پیپلز پارٹی ایک چاک و چوبند گھوڑا

زمانے کا جبر جانے کسیے کیسے منصوبہ سازوں کی ناکامی کا سبب بن گیا۔ان کے منصوبے ادھورے رہ گئے۔ان میں اصلاح کا موقع نہ مل سکا ۔ان کے اچھے افکار محض اس لیے نظر انداز کردیے گئے کہ وہ چھوٹی موٹی غلطیوں کے حامل تھے۔اگر یہ غلطیاں نکل جاتی تو یہ بے مثال منصوبہ ہوتا۔اور انمول خیال ۔یہ قدرت کے پہیے کی اپنی ایک چال ہے کہ ادھورے ۔نامکمل آئیڈیاز اپنی تمام تر عرق ریزی کے معدوم ہوگئے۔بھٹو صاحب فطین قسم کے آدمی تھے۔انہوں نے ایک لمبا عرصہ ایوب خان کے ساتھ گزارا ۔یہیں پہ انہیں اقتدار کی غلام گردشوں کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔دیکھاکہ معاملات کیا ہیں۔کیسے پیدا کیے جاتے ہیں۔اور ننبٹائے کیسے جاتے ہیں۔انہوں نے تھوڑی ملمع کاری ۔تھوڑی سیاست اور تھوڑے دباؤ سے ہر قسم کے معاملات کو نبٹانے کے کچھ کلیے پائے۔انہیں مذید کارگر کرنے کے لیے ان کے زرخیز دماغ میں بہت موادموجود تھا۔اقتدارکی لذت انہوں نے ایوب دور میں بڑی اچھی طرح چکھی۔وہ ایوب خان کو لبھانے کے سارے گر جانتے تھے۔جب ان کے معاملات فوجی حکمران سے بگڑ ے تو یہ اقتدارکا نشہ ہی تھا ۔جو انہیں ایک سیاسی جماعت کے قیام کی طرف لے گیا۔تب ان کی ذہانت اور فطانت نے بڑا ساتھ دیا۔۔آمریت کا لمبا دور اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہاتھا۔اپنے مشاہد ہ شدہ کلیات میں کچھ ترمیم کے بعد وہ اس نسخہ کیمیا کے حصو ل میں کامیاب ہوگئے ۔جو انہیں اس ایوب کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔جس کا وہ خود ایک عرصہ سے دفاع کرتے چلے آرہے تھے۔پیپلز پارٹی کا منشور اور طریقہ کار یہی نسخہ کیمیا تھا۔اس جماعت کے خدو خال تب کے حالات دیکھ کر مرتب کیے گئے۔منشور ایسا رکھا گیا۔جو ہر کسی کو کچھ نہ کچھ ملنے کی یقین دہانی پرمشتمل تھا۔سہانے خواب ۔سحرآفرین نعرے ۔اور دلکش باتیں۔اس منشورکو پڑھنے والے متاثر ہوئے۔نعروں نے عام آدمی کو متوجہ کیا۔اور باتوں نے مسحور کردیا۔بھٹو صاحب یقیناًاس منشور کی غیر حقیقی تصویر سے آگاہ تھے۔ناقابل عمل نعروں اور سراب زدہ دعووں سے متعلق ان کا خیال ہوگاکہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ پی پی کے منشور میں معقولات بڑھاتے جاءئیں گے۔اور خواب اور تصورات کو کم کیا جائے گا۔تب ضرورت تو زیادہ سے زیادہ عوامی توجہ پانے کی تھی۔اس لیے سہانے خواب۔اور مسحور کن باتوں پر زیادہ توجہ دی گئی۔ بھٹو کا جو خواب اس نسخہ کیمیا کی تطہیر سے متعلق تھا۔زمانے کے جبر کی نذر ہوگیا۔وقت نے انہیں مہلت نہ دی ۔

