ایک بار پھر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات
کشیدگی کا شکار ہیں۔ گزشتہ دنوں افغانستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی میں پاکستان پر دہشتگردی کے فروغ کا الزام لگایا گیا تھا، جس کے
جواب میں پاکستان نے سخت رد عمل ظاہرکرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشتگردوں کی
محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں نہیں، افغانستان میں ہیں۔ گزشتہ روز امریکی
وزیر دفاع میٹس نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکا کی نئی حکمت
عملی پاکستان کے لیے دہشتگردی سے لڑنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ امریکا پاکستان
کے ساتھ افغانستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے الزامات کے بارے میں
کھل کربات کرنا چاہتا ہے، اس موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ
افغانستان امن کے لیے تیار ہے اور بال پاکستان کے کورٹ میں ہے۔ گزشتہ روز
وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن و سلامتی
کی ذمے داری پاکستان پر ڈالی نہیں جاسکتی اور نہ ہی اسلام آباد کابل میں
قیام امن کا ضامن ہے ،جب کہ کئی افغان رہنما اپنے مفادات کے لیے پاکستان سے
کشیدگی جاری رکھنا چاہتے ہیں، امریکا جنگ سے افغانستان میں کامیاب نہیں
ہوسکتا۔ افغانستان میں امن اورسیکورٹی کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔ پاکستان
میں غیر ملکی در اندازی، بھارت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ کا حوالہ دیتے
ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بھارت، افغانستان کے راستے پاکستان میں
مداخلت کررہا ہے۔ امر یکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ
افغانستان میں ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینا درست نہیں۔ افغان
مسئلے کا حل عسکری نہیں، سیاسی ہے۔ پاکستانی افواج نے دہشت گردی کی جنگ میں
بھی بہت قربانیاں دی ہیں۔ پاک فوج نے پڑوسی ملک کی جارحیت کا بھی سامنا
کیا۔ پاکستان مستقبل میں بھی امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے
اوردہشت گردی کی جنگ میں امریکاکا بھرپورساتھ دے گا۔
موجودہ صورتحال سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا اور کٹھ پتلی افغان صدر
افغانستان میں قیام امن میں مسلسل ناکامی کے بعد سارا ملبہ پاکستان پر
ڈالنا چاہتے ہیں اور ساتھ پاکستان کاازلی دشمن بھارت بھی ہے جو پاکستان کو
نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ جس کی خواہش ہے کہ
افغانستان میں کبھی امن قائم ہی نہ ہو، کیونکہ پرامن افغانستان ہی پرامن
پاکستان کے لیے ضروری ہے اور بھارت پاکستان کو پرامن نہیں دیکھنا چاہتا۔
امریکا اور نیٹو سولہ سال افغانستان میں لڑکر بری طرح ناکام ہوگئے ہیں اور
اب اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے پاکستان کو پھنسانا چاہتے ہیں، حالانکہ
ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکا افغانستان میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے، اس کے
چھپانے سے ناکامی چھپ نہیں سکتی۔ ان حالات میں افغان صدر کو اپنے مفادات کو
سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہیے۔ پاکستان نے دیر سے ہی سہی! اپنی غلطی
تسلیم کر کے امریکی جنگ سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے اور ٹرمپ کے الزامات کے
بعد خطے کے دیگر ممالک اور طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی بہتری کی کوششیں
شروع کردی ہیں اور واشنگٹن کی دھمکیوں اور الزامات کا مناسب انداز میں جواب
دیا ہے۔ سب کو اس بات کا انداز ہ ہونے لگا ہے کہ افغانستان میں امن کا
راستہ اسلام آباد سے ہو کر گزرتا ہے، جس کے علاوہ کسی اور راستے کا وجود ہی
نہیں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی تاریخ تنازعات سے بھری پڑی
