لٹیروں کی لوٹ مار ختم اور غریب عوام کے مسائل حل ہوں گے

سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیل ملز میں کرپشن کی تحقیقات روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 26 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے کیا اس معاملے کو چھوڑ دیں۔ بااثر ملزمان پر کوئی ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں۔ اسٹیل ملز کے وکیل فخر الدین جی ابراہیم نے عدالت کو بتایا کہ کرپشن تحقیقات کی وجہ سے مل کو ماہانہ ایک ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم تو اسکاٹ لینڈ یارڈ بھی نہیں ڈھونڈ سکتی۔ اگر تحقیقات جاری رہیں تو اسٹیل مل بند ہوجائے گی۔ انہوں نے عدالت سے تحقیقات روکنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے استدلال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 26 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس کیس کو چھوڑ دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بااثر ملزمان کو پکڑو اور پراگریس رپورٹ لاؤ۔ انہوں نے کہا کہ پوری دنیا چیخ رہی ہے کہ اسٹیل ملز میں کرپشن ہوئی ہے ہم لوٹی ہوئی دولت واپس لانا چاہتے ہیں۔

اُدھر عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن تیزی سے بڑھ رہی ہے جس سے عام آدمی بدحالی کا شکار ہے اور سرمایہ کاروں کیلئے یہاں کام کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

مملکت پاکستان کو آزاد ہوئے 63 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن ہم ابھی تک جسمانی طور پر تو آزاد ہیں لیکن ذہنی طور پر اب بھی انگریزوں کے دیئے ہوئے پرانے اور فرسودہ قانون پر چل رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا درست ہے کہ ساری عوام کرپشن پر چیخ رہی ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان کے غریب عوام بھوک' غربت اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشیاں کر رہے ہیں اور اپنے معصوم بچوں کو فروخت کر رہے ہیں' مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے اور ان کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے۔ لیکن دوسری طرف بھوک اور افلاس کے شکار عوام پر مسلط حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور ان کے اللوں تللوں میں کسی قسم کا کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ سٹیل ملز اور دوسرے قومی اداروں میں کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام ہوچکی ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں نے عوام کے جسموں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ حکومت ہر دفعہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور بجلی کے ریٹوں میں اضافہ کر کے مالی بحران پر قابو پاتی ہے لیکن یہ بحران ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا ایک بے قابو جن ہماری معیشت اور غریب عوام کو نگل رہا ہے۔ یوٹیلٹی بلوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے عوام اب یہ کہنے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ اس جمہوریت سے آمریت ہی اچھی تھی جب چینی 35 روپے کلو تھی' آٹے کا تھیلا300 کا تھا اور بجلی کے ماہانہ بل جو پہلے ہزار 'پانچ سو آتے تھے اب پانچ سے دس ہزار روپے کے درمیان آتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف حالت یہ ہے کہ اس غریب ملک کی غریب عوام پر وزراء کی فوج ظفر موج مسلط کر دی گئی ہے جن کو ماہانہ کروڑوں روپے تنخواہ ' ٹی اے ڈی اے اور سفری اخراجات کی مد میں عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کیے جاتے ہیں لیکن ان کی کارکردگی بالکل صفر ہے۔ دنیا کے کسی ملک کے حکمران اتنے غیر ممالک کا دورے نہیں کرتے جتنا کہ پاکستان کے حکمران اور سیاستدان کرتے ہیں اور وہ بھی سپیشل الگ طیارے لے کر بیرون ممالک جاتے ہیں۔

اب حکومت سات نومبر سے سرکاری اداروں میں کرپشن کے خلاف مہم شروع کر رہی ہے۔ انسداد کرپشن کا کام کسی نائب قاصد سے نہیں بڑے افسر سے شروع ہوتا ہے۔ جب اوپر رشوت نہیں ہوگی تو نیچے خود بخود ختم ہوجائے گی۔

ایران کے صدر کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ایرانی صدر کو جب بھی بیرون ممالک کا دورہ کرنا پڑتا ہے تو وہ ہمیشہ کمرشل فلائٹ سے سفر کرتے ہیں۔ وہ اپنی سرکاری تنخواہ لینے کی بجائے کالج میں لیکچر دینے سے انہیں جو آمدنی ہوتی ہے اسی سے ہی گزارہ کرتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن میں امریکہ اور انگلینڈ جیسے ممالک کے صدر اور وزیر اعظم جب عہدے سے ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو انہیں زندگی گزارنے کیلئے کوئی نہ کوئی کام کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن ہمارے غریب اور قرضوں سے جکڑے ہوئے ملک کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اربوں کھربوں روپے بیرون ممالک کے بینکوں میں جمع ہیں ان کی اولادیں بھی وہی تعلیم حاصل کرتی ہیں اور جب یہ ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر حکومت سے الگ ہوتے ہیں تو مجبور اور بے کس عوام کو بیچ چوراہے میں چھوڑ کر پہلی فلائٹ سے ہی بیرون ممالک روانہ ہوجاتے ہیں۔

من حیث القوم ہماری رگوں میں رشوت ' کرپشن ' سفارش اور دھونس دھاندلی دوڑ رہی ہے۔ اب کسی ایک ادارے یا چند افراد تک یہ وباء محدود نہیں ہمارے بڑے بڑے قومی ادارے ان بیماریوں کی بدولت ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں اور ذمہ داران کو کڑی سزا دینے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ سٹیل ملز میں کرپشن آج کی بات نہیں۔ یہ کہانیاں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ ماضی میں بھی سٹیل ملز جیسے قومی ادارے میں چند بااثر افراد نے اربوں کی کرپشن کی ہے لیکن قابل تشویش عمل یہ ہے کہ ابھی تک کسی حکومت نے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کر کے اس قومی ادارے کو بچانے کیلئے عملی اقدامات نہیں کیے اور اب اگر سپریم کورٹ نے یہ بیڑہ اٹھایا ہے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور ذمہ داران کو قانون کے شکنجے میں جکڑنے کا عزم کیا ہے تو مختلف حیلوں اور بہانوں سے یہ باور کرایا جارہا ہے اس سے سٹیل ملز کا کام متاثر ہوگا۔ ایسے تو دوسرے اداروں میں بھی کرپشن پر یہ جواز ڈھونڈا جائے گا کہ تحقیقات نہ کی جائیں کیونکہ کام متاثر ہو رہا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کو صرف اس لئے چھوٹ دی جائے کہ تحقیقات میں وقت ضائع ہو رہا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک و قوم کو مہنگائی ' غربت ' بے روزگاری اور مختلف بحرانوں سے نجات دلانے کیلئے نہ صرف سٹیل ملز بلکہ جن جن اداروں سے چند بااثر افراد نے کرپشن کے ذریعے قومی دولت لوٹی ہے وہ واپس لائی جائے اور ذمہ داران کو نشان عبرت بنایا جائے۔ اگر ہم نے اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس نہ کرتے ہوئے ان مجرموں کو تحفظ فراہم کیا اور کرپشن پر خاموشی اختیار کی تو صاف نظر آرہا ہے کہ ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائے گا اور اس کا اثر صرف غریب عوام پر ہی ہوگا کیونکہ بااثر اور امیر لوگ تو دوسرے ملکوں میں جاکر پرتعیش زندگی گزاریں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جس طرح قومی اداروں کو لوٹنے والوں سے ملکی دولت واپس لانے کا عزم کیا ہے اس سے غریب عوام کی زندگیوں میں ایک امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے کہ شاید اب اس ملک سے لٹیروں کی لوٹ مار ختم اور غریب عوام کے مسائل حل ہوں گے۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 49135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.