اوورسیز پاکستانی ملکی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتے ہیں۔ غیر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کی
مجموعی تعدار قریب 9 ملین ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہر سال ایک خطیر رقم
پاکستان بھیجتے ہیں جو کہ کئی بلین امریکی ڈالر سالانہ کے برابر ہے اور
ملکی آمدنی کا تیسرا بڑا ذریعہ ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2014-15 کی
رپورٹ کے مطابق اوورسیز پاکستانیوں کے ذریعے حکومت پاکستان کو ایک سال کے
دوران 4-18 بلین امریکی ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔ 2016-17 میں زرمبادلہ
کے ذخائر قریب 20 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ ملکی ترقی میں اہم کردار
ادا کرنے کے باوجود اوورسیز پاکستانی ووٹ جیسے اہم حق سے محروم ہیں۔ بیرون
ملک مقیم پاکستانی کسی طور بھی پاکستان میں بسنے والے شہریوں سے کم محب وطن
نہیں۔ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ رہتے وہ سمندر پار ہیں مگر ان
کے گھروں میں ٹی وی چینلز پاکستان کے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ ہر لمحہ پاکستان
کے حالات و واقعات سے واقف رہتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی دل و جان سے
پاکستان کی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی ووٹ کے حق کا
مطالبہ گزشتہ تیس سال سے کر رہے ہیں۔ مگر ان کی شنوائی نہیں ہو سکی۔
اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے سے متعلق درخواستیں 2011 سے سپریم
کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ اس دوران الیکشن کمیشن، نادرا، اوورسیز پاکستانیوں
کی وزارت اور وزارت خارجہ کے حکام مختلف سماعتوں پر عدالتوں کو آگاہ کرتے
رہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے کے لیئیکام جاری ہے۔
اوورسیز پاکستانیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے لیئے ملک سے باہر پولنگ سٹیشن
بنائے جائیں یا الیکٹرانک ووٹنگ بھی ممکن ہے کہ آپ جدہ، جرمنی یا نیویارک
میں بیٹھ کر بٹن دبائیں اور آپ کا ووٹ کاسٹ ہو جائے۔ 2013 میں تب کے چیف
جسٹس افتخار محمد چودھری نے فیصلہ میں لکھا تھا کہ آئندہ تمام انتخابات مع
لوکل باڈیز میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کاسٹ کرنے کے حق کو یقینی
اور عملی بنایا جائے۔ نادرا نے 2016 میں کہا کہ بیرون ملک الیکٹرانک ووٹنگ
ممکن ہے۔ ہر شخص کو ایک کوڈ نمبر دے دیا جائے گا۔ اور وہ یہ نمبر مشین میں
داخل کرے گا۔ اس کے حلقے کے امیدواروں کے نام سکرین پر آ جائیں گے۔ وہ اپنے
پسندیدہ امیدوار کے نام پر انگلی لگائے گا اور ووٹ فی الفور الیکشن کمیشن
آف پاکستان کو منتقل ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) اور
نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا
کہ بیرون ملک ووٹنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لیئے 7 ایمبیسیز، ہائی کمیشنز
اور سفارت خانوں میں فرضی ووٹنگ کرائی گئی۔ جس میں صرف غیر ملکی مشنز پر
موجود ملازمین کو پوسٹل بیلٹ اور ٹیلیفون ووٹنگ کے ذریعے فرضی امیدوار کو
ووٹ دینے کے لیئے کہا گیا تھا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیلیفون کے ذریعے
سے ایک بھی ووٹ نہیں ڈالا گیا۔ جبکہ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے دیئے جانے والے
ووٹ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اسلام آباد میں قائم دفتر کو 6 سے 14 روز
کی تاخیر سے موصول ہوئے۔ فرضی پولنگ سعودی عرب کے شہر ریاض کی پاکستانی
ایمبیسی، عرب امارات کے شہر دبئی، برطانیہ میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن،
امریکی شہر نیویارک، برطانیہ کے شہر مانچسٹر، بریڈ فورڈ اور گلاسکو میں
پاکستانی سفارت خانے میں کروائے گئے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ ممکن
ہے کہ سفارت خانے آن لائن فارم جاری کر کے جواب اور ثبوت طلب کر لیں۔ اور
یہی ریکارڈ ای نظام کے تحت الیکشن کمیشن کو موصول ہو۔ الیکشن کمیشن ووٹروں
کا حلقہ انتخاب بھی طے کر دے۔ انتخابات کے وقت بیلٹ پیپر آن لائن بھیج کر
رائے بھی آن لائن لی جا سکتی ہے۔ یا پھر جہاں جہاں قونصل خانے ہیں وہاں
قونصل خانوں میں بھی پولنگ سٹیشن بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ سب ناقابل عمل نہیں
صرف ارادے کی ضرورت ہے۔ امریکی صدر کے انتخاب میں بھی تو بیرون ملک مقیم
ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ ہم کب تک ٹیکنالوجی سے محروم رہیں
گے۔ اگر کوئی کوشش ناکام ہوئی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ترک کر دیا
جائے۔ نقائص دور کر کے اسے بہتر بنانا چاہیئے۔ الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے
حکومت کو اپنی ضروریات سے آگاہ کرنا چاہیئے۔ حکومت پاکستان کو متعلقہ ممالک
میں موجود پاکستانیوں کے لیئے ضابطہ اخلاق جاری کرنا چاہیئے کہ نعرے بازی
اور جلسے جلوس نہ کیئے جائیں۔ اور نہ ہی متعلقہ ممالک کے امن و امان میں
خلل ڈالا جائے جس سے پاکستان کی بدنامی ہو۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے معزز
اراکین اور وزرا سے بھی گزارش ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے بنیادی حقوق اور
ووٹ کے حق بارے پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کی جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور پاکستان سے باہر بسنے والے اوورسیز
پاکستانی ایک ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کو آئندہ
الیکشن 2018 میں ووٹ کا حق دلایا جائے۔
تحریر: مرزا روحیل بیگ جرمنی
|