ہے، جس کا خمیازہ سرحد کے دونوں جانب بسنے والی عوام کئی دہائیوں سے بھگت
رہے ہیں۔ اس وقت دونوں ممالک کے مسائل ایک دوسرے کی پالیسیوں اور حالات سے
جڑے ہوئے ہیں۔ ان مسائل سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں ہوگا، یہاں تک کہ دونوں
ممالک اپنے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کریں اور اپنی
اپنی پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ نہ لیں۔ اس حوالے سے صرف پاکستان اکیلا
نہیں، بلکہ افغانستان کو بھی اپنے ملک کے حالات بہتر کرنے ہوں گے اور
پاکستان پر اثرانداز ہونے والی پالیسیوں پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔
افغانستان کو امریکا اور بھارت کے اشاروں پر نہیں چلنا چاہیے، کیونکہ وہ
دونوں افغانستان میں امن قائم ہوتا نہیں دیکھنا چاہیے، افغانستان کے امن کے
بارے میں افغانستان کی انتظامیہ کو ہی سوچنا چاہیے۔
اب افغانستان کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تشدد ترک کر کے مذاکرات کا
راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ افغان حکومت اور مزاحمت کاروں میں امن عمل ناگزیر
ہے، امن عمل سے جنگ کو سیاسی اختتام تک پہنچانے میں مدد ملے گی۔ افغانستان
میں سولہ سال لڑنے کے بعد عالمی برادری متفق ہو چکی ہے کہ افغان مسئلے کا
کوئی فوجی حل نہیں، افغانستان میں امن کے لیے تین جہتی حکمت عملی کی ضرورت
ہے۔ ماضی میں بار بار ناکام ہونے والی کوئی حکمتِ عملی دوبارہ مسلط نہیں کی
جا سکتی۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو نئی افغان پالیسی مرتب کی ہے، اس
میں اِس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ فوج بڑھا کر افغانستان میں جنگجوؤں
کو شکست دی جائے گی، حالانکہ جب ڈیڑھ لاکھ فوج افغانستان میں موجود تھی تو
اِس مسئلے کا فوجی حل نہیں نکل سکا اور نہ ہی جنگجوؤں کو شکست دی جا سکی۔
سولہ برسوں میں بہت سے کمانڈروں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر کے
اِس مسئلے کو حل کرنے کی اپنے تئیں جو بھی کوششیں کیں وہ بار آور نہیں ہو
سکیں، اب دس بارہ ہزار یا کم و بیش، مزید فوجی بھیج کر کیا مقصد حاصل کر
لیا جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کو ساتھ ملا کر افغانستان میں امن قائم کرنا
چاہتے ہیں، اسی لیے انہوں نے اپنے وزیر دفاع کو خاص طور پر نئی دہلی بھیجا
تاکہ وہ بھارت کو اپنی فوج افغانستان بھیجنے پر آمادہ کر سکیں، حالانکہ
جہاں سولہ سال سے امریکا اْلجھا ہوا ہے وہاں بھارتی فوج کے پاس کون سا الٰہ
دین کا چراغ ہے کہ اْس کے جانے سے یا ’’کردار بڑھانے سے‘‘ افغان مسئلہ
پھونک مارنے سے حل ہو جائے گا اور بھارت تو خود افغانستان میں امن برباد
کرنے والا ملک ہے۔ بھارت افغان سرزمین کو پہلے ہی پاکستان کے خلاف استعمال
کر رہا ہے۔اندرونِ مْلک دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے بھی تربیت یافتہ
افراد بھیجے جاتے ہیں، بھارت کو اِس کام سے روکنے کی ضرورت ہے، لیکن امریکا
اسے وہاں جو وسیع تر کردار دینا چاہتا ہے، اس سے خطے کا امن و امان مزید
خراب ہو گا۔
اس وقت کابل میں قائم افغان حکومت کو ملک کے 34صوبوں میں سے 29 میں طالبان
کے خلاف سخت مزاحمت کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور
کے کوآرڈنیشن دفتر ( او سی ایچ اے) کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہنا تھا
کہ سال 2017کے پہلے پانچ ماہ کے دوران افغانستان میں امن و امان کی صورت
حال مزید ابتر ہو چکی ہے۔ افغان حکومت کے دعوؤں کے برعکس کہ جنگ زدہ
افغانستان میں امن و امان کی صورت حال اب بہتر ہو رہی ہے، او سی ایچ اے کے
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ خانہ جنگی پورے افغانستان میں پھیل رہی ہے اور ملک
کے تقریبا تمام شمالی علاقوں میں طالبان نے اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ اقوام
