے وزیر دفاع ملک کا دفاع ہی
توڑ ڈالتے ہیں۔انہیں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے تمام الزامات سے بریہ
قرار دیا ہے ۔اور ہاں!اگر ہم افغان جہاد میں روس کے خلاف نہ جاتے تو آج نہ
یہ ملک ہوتا اور نہ خواجہ آصف اس ملک کے وزیر دفاع اور نہ خاقان عباسی وزیر
اعظم۔ روس کے لئے افغانستان میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔اس کا اگلا ہدف گرم
پانیوں تک پہنچنے کے لئے سیدھا پاکستان تھا لیکن عقل کے اندھوں کو یہ کون
سمجھائے۔
برکس کانفرنس کے چند دن بعد جاپانی وزیراعظم نے بھارت کا دورہ کیا تو جہاں
بھارت نے جاپان کے ساتھ کئی بڑے معاہدے کئے وہیں اس نے مشترکہ اعلامیے میں
ایک بار پھر لشکر طیبہ اور جیش محمد کی مذمت بھی شامل کر دی۔ اب سوچا جائے
تو سمجھ نہیں آتی کہ جاپان کا لشکر طیبہ یا جیش محمد کے ساتھ کیا لینا دینا
ہے کہ وہ برکس تنظیم کے ممالک کی طرح بلاوجہ مذمت کئے جا رہا ہے۔ ظاہر ہے
وجہ تو اور کوئی نہیں اور اگر ہے تو وہ ایک ہی ہے کہ بھارت ساری دنیا کو
کسی نہ کسی طرح پاکستان کے خلاف مجتمع کر رہا ہے اور ہم بھارت کی اس سازش
اور مہم کا توڑ کرنے کے بجائے خود وہی باتیں کر رہے ہیں جو ہمارا دشمن کر
رہا ہے۔ ہمارے ملک کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بزبان خود کہا کہ ہمیں
اپنے گھر کو پہلے درست کرنا ہوگا پھر ساتھ ہی بھارت کی طرح لشکر طیبہ اور
جیش محمد کا نام لے لیا۔ ان کی مزید تصدیق و تاکید وزیر داخلہ احسن اقبال
نے بخوبی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا
ہو گا۔ ان بیانات پر سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو کہنا پڑا
تھاکہ ہمارے آرمی چیف تو دنیا کو کہہ رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف
بہت کچھ کر لیا ہے، 10ہزار فوجی افسران اور جوانوں سمیت 80ہزار پاکستانی اس
جنگ میں جانیں دے چکے ہیں۔ اسی لئے اب باقی دنیا کو بہت کچھ کرنا ہو گا تو
دوسری طرف ہمارے حکومتی عہدیداران ان کے الٹ زبان استعمال کر رہے ہیں۔ ان
لوگوں کی موجودگی میں ہمیں واقعی ہیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے بدترین دشمن بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے الفاظ اور ہمارے وزراء
اور خاص کر وزیر خارجہ کے امریکہ میں کہے گئے الفاظ میں مطابقت بہت خطرناک
ہے۔ بھارت ایک عرصہ سے ہمیں عالمی سطح پرتنہا کرنے کے لئے عالمی مہم چلا
رہا ہے۔ اس کی عالمی سفارت کاری انتہائی موثراور مربوط ہے۔ اس کانتیجہ یہ
ہے کہ بھارت کا جادو جہاں دنیا بھر میں سر چڑھ کر بول رہا ہے تو وہیں ہم
دنیا میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ بھارت نے کمال مہارت سے امریکہ کو ہمارے
خلاف کر کے ہمارا باطنی سے ظاہری دشمن بھی بنا ڈالا جبکہ ہم حقیقت بیان
کرتے ہوئے کانپ رہے ہیں۔ لشکر طیبہ ہو یا حزب المجاہدین یا تنظیمیں سب
مقبوضہ کشمیر سے آپریٹ ہو رہی ہیں۔ بھارت خود تسلیم کرتا اور کہتا ہے کہ
لشکر طیبہ مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کی پسندیدہ ترین اور مقبول ترین تنظیم
