امین احسن اصلاحی

امین احسن اصلاحی ۱۹۰۴ء میں اعظم گڑھ یوپی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق ایک زمین دار گھرانے سے تھا۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سرکاری مکتب میں پائی ۔ یہیں قرآن کریم اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور پھر مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوئے۔عربی زبان اور دینی علوم کی تحصیل اس مدرسے سے مکمل کی اور اسی نسبت سے اصلاحی کہلائے۔یہ مدرسہ علامہ شبلی نعمانی کی زیر نگرانی چلتا تھا۔ اس کا نصاب کسی مخصوص فقہی گروہ کے تحت نہیں بنا تھا، بلکہ اس میں فقہ اسلامی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس زمانے میں فراہی مدرستہ الاصلاح میں موجود نہیں تھے ، مگر دیگر بڑے علما سے امین احسن نے کسب فیض کیا، جن میں مولانا شبلی متکلم اور مولانا عبدالرحمن بلگرامی قابل ذکر ہیں۔

امین احسن اصلاحی

امین احسن اصلاحی ۱۹۰۴ء میں اعظم گڑھ یوپی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ان کا تعلق ایک زمین دار گھرانے سے تھا۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سرکاری مکتب میں پائی ۔ یہیں قرآن کریم اور فارسی کی تعلیم حاصل کی اور پھر مدرسۃ الاصلاح میں داخل ہوئے۔عربی زبان اور دینی علوم کی تحصیل اس مدرسے سے مکمل کی اور اسی نسبت سے اصلاحی کہلائے۔یہ مدرسہ علامہ شبلی نعمانی کی زیر نگرانی چلتا تھا۔ اس کا نصاب کسی مخصوص فقہی گروہ کے تحت نہیں بنا تھا، بلکہ اس میں فقہ اسلامی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس زمانے میں فراہی مدرستہ الاصلاح میں موجود نہیں تھے ، مگر دیگر بڑے علما سے امین احسن نے کسب فیض کیا، جن میں مولانا شبلی متکلم اور مولانا عبدالرحمن بلگرامی قابل ذکر ہیں۔

۱۹۲۲ء میں امین احسن اس مدرسہ سے فارغ ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور بجنور کے ایک اخبار ’’مدینہ‘‘ کے نائب مدیر مقررہوئے۔اخبار کے دفتر سے بچو ں کا ایک رسالہ ’’غنچہ‘‘ نکلتا تھا، اس کی نگرانی بھی ان کے ذمہ تھی۔ وہ کچھ عرصہ مشہور عالم دین مولانا عبدالماجد دریا بادی کے اخبار ’’سچ‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔

اس دوران میں امام فراہی مدرسۃ الاصلاح کی ذمہ داری سنبھال چکے تھے۔ یہ ۱۹۲۵ء کا زمانہ تھا۔ فراہی علم کی جس دنیا کو دریافت کرچکے تھے، وہ بے مثل تھی، لیکن اسے جمود پسند اور روایت پرست زمانے کے سامنے پیش کرنا آسان نہ تھا، جبکہ ان کی دنیا میں جو بات دلیل اور علم کی بنیاد پر واضح ہو جائے، اسے سارے زمانے کی مخالفت کے باوجود اختیار کرلیا جاتا تھا۔ اس وقت فراہی عمر کے آخری دور میں تھے۔ ان کے لیے شایدتنہا یہ ممکن نہ تھا کہ قرآن فہمی کے اپنے ذوق کو زمانے میں روشناس کرانے کی جدو جہد کریں ۔ اس کے بجاے انھوں نے مدرستہ الاصلاح میں ایک ایسے تعلیمی ماحول کے قیام میں دل چسپی لی جہاں طالب علموں کو فقہی مسالک سے بالاتر ہوکر تعلیم دی جائے۔ ان کی یہ کوشش رائگاں نہیں گئی۔ آنے والے دنوں میں اس مدرسہ سے بڑے بڑے اہل علم پیدا ہوئے جنھوں نے ایک زمانے کو اپنے علم و فضل سے متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فراہی نے اپنے علمی سرمائے کوکسی ایسے نوجوان تک منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جسے نہ صرف علم و ادب کا غیر معمولی ذوق ہو، بلکہ وہ تحریر و تقریر کی غیر معمولی صلاحیتوں سے علم کو دوسروں تک موثرانداز میں منتقل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ ان کی نگاہ انتخاب نے امین احسن کا انتخاب کیا اور وقت نے ثابت کردیا کہ ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔

چنانچہ جب امین احسن، فراہی سے ملنے ان کے گاؤں ’’پھریہا‘‘ گئے تو اس موقع پر فراہی نے ان سے کہا کہ آپ اخبار نویسی کرتے پھریں گے یا ہم سے قرآن پڑھیں گے۔ اصلاحی نے بغیر کسی توقف کے جواب دیا کہ میں حاضر ہوں۔فراہی نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ قیام کریں گے۔وہ غالباً اصلاحی صاحب کو گھر پر تعلیم دینا چاہتے تھے، مگر بعد میں دیگر اساتذہ کے اصرار پر مدرستہ الاصلاح میں ان کا درس ہوتا رہا۔ فراہی کی وفات (۱۹۳۰ء) تک اصلاحی شب و روز ان کے ساتھ رہے۔ وہ مدرسے میں پڑھاتے بھی تھے اور فراہی سے کسب فیض بھی کرتے ۔ قرآن کے علاوہ انھوں نے فلسفے اور پولیٹیکل سائنس کی بعض مشہور کتابیں بھی فراہی سے پڑھیں۔

