جمہوریت کے نعرے لگانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے

اس وقت پاکستان کے عوام تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ باالخصوص اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک طرف کوئی صبح ایسی طلوع نہیں ہوتی ہے کہ جس دن بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو اور دوسری طرف بجلی اور گیس کے بل اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اور گھر کا سامان فروخت کرکے بل ادا کر رہے ہیں لیکن ستم یہ کہ ان حالات میں بھی ہر ماہ بلوں میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے۔ چینی کی قیمتیں 125روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں' اسی طرح پیاز' آلو' لہسن' دالیں اور گھی کی قیمتیں بھی آئے روز بڑھ رہی ہیں دودھ فی کلو60روپے فروخت ہو رہا ہے' اس تمام تر ظلم و ستم سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ وہ حکومتی ادارے بھی غائب ہیں جن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول کریں۔ ہر شہر' ہر مارکیٹ اور ہر بازار حتیٰ کہ ہر دوکان والے نے اپنی مرضی کے ریٹ لگائے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس تباہی اور بربادی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت پر یا عوام پر کیا حکومت کا یہ بنیادی فرض نہیں کہ وہ ریاست کے شہریوں کے لئے روٹی' کپڑا' مکان اور تحفظ کے لئے عملی اقدامات کرے؟ کیا آئین پاکستان میں یہ درج نہیں کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کے لئے روٹی' کپڑا اور مکان کے علاوہ اس کی جان اور مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے اور سب سے بڑھ کر پاکستان پیپلزپارٹی اسی نعرے کے تحت اقتدار میں آچکی ہے تو کیا وجہ ہے آج عوام بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشیوں پر مائل ہو رہے ہیں' آئے دن خبریں سامنے آتی ہیں کہ باپ نے بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر اپنے بچوں کو زہر دے دیا اور خود بھی خودکشی کی' کوئی ماں اپنے لخت جگروں کے ساتھ ٹرین کی پٹری پہ لیٹ جاتی ہے تو کوئی ماں قرض اتارنے کے لئے اپنی تیرہ سالہ بچی فروخت کرتی ہے' کئی واقعات ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ غربت کے ستائے لوگ اپنے بچوں کو فروخت کر رہے ہیں تو کئی اپنے گردے بیچ رہے ہیں' کوئی اپنے بچوں کی بھوک کو نہیں دیکھ سکتے اور انہیں ایدھی چائلڈ ہوم یا مختلف اداروں کے حوالے کرتے ہیں ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ساڑھے سات کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں۔ 13 کروڑ لوگوں کی روزانہ کی آمدنی170روپے ہے' پاکستان کے وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہوچکا ہے' اقتدار سے لے کر کارخانوں اور جاگیروں تک چند خاندان اور گروہ ہی قابض ہیں۔

خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوکا مرے تو اس کا بھی حساب مجھ سے مانگا جائے گا لیکن آج اسلامی ملک کے حکمرانوں کے رویے یہ ہیں کہ ملک کے اکثر عوام کو ایک وقت کا بھی پورا کھانا میسر نہیں اور حکمرانوں کے محلوں میں زندگی کی تمام آسائشیں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ ان کے اللے تللے جاری و ساری ہیں۔ آئی ایم ایف اور دوسرے سودی اداروں سے قرضے لاتے تو ہیں مگر یہ خرچ عوام پر نہیں ہوتے ہاں مگر ادا کرنے کے لئے عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے۔ ایوان صدر ہو یا وزیراعظم ہائوس ان دونوں ایوانوں کے ماہانہ اخراجات اگر کم کئے جائیں تو ہزاروں خاندانوں کو روٹی فراہم ہوسکتی ہے۔ غریب ملک پر وزیروں کی ایک فوج مسلط کر دی گئی ہے۔ غیر ملکی دورے بھاری وفود کے ساتھ جاری ہیں' ایک ایک وزیر کے لئے جس تعداد میں گاڑیاں' گارڈ اور تیل کا خرچہ ہے اس کا حساب کیا جائے تو یہ عقدہ کھلے گا کہ اس سے کئی خاندانوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں' جس ملک میں صرف زیادہ سے زیادہ 20وزراء سے نظام حکومت چلایا جاسکتا ہے وہاں اس وقت وزراء اور مشیروں کی تعداد90کے قریب ہے ۔ سوال یہ ہے کہ روٹی' کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کرکے آنے والی حکومت کے یہ طریقے عوام سے روٹی' کپڑا اور مکان چھین رہے ہیں یا دے رہے ہیں؟ عوام یا مختلف حلقے مہنگائی کے خلاف آواز اٹھائیں تو حکومت کا جواب ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر حالات ایسے ہیں کہ مہنگائی سے ہم بچ نہیں سکتے ۔ عوام سوال کر رہے ہیں مہنگائی کا بوجھ صرف عوام پر کیوں لادا جارہا ہے کیا حکمرانوں' حاگیرداروں' سرمایہ داروں اور بیورو کریٹوں پر بھی کوئی اثر ہوتا ہے۔ حکومت کے وزیروں نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے یہ انداز اپنایا ہے کہ کسی چیز کی قیمت بڑھ جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا استعمال ترک کیا جائے ۔کیا حکمرانوں کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ عوام کو مشورہ دیا جائے کہ جو چیز بھی مہنگی ہو اس کا استعمال ترک کیا جائے۔ کیا ان مافیا کے خلاف کارروائی کرنے کی ذمہ داری حکومت کی نہیں جنہوں نے عوام کو لوٹنے کے لئے اتحاد کرلیا ہے ۔ ایک تاثر تو یہ بھی ہے کہ شوگر مافیا' آٹا مافیا اور دیگر مافیا کے سرغنے یا تو اسمبلیوں میں ہیں اور اگر نہیں ہیں تو وہ اتنے مضبوط ہیں کہ حکومت ان پر ہاتھ ڈالنے سے کترا رہی ہے۔

