وزیراعظم نے دو روز پہلے بیان
دیا تھا کہ حکومت نے اپنی آدھی مدت پوری کرلی ہے اس لئے اب عوام کو ڈلیور
کرے گی اور مہنگائی کے خاتمے پر توجہ دے گی۔ ان کے اس بیان کی بازگشت ابھی
فضاؤں میں موجود تھی کہ حکومت نے ایک ہی دن میں بجلی کی قیمتوں میں 2فیصد
اضافہ کر دیا اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ جون تک ہر ماہ بجلی کی
قیمتوں میں 2فصد اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں بھی خوفناک حد تک اضافہ کر دیا ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ہائی
اوکٹین میں 7روپے گیارہ پیسے' پٹرول کی قیمت میں 5روپے 97پیسے (یعنی 6 روپے)
ڈیزل کی قیمت میں4روپے51پیسے اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں 5روپے15پیسے
اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گویا عوام پر دو دھاری تلوار چلائی گئی ہے۔ ایک طرف
ان کے بجلی کے بل زیادہ ہو جائیں گے اور دوسری جانب ٹرانسپورٹیشن کے
اخراجات بڑھنے سے ضرورت کی ہر شے مہنگی ہو جائے گی۔ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن
نے آج سے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے اور خدشہ ہے
کہ اگر یہ ہڑتال دوچار روز جاری رہی تو ڈیزل اور پٹرول کی قلت واقع ہو جائے
گی اور معاشی طور پر سخت نقصان ہوگا۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ بڑے لوگوں سے ٹیکس لینے میں ناکام حکومت اپنے سارے
خسارے بجلی' پٹرول' مٹی کے تیل اور ڈیزل سے پورے کرنا چاہتی ہے اور عوام کو
ایک ایسی سطح پر پہنچا دینا چاہتی ہے کہ ان کا شمار زندوں میں ہوسکے نہ
مردوں میں۔
کارکردگی کے اعتبار سے موجودہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی انوکھی حکومت ہے
جسے عوام کے ساتھ ذرا بھر ہمدردی نہیں اور وہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی
ہے جیسا دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ صدر زرداری نے کہا تھا کہ وہ نظام بدل
کر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کا بدلہ لیں گے۔ شائد وہ اسی قول کو نبھا
رہے ہیں اور پاکستان میں ایک ایسا نظام لانا چاہتے ہیں جس میں غریب فاقوں
کے ہاتھوں مریں اور مڈل کلاس طبقہ بھی ایڑیاں رگڑنے پر مجبور ہو جائے اور
وہ یہ سب کچھ کر بھی گزریں گے کیونکہ فیصلہ سازی کے تمام اختیارات ان کے
ہاتھوں میں ہیں۔ اس سسٹم میں وزیراعظم مجبور محض نظر آتے ہیں۔ باوجود اس کے
کہ انہیں اٹھارویں ترمیم نے بااختیار بنا دیا لیکن اصل اختیارات اب بھی صدر
زرداری کے پاس ہیں جو پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں اور ہر اس شخص کو ناپسند
کرتے ہیں جو پارٹی میں رہ کر حق سچ کی بات کرے۔ آج ہمیں ترکی کے قومی دن کی
تقریب میں بولا گیا محترمہ ناہید خان کا یہ جملہ یاد آرہا ہے کہ زرداری
پارٹی کو ڈبو دیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پارٹی کے ساتھ ساتھ صدر زرداری ملک
بھی ڈبو دیں گے کیونکہ ملک عوام کے ساتھ چلتے ہیں اور جس ملک کے عوام بھوک
سے ایڑیاں رگڑنے لگیں ۔ ان ملکوں کا سفینہ کیسے پار لگ سکتا ہے۔ آج ہم عوام
کو بچانے کے حوالے سے نہ تو نواز شریف سے کوئی درخواست کریں گے اور نہ ہی
چیف جسٹس آف پاکستان سے کیونکہ ان صاحبان کی طرف سے عوام کے حصے میں جو