جناب زرداری اس نظر ثانی سے محروم منشور سے بھرپور لطف اندوز ہورہے ہیں۔اپنے پانچ سالہ بد ترین دور پر انہیں رتی برابر بھی پچھتاوہ نہیں ۔انہیں اس منشور پر پورا بھروساہے۔یقین ہے کہ پہلے بھی یہ منشور انہیں ملک کا صدر بنوانے میں کامیاب ہو اتھا۔اب بھی یہ کمال دکھائے گا۔سہانے خواب اور مسحور کن باتوں کا جادو بھٹو دور میں چلا بینظیر دورمیں بھی کامیاب رہا۔اور آج بھی کام دے رہاہے۔جس دھڑلے سے وہ دوہزار اٹھرہ میں پی پی کی حکومت بننے کی بات کررہے ہیں۔اس سے زرداری صاحب کا پی پی منشور پر پختہ یقین ہونے کا پتہ چل رہاہے۔عمران خان متحدہ کے ساتھ مل کر پی پی سے حزب اختلاف کا عہدہ چھیننے کے چکر میں ہیں۔مگر زرداری صاحب کو مطلق فکر نہیں ۔وہ مفاہمت کے نام پر ایک گیدڑ سنگھی ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں۔وہ کسی بھی طریقے سے کسی بھی حیلے سے دوسروں کو مائل کرنے کا گر جانتے ہیں۔وہ مطمئن ہیں۔انہیں پتہ ہے کہ خاں صاحب کو کامیابی حاصل نہ ہوگی۔وہ بڑی بھا گ دوڑ کرکے چار بندے لے جانے میں کامیا ب ہوبھی گئے توزرداری صاحب کی مفاہمتی گیدڑ سنگھی۔اس سے دوگنے لوگ اپنی طرف کھینچ لے گی۔

اگر اگلے الیکشن جیت کر پی پی حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس میں چندں حیرت نہ ہوگی۔بھٹو صاحب کاعطاکیا نسخہ کیمیا آج بھی اتنا ہی کارگر ہے۔جتنا ستر کی دہائی میں تھا۔اب بھی پی پی کا منشور لوگوں کو مائل کرنے کا جادو رکھتاہے ۔آج بھی وہ لوگ جو بھٹو دور میں کچھ نہ کچھ پانے میں کامیاب ہوئے تھے۔اس منشور پر پورا یقین رکھتے ہیں۔پی پی کی اسی خوبی کو دیکھ کر مقتدر حلقے ایک بار پھر اس کی طرف منہ کیے ہوئے ہیں۔پی پی کی اگلے الیکشن میں کامیابی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔کچھ ایسا ہی منظر نامہ بن رہاہے۔جو دوہزار تیرہ کے الیکشن میں تھا۔تب بھی اسٹیبلمنشٹ اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر آئیندہ کا سیٹ اپ تیارکررہی تھی۔اب بھی آئیندہ سیٹ اپ کی ترتیب و تزئین پر کام جاری ہے۔تحریک انصاف اور پی پی دونوں میں سے کسی ایک پر بازی لگائی جائے گی۔دونوس کے امکانات برابربرابرہیں۔تحریک انصاف نے جو بدنامیاں شریفوں کو رسواکرنے میں سمیٹی ہیں۔وہ اسے اگلے الیکشن میں جیتنے کا اہل ثابت کررہی ہیں۔عمران خاں گروپ نے چوروں اور بے ایمانوں کی پردہ پوشی او رقدرے بہترشریف برادران کی کردار کشی کر کے اپنی ساکھ تباہ کرلی۔مگر جن قوتوں کے اشاروں پر یہ سب کیا وہ بادشاہ گر ہیں۔یہ چاہیں تو عمران خان کو اس کا صلہ دے سکتی ہیں۔مگر ان قوتوں کا ریکارڈ ثابت کرتاہے کہ یہ بے رحم ہیں۔مطلبی ہیں۔اوران کا واحد فارمولہ استعمال کرو اور پھینک دو رہا ہے۔

زرداری صاحب پی پی کے اس گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں۔جو کبھی نہیں تھکتا۔ہمہ وقت تیار لمبی ریس کا یہ گھوڑا بھٹو صاحب کی ذہانت او رفطانت کا ایک نمونہ ہے۔پی پی منشور کی ایک ایک سطر نفع اور مزوں کی دعوت عام ہے۔بھٹو نے ملک کے چپے چپے میں لوگوں کو اتنی نمبرداری کروائی کہ لوگ اس کے اعادے کے لیے بار بار میدان میں اترنے کے لیے تیارہیں۔انہوں نے محترمہ سے امیدیں باندھ لیں۔زرداری صاحب کو سلام کیا۔اب بلاول بھٹو کے لیے نظریں بچھائے ہوئے ہیں۔جب تک پی پی کا موجود منشور اور اس منشور کے منفعت کار باقی ہیں۔یہ پارٹی ایک ایسا چاک وچوبند گھوڑا بنی رہے گی۔جو اپنے سوا ر کو منزل تک پہنچانے کی پوری طاقت رکھتاہو۔اسٹیبلشمنٹ کو زرداری صاحب سے نہیں ۔اس چاک او چوبند گھوڑے سے مطلب ہے ۔جس کی لگام چاہے کسی کے ہاتھ رہے۔اس کی دور میں کبھی فرق نہیں آیا۔

 

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.