متحدہ کے انسانی امور کے کوآرڈنیشن دفترکی رپورٹ کے مطابق ملک کے 399اضلاع
میں سے 139میں افغان حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ امریکا سولہ سال سے
افغانستان میں بم برسا رہا ہے لیکن اس کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کرسکا،
جس کے بعد امریکا کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ افغان مسئلے کا بہترین حل
مذاکرات ہیں اور اس کام کا آغاز جلد کر دینا چاہیے۔
بھارت سمیت بہت سی قوتیں ایسی ہیں، جنہیں افغانستان میں اِس طرح کے حالات
جاری رہنے سے دلچسپی ہے، لیکن افغانستان اور خطے کا مفاد اس میں ہے کہ وہاں
امن و استحکام لایا جائے۔ بھارت افغانستان میں امن نہیں چاہتا۔ بھارت افغان
شہریوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اپنے یہاں ہر طرح کی
سہولیات اور غیر معمولی رعایات فراہم کر رہا ہے۔ بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ
ایجنسی ’’را‘‘اور افغان ایجنسی ’’این ڈی ایس‘‘ پاکستان مخالف دہشت گردوں کی
پشت پناہی کررہی ہے اورانھیں تمام مطلوبہ سہولتیں مہیا کررہی ہیں۔ جہاں تک
افغانستان کے عام شہریوں کا تعلق ہے توان بے چاروں کی حالت انتہائی قابل
رحم ہے اور وہ ایک مدت دراز سے حالات کی چکی میں بری طرح سے پس رہے ہیں۔
انھیں اس حقیقت کا احساس ہوجانا چاہیے کہ ان کے موجودہ اورماضی کے حکمرانوں
میں سے اکثرکی حیثیت بیرونی قوتوں کے ایجنٹوں کی سی رہی ہے جنھیں اپنے عوام
سے نہیں بلکہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کے مفاد کے تحفظ سے ہی زیادہ دلچسپی رہی
ہے۔پاکستان نے ان کے دفاع کے لیے اپنے وجود تک کو داؤ پر لگادیا اور لاکھوں
افغان شہریوں کو مدت دراز سے پناہ دیتا رہا ہے۔ پاکستان کی یہ تمام
قربانیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ افغان شہریوں کو اس حقیقت کا اعتراف
بھی کرلینا چاہیے کہ پاکستان اسلامی بھائی چارے کے ناتے بھی ان کا سب سے
بڑا مخلص اورخیرخواہ ہے اور اس کا وجود اور استحکام ان کی اپنی بقا اور
سلامتی کا ضامن ہے۔ انھیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس بھارت میں مسلمان
شہریوں کا قتل عام ہورہا ہو اور جس کے ہاتھ مظلوم کشمیریوں کے خون میں رنگے
ہوئے ہوں وہ افغانستان اوراس کے عوام سے بھلا کیسے مخلص ہوسکتا ہے۔
افغان صدر کہتے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بال پاکستان کے
کورٹ میں ہے، حالانکہ بال اب ان کے اپنے کورٹ میں ہے۔ صدر اشرف غنی دوستانہ
شراکت داری کا آغاز کر کے بارڈر کی موثر انتظام کاری سے خطے کا پانسہ پلٹ
سکتے ہیں، اس لیے ڈو مور کا یک طرفہ مطالبہ مناسب نہیں۔ پاکستان کسی قسم کی
پراکسی وار میں ملوث نہیں، اسے دہشگردی کی مد میں ناقابل بیان مصائب اور
چیلنجز کا سامنا ہے۔ نائن الیون نے خطے کو آتشکدہ بنایا، جب کہ اس کے نتیجہ
میں پاکستان جرم بے گناہی میں دہشتگردی کا ستم رسیدہ بن گیا، چنانچہ ڈو مور
کے بیرونی مطالبے سے متفق ہونے کی وجوہ پر وزیر خارجہ کی معروضات لائق توجہ
ہیں، انھوں نے 80ء کی دہائی میں امریکا کا آلہ کار بننے کو سنگین غلطی قرار
دیا۔ جس کا خمیازہ پاکستان ابھی تک بھگت رہا ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل
قمر جاوید باجوہ چند دن تک افغانستان کے دورے پر جا رہے ہیں۔ اس دوران امن
و استحکام کے اقدامات ہی زیر بحث آئیں گے، اگر دونوں مْلک مل کر کوئی ایسا
میکانزم بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جس سے دہشت گردی کی روک تھام میں
مدد ملتی ہے تو یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہو گا، افغان انتظامیہ کو اپنی
سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ پاکستان
اپنے حصے کا کام کرچکا ہے، اب افغانستان اپنے حصے کا کام کرے تاکہ دونوں
ممالک امن و امان سے رہ سکیں۔ بدامنی کی موجودہ کیفیت کا جاری رہنا کسی بھی
مْلک کے مفاد میں نہیں۔ |