بن چکی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد درجنوں کی تعداد میں جو کشمیری
مجاہدین شہید ہوئے ان کے بارے میں خود بھارتی فوج اورحکومت نے بار بار
اعلان کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ان کا تعلق لشکر طیبہ سے تھا۔ یعنی یہ تنظیم
تو مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور کشمیری اس کے پشتی بان ہیں،
تو اس صورتحال میں پاکستان یہ کیوں نہیں کہتا کہ جب آپ خود تسلیم کرتے ہیں
لشکر طیبہ میں کشمیری خود شامل ہیں تو ہمارا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ یہی
صورتحال حزب المجاہدین کی ہے۔ پاکستان میں ایک زمانے سے کسی شخص نے دعویٰ
نہیں کیا کہ وہ اس کا ذمہ دار ہے اور نہ کبھی کسی نے یہ بتایا کہ فلاں مقام
پر ان کا کوئی دفتر یا مرکز ہے تو پھر ہم خود کوکیوں مجرم بنائے ہوئے ہیں۔
چاہئے تو یہ تھا کہ ہم کشمیر کے مسئلہ کو دنیا بھرمیں اجاگر کرنے کی سنجیدہ
مہم چلاتے، اس کی منصوبہ بندی کرتے کیونکہ دنیا میں جتنا مضبوط مقدمہ کشمیر
کا ہے اتنا اور کوئی نہیں لیکن جب وکیل ہی مقدمے میں دلچسپی نہ لے تو اس کی
بات کو کس نے اور کیوں سننا ہے۔ کشمیری ہماری اور صرف ہماری تکمیل و بقا کی
خاطر70سال سے ماریں کھا رہے ہیں لیکن ہم ان کی خاطر نہ سہی اپنی خاطر ہی
سہی ان کا مقدمہ دنیا میں چلانے کے بجائے اپنے خلاف وہ مقدمہ دائر کرنے پر
تلے ہوئے ہیں جو مودی دنیا بھرمیں ہمارے خلاف لے کر چل رہا ہے۔ ہمارایہ
رویہ کسی طور درست قرارنہیں دیا جا سکتا۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت اس کشمیر کے
راستے ہمارا پانی بند کرنے کی انتہائی تیز منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ حالیہ
دنوں میں بھارت نے یکطرفہ ہٹ دھرمی کو اختیارکرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ
دریائے چناب پر زیرتعمیر مختلف آبی منصوبوں پر بات چیت سے انکار کر دیا ہے۔
عالمی بینک بیان دیتا اور ہم مطالبات کرتے رہ گئے۔ اقوام متحدہ جیسے اسلام
اور پاکستان ادارے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے پانی کے حوالے سے منصوبہ بندی
نہ کی اور بھارت سے اپنے دریا چھڑانے کی کوشش نہ کی تواگلے چند سال میں یہ
ملک افریقی صحرا کا منظر پیش کرے گا اور انہیں زرعی اجناس بھی درآمد کرنے
پرمجبور ہونا پڑے گا یعنی ہماری بقا تو کشمیر کی آزادی اور بھارت کے ساتھ
اپنے معاملات حل کرنے سے وابستہ ہے نہ کہ بھارت کی زبان استعمال کرنے
سے۔ہمارے پاس بلوچستان، سندھ سے لے کر چھوٹے بڑے دھماکوں تک بھارت کے خلاف
شواہد موجود ہیں توہم انہیں کیوں بھارت کے خلاف دنیا کے سامنے نہیں لاتے۔
دنیا کی چوتھی ایٹمی اور چھٹی بڑی ریاست کے حکمران ہیں تو وہ اس ملک کے
قائم رہنے کی وجہ سے ہیں اور اس ملک کا دفاع بھی ان کی ہی ذمہ داری ہے۔ اس
ملک سے باہر نکل کر ان کی حیثیت ایک عام انسان سے زیادہ نہیں ہوتی۔ جو
اربوں، کروڑوں کی تعداد میں پھر رہے ہیں۔ گزارش یہ ہے کہ دشمن کی زبان
بولنا چھوڑیئے اور ملک و عوام سے مخلص ہو کر اس کے دفاع کے لئے دشمن کو
پہچانتے ہوئے اس کی دشمنی کا توڑ کیجئے۔ وگرنہ ہم سوائے کف افسوس ملنے کے
اور کچھ نہیں کر سکیں گے۔ |