ملک کے گلی' محلوں' چوک چوراہوں میں یہ بات عام ہوچکی ہے کہ اس جمہوریت سے تو پچھلی آمریت ہی بہتر تھی جس میں اتنی مہنگائی تو نہ تھی' جمہوریت کے اڑھائی برسوں میں ڈھائی سو فیصد مہنگائی بڑھ چکی ہے صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 13دفعہ اضافہ اور بجلی 90فیصد مہنگی کی جاچکی ہے۔ جمہوریت جو ایک اچھا نظام حکومت ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ناقص طرز حکمرانی سے اس سے بھی عوام کو بدظن کر دیا ہے۔ غربت کے ستائے لوگ دور آمریت کو یاد کر رہے ہیں' جمہوریت کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک عام آدمی جس کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم ہے اس کو کیا غرض کہ ایوان صدر میں وردی والے پرویز مشرف قابض ہیں یا جمہوری صدر آصف علی زرداری منتخب ہو کر ایوان صدر میں بیٹھے ہیں' وزیراعظم ہائوس میں جمہوری وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہیں یا آمر کے کٹھ پتلی شوکت عزیز ۔ اس کا مسئلہ تو بچوں کے لئے روٹی کا حصول ہے جو اس کے بچوں کی روٹی' صحت اور تعلیم کا مناسب انتظام کرے گا یہ اسی کے نعرے بلند کرے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ جو نظام یا فرد عوام کے مسائل حل کرے گا عوام اس کی حمایت کریں گے 'محض جمہوریت کے نعرے لگانے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک عوامی حکومت جس کا دعویٰ ہے کہ روٹی کپڑا ' مکان فراہم کیا جائے گا اس کے دور میں یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ حکومتی اکابرین اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اکثر یہ کہتے ہیں کہ آمریت میں تو کوئی نہیں بولتا جب جمہوری دور آئے تو سب شور کرتے ہیں۔ ہم کہنا چاہیں گے کہ آمر تو اقتدار پر ڈنڈے کے زور پر قابض ہوتا ہے جمہوری حکمران تو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں' آمر تو قابض ہوتا ہے اس نے عوام کو کیا جواب دینا ہے۔ آپ نے تو عوام کو حساب دینا ہے اور اپنی کارکردگی کو سامنے رکھتے ہوئے دوبارہ عوام کی عدالت میں جانا ہے اگر آپ کو عوام کی عدالت میں جانا ہے تو اپنے طرز حکمرانی میں تبدیلی لائیں۔

آپ نے ڈھائی برس تو گزار دئیے' عوام کے مسائل بڑھ گئے' اب صرف ڈھائی برس رہ گئے ہیں آپ عوام کے لئے کچھ کریں اگر آپ ایسا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ عوام آپ کو مسترد کر دیں گے' عوام کی بھی اور آپ کی بھی بہتری اسی میں ہے کہ عوام کو ریلیف دیں اور دوبارہ منتخب ہو جائیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر عوام کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کے لئے عملی اقدامات کرے باالخصوص وفاقی وزیر داخلہ جو ہر جگہ وقت پر پہنچ کر ایکشن لینے کے حوالے سے مشہور ہیں اور ان کی اس ذمہ داری سے عوام خوش بھی ہیں سے کہنا چاہتے ہیں کہ خدا را آپ پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور مجسٹریٹوں کو فعال کریں اور غفلت برتنے والوں کے خلاف کارروائی کریں اور پورے ملک میں اشیاء خوردونوش اور بنیادی اشیائی کی قیمتوں کو کنٹرول کرکے ذخیرہ اندوزوں' گراں فروشوں اور عوام کو لوٹنے والے مافیا کے گرد گھیرا تنگ کریں تاکہ عوام کو کچھ تو ریلیف مل سکے۔
Khalid Shahzad Farooqi
About the Author: Khalid Shahzad Farooqi Read More Articles by Khalid Shahzad Farooqi: 44 Articles with 47911 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.