فراہی کے انتقال کے بعد امین احسن کی خواہش تھی کہ وہ حدیث کا علم بھی کسی بہت بڑے عالم سے حاصل کریں۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے علاقے کے ایک بڑے عالم او رمحدث مولانا عبد الرحمن مبارک پوری سے اصول حدیث اورحدیث کی کتاب ترمذی کو پڑھا۔اس طرح علم حدیث اور روایت و درایت پر تحقیق کے اصولوں کو بھی امین احسن نے ایک صاحب سند محدث سے سیکھا۔

۱۹۳۰ء کی دہائی کے عرصے میں وہ مدرسے کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ فراہی کی تصنیفات کو عام کرنے کے مشن سے وابستہ رہے۔اس مقصد کے لیے ’’دائرہ حمیدیہ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ ۱۹۳۶ء میں ’’الاصلاح‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جس میں فراہی کی تصانیف کے اردو تراجم شائع کیے۔

۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم ہوئی تو مولانا امین احسن ، مولانامنظور احمد نعمانی کے اصرار پر اس کے بانی اراکین میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی زندگی کی اگلی دو دہائیاں جماعت اسلامی کی نذر ہوگئیں ۔اس عرصے میں وہ جماعت کی مجلس شوریٰ کے رکن اور نائب امیر بھی رہے۔ جماعت کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وہ ہجرت کرکے لاہور آگئے، لیکن پروردگار کوان سے کوئی اور کام لینا مقصود تھا۔ چنانچہ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ جماعت اسلامی سے ا ن کا تعلق ختم ہوگیااوروہ قرآن مجید پر غور و فکر اور تدبرکے لیے بالکل یک سو ہوگئے۔

۱۹۵۸ء میں انھوں نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’تدبر قرآن‘‘ لکھنا شروع کی۔ ۱۹۵۹ء میں ماہنامہ ’’میثاق‘‘ جاری کیا اور ۱۹۶۱ء میں حلقہ تدبر قرآن قائم کیا۔ ان کے ذریعے سے وہ پڑھے لکھے لوگوں تک قرآن و حدیث کا علم منتقل کرنے لگے۔ ۱۹۸۰ء میں وہ ’’تدبر قرآن‘‘ لکھ کر فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد وہ علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور حدیث کی مشہور کتابوں موطا اور بخاری کے تفصیلی دروس دیے۔

اللہ تعالیٰ کومولانا سے جو خدمت لینی مقصود تھی، اس کے لیے اس نے انھیں طویل عمر عطا کی۔ وہ ۹۰ برس کی عمر تک چاق و چوبند انداز میں علمی خدمت سر انجام دیتے رہے۔ آخری تین برس وہ صاحب فراش رہے اور ۱۶ دسمبر ۱۹۹۷ کو رات تین بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

ان کی تصانیف میں سب سے نمایاں ’’تدبر قرآن‘‘ ہے جوتفسیر کے علم میں لکھی گئی چار بڑی اور بنیادی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس سے قبل تفسیر کے میدان میں تین اہل علم کی تفاسیر بنیادی حیثیت رکھتی تھیں، یعنی زمخشری، رازی اور طبری۔ ’’تدبر قرآن‘ ‘نے بلاشبہ، انھیں ان ائمۂ تفسیر کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مولانا نے تقریباً ڈیڑھ درجن تصانیف تحریرکیں جن میں ’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘، ’’تزکےۂ نفس‘‘اور ’’حقیقت شرک و توحید‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔ آپ نے متعدد علمی مضامین لکھے جن کے مجموعے الگ سے شائع ہوچکے ہیں، جبکہ آپ کے دیے ہوئے درس حدیث اب تحریری شکل میں بھی دستیاب ہیں۔

مولاناسے اکتساب علم کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس وقت بھی موجود ہے۔ ان کے قائم کردہ حلقۂ تدبر قرآن میں شامل ان کے شاگردوں جناب خالد مسعود صاحب اور جناب ماجد خاور نے ان کی علمی تصانیف کو بہت عام کیا ہے، تاہم خدا کے دین کو دور جدید میں جو چیلنج درپیش تھا، اس کی شدت ان تصانیف سے کم نہیں ہوسکتی تھی۔ اصلاحی نے فراہی کے کام کو بلا شبہ، بہت آگے بڑھا دیا تھا، مگر ابھی تک یہ کام ایک اصولی کام تھا۔ قرآن وحدیث پر غور وتدبر کے دروازے بلاشبہ، کھل گئے تھے۔ اسلامی علوم میں پائے جانے والے بعض بنیادی مسائل بالکل واضح ہوچکے تھے اور ان میں سے کچھ کا حل بھی سامنے آگیا تھا۔ قدیم فقہی بنیاد پر قائم مسلم قانون کے بعض پہلو آج کی دنیا میں کس طرح ناقابل عمل ہوچکے ہیں، یہ بات حدود آرڈی نینس کے نفاذ کے بعدواضح ہوچکی تھی، مگردور جدید کے مسائل پر ان کی علمی روایت کا اطلاق کرکے ان کا حل پیش کرنے کی منزل ابھی بہت دور تھی۔خود اصلاحی صاحب کو یہ اندازہ تھا کہ کام ختم نہیں ہوا، اسی لیے وہ اپنے آخری دور میں اقبال کا یہ شعر اکثر پڑھاکرتے تھے:

سر آمد روزگارے ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
 

Uzma Sagheer Janjua
About the Author: Uzma Sagheer Janjua Read More Articles by Uzma Sagheer Janjua: 19 Articles with 48573 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.