حضرت عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع
کے موقع پر ارشاد فرمایا " تمھارا خون، تمھارا مال اور تمھاری عزت ایک دوسر
ے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، اس شہر کی اور اس مہینے
کی حرمت ہے۔"امن و امان کے قیام کا ہونا معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے اور
فتنہ و فساد کو اﷲ رب العزت معاشرے میں پسند نہیں فرماتاـ"۔ اسلام حقیقی
معاشرتی اور فلاحی اساس کے قیام کادرس بھی دیتا ہے اور گمراہی اور پستی کے
راستے سے نکل کرمتوازن اور معتد ل راستہ اختیار کرنے کی تلقین بھی کرتا
ہے۔بلاشبہ اسلام کلی طور پر نسلِ انسانی کی بقا ء کا ضامن ہے۔محرم الحرام
ہمیں پیغام دیتا ہے کہ اپنی زندگیوں کومفید ، مثبت اور صحیح کاموں میں
استعمال کریں اور اچھے اعمال کے ذریعے ان اچھی گھڑیوں کو اپنے لیے حجت اور
توشہ بنائیں تاکہ کل آنے والے وقت میں مایوسی ، پریشانی اور پشیمانی کے
بجائے خدا کی ملاقات کا شرف حاصل ہوسکے۔واقعہِ حسین و کربلا ہمیں ایثار و
قربانی کا درس دیتا ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کے دست وگریباں ہونے کے بجائے
شیروشکر بن کر رہیں اور قربتوں اور محبتوں کو ہوا دیں ناکہ دشمنی ، ناچاکی،
بدبختی، نفرت اور کفرو تکفیر کو فروغ دیں۔ صحابہ کرامؓ جیسی بے مثل شخصیات
کے لیے کوئی نازیبا الفاظ استعمال نہ کیا جائے ۔ کسی ذاتی رنجش یا دشمنی
کوبھول کر صلح وعفو سے کام لیا جائے اور محمد ﷺ اور انکے لاڈلے امام حسینؓ
کی سنت زندہ کوکیا جائے۔ دشمن ہر لمحہ آلتی پالتی مارے شطرنج کی نت نئی
چالیں کھیل رہا ہے اور ہر لحظہ مومن کوچاروں شانے چت کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے
۔ اگر ہوشیار دشمن اپنی چال جیت گیا تو پھر نہ کوئی محمد ی باقی رہے گا نہ
کوئی حسینی۔اور دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیگا۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے ۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ماہ محرم شروع ہوتے ہیں تمام میڈیا ہاؤسز پر ٹکرز اور بریکنگ نیوز کے ذریعے
سے قیامت صغریٰ کی عملاََ منظرکشی کی جاتی ہے کہ ماتمی جلوس فلاح جگہ سے
برآمد ہو نگے اور شہروں کے شہر Cordon Off کردیے جاتے ہیں اور حالات کی
نزاکت کو دیکھتے ہوئے ملک کی بڑی اور اہم شاہرائیں کینٹینرز اور بیریئر
وغیرہ رکھ کر عام ٹریفک کے لیے بند کردی جاتیں ہیں ۔اس خصوصی مشق سے ایک
برا تاثریہ ابھرتا ہے کہ خدانخواستہ یہاں کسی اقلیت کو کوئی خطر ہ ہے
حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔سب پاکستانی بھائی
ہیں ۔ماہ محترم و مکرم میں اہل تشیع بھائیوں کو خصوصی سیکیورٹی ضرور دی
جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے مسا لک و مکاتب فکر کے لوگوں میں اخوت و
بھائی چارے کا درس بھی عا م کیا جائے اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے
سے شیعہ و سنی برادری کو ـ ـ’’اور اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور
آپس میں تفرقہ بازی مت کرو‘‘ کی دعوت دی جائے اور ہر مسلک و مکتب کے علماء
اپنی مساجد ومدارس اور سوشل میڈیا وغیر ہ کے توسط سے دنگا فساد سے منع کریں۔
متحدہ علماء محاذ، سنی اتحاد کونسل، شیعہ کونسل، متحد ہ علماء کونسل، سیاسی
فائدے کی امن کمیٹیاں اور اس جیسی بے شمار بنی کمیٹیاں اور کونسلیں اپنے
اپنے مسالک کے دفا ع کے لیے ہیں۔ مسالک سے بالا تر ہو کر کمیٹی کا قیام
ضروری ہے جو سال بھر کے لیے ہو اور لانگ ٹرم کے لیے "بین المذاہب قومی ہم
آہنگی " یا" بین المسالک قومی ہم آہنگی "کے پیغام پر کام کرے۔ ضرورت تو اس
امر کی ہے کہ سینٹرل علماء کونسل ہو جس میں تمام مسالک ،مکاتبِ فکر اور ڈی
سی آفس کا ایک نمائندہ ہو جو مل بیٹھ کر تمام معاملات اور پروگرامات خوش
اسلوبی سے طہ کریں۔
اب ہر چیز کا الزام بھار ت اور امریکہ پہ لگا نا عقلمندانہ روش نہیں ہے
بلکہ غیر دانشمندانہ سوچ کی عکاس ہے ۔ عشروں سے ہم یہ رونا رو رہے ہیں کہ
بھار تی ایجنسی "را " بلوچستان اور کراچی کی صورتحال کی ذمہ دار ہے اور
پنجابی طالبان وغیرہ کو اسلحہ فراہم کرتی ہے ۔اگر ایسا ہے توبھارت سے اپنی
دوستی کی پینگیں کم کر کے اپنا دوٹوک موقف پیش کرنا چاہیے!!خداراہ ان جعلی
دواساز کمپنیوں اور انکے بروکرز کے ہتھکنڈوں سے باہر آئیں اور اپنی
کوتاہیوں پر نظر ڈال کر اپنی صفوں سے کال بھیڑوں کو نکال
باہرپھینکیں۔اوربیچارے معصوم عوام پر ظلم وبربریت کا باب ہمیشہ کے لیے بند
کریں۔
|