مایوسی آئی ہے اس کے بعد اب ہمیں اندازہ کرلینا چاہیے کہ عوام ان لوگوں کا
مسئلہ بھی نہیں ہیں کیونکہ یہ مراعات یافتہ طبقے کے لوگ ہیں اور آٹا یا
روٹی' دال ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم آج براہ راست عوام سے بات کریں گے جن کا
ایک گروہ زرداری زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے اور دوسرا گروہ نواز شریف زندہ
باد کے نعرے لگاتا ہے۔ وہ تاریخی دھوکہ جو اعتزاز احسن نے ریاست ہوگی ماں
کے جیسی لگا کر عوام کو دیا تھا ہمیں اچھی طرح یاد ہے' اس لئے ہم وکلاء
رہنماؤں کو بھی اسی سطح پر دیکھ رہے ہیں جس سطح پر سیاستدان ہیں۔ ایک اور
گروہ جو تیرا بھائی' میرا بھائی الطاف بھائی' الطاف بھائی کے نعرے لگاتا ہے
وہ بھی آج ہمارا مخاطب ہے اور ہمیں آج ان لوگوں سے بھی کچھ کہنا ہے جو
مولانا فضل الرحمان' چوہدری برادران اور اسفند یار ولی کے نعرے لگاتا ہے۔
ان تمام گروہوں میں شامل لوگوں کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ جن کے
نعرے لگا لگا کر یہ ہلکان ہوتے ہیں ان میں سے کسی کو بھی اپنے ووٹروں'
سپورٹروں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں اب مفاداتی گروہ بن گئی
ہیں اور ان کے لیڈر آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ آپس میں کتنے ہی لڑتے
جھگڑتے کیوں نہ نظر آئیں لیکن اندر سے ایک ہیں کیونکہ ان کی کلاس ایک ہے
اور ان سب کو پتہ ہے کہ اگر یہ سسٹم نہ رہا تو ان سب کا نقصان ہوگا لہٰذا
مہنگائی کے نتیجے میں اس ملک کی آدھی آبادی اگر بھوک سے بھی مر جائے تب بھی
یہ سسٹم کو بچانے کی بات کریں گے کیونکہ اگر یہ سسٹم نہ رہا تو ان کی اپنی
قدروقیمت ختم ہو جائے گی۔
قتیل شفائی نے ایک شعر کچھ یوں کہا تھا:
زمانے میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
اس شعر کے مطابق ہم سب منافق ہیں کیونکہ چند مفاداتی گروہ ہم پر ستم پہ ستم
ڈھائے جارہے ہیں اور ہم ہر ظلم کو اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کرتے جارہے ہیں۔
پاکستانی قوم (مراعات یافتہ طبقہ چھوڑ کر) یہ بات لکھ لے کہ جب تک وہ اس
گندے' بدبودار' ظالمانہ اور مکروہ سسٹم کو اٹھا کر اپنے اپنے علاقوں کے
گندے نالوں میں نہیں پھینک دیں گے اس وقت تک ان کا استحصال بھی ہوتا رہے گا
اور خدا بھی ان کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں
خدا کی سنت کو بہت احسن طریقے سے بیان کر دیا تھا کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
خدا نے ہمیں شعور دیا ہے اپنے حق کے لئے لڑنے کی ترغیب دی اور اس کے ساتھ
ہی یہ فیصلہ بھی دیدیا کہ جب تک ہم اپنے حق کے لئے خود نہیں لڑیں گے اس وقت
تک وہ ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔ سو اے اسلامیان پاکستان اب یہ طے کرلو کہ
بھوک کے ہاتھوں سسک سسک کر مرنا ہے' اپنے بچوں کو محروم رکھنا ہے یا اپنا
حق لڑ کر حاصل کرنا ہے۔ سیاسی وابستگیوں کو بھول جائو کیونکہ مہنگائی
پیپلزپارٹی' مسلم لیگ (ن)' مسلم لیگ (ق) اے این پی' ایم کیو ایم' جمعیت اور
دیگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ لوگوں کو یکساں طور پر ڈس رہی ہے اور ہر
سیاسی جماعت کا لیڈر عوام کے لٹنے کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ خواب غفلت سے
بیدار ہو جائو ورنہ ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی تباہ کر
دیں گے۔ |