اسلام کے دور جدید کا پہلا عالم


امام حمید الدین فراہی اسلام کے دور جدید کے پہلے عالم تھے۔یہ الگ بات ہے کہ فراہی کو عام لوگ ہی نہیں، بلکہ دینی پس منظر رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے۔فراہی کے بارے میں اس حقیقت کوعلامہ شبلی نعمانی نے اس طرح بیان کیا تھا کہ عام قیاس یہ ہے کہ صاحب کمال کسی حالت میں گم نام نہیں رہ سکتا ... حمید الدین اس اصول سے استثنا کی ایک عمدہ مثال ہیں۔۱؂ فراہی کا مقام و مرتبہ کیا تھا، اس کے لیے ہم سید سلیمان ندوی کے وہ الفاظ نقل کرنا چاہیں گے جو انھوں نے فراہی کی وفات پر لکھے:

امام حمید الدین فراہی

امام حمید الدین فراہی اسلام کے دور جدید کے پہلے عالم تھے۔یہ الگ بات ہے کہ فراہی کو عام لوگ ہی نہیں، بلکہ دینی پس منظر رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے۔فراہی کے بارے میں اس حقیقت کوعلامہ شبلی نعمانی نے اس طرح بیان کیا تھا کہ عام قیاس یہ ہے کہ صاحب کمال کسی حالت میں گم نام نہیں رہ سکتا ... حمید الدین اس اصول سے استثنا کی ایک عمدہ مثال ہیں۔۱؂ فراہی کا مقام و مرتبہ کیا تھا، اس کے لیے ہم سید سلیمان ندوی کے وہ الفاظ نقل کرنا چاہیں گے جو انھوں نے فراہی کی وفات پر لکھے:
’’...اس عہد کا ابن تیمیہ ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ (۱۹ جمادی الثانی ۱۳۴۹ ھ) کو اس دنیاسے رخصت ہوگیا، وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آیندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیداہونے کی توقع نہیں، جس کی مشرقی ومغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی، عربی کافاضل یگانہ اورانگریزی کا گریجویٹ، زہدوورع کی تصویر،فضل وکمال کامجسمہ،فارسی کابلبل شیراز، عربی کاسوق عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہان دانش! ایک دنیاے معرفت!ایک کائنات علم،ایک گوشۂ نشین مجمع کمال، ایک بے نواسلطان ہنر، علوم ادبیہ کایگانہ، علوم عربیہ کاخزانہ،علوم عقلیہ کاناقد،علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کاواقف اسرار، قرآن پاک کاداناے رموز، دنیاکی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے رد و قبول اور عالم کی داد و تحسین سے بے پروا، گوشۂ علم کا معتکف اور اپنی دنیاکاآپ بادشاہ۔ وہ ہستی جوتیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس وتعلیم میں محو،ہرشے سے بے گانہ اور شغل سے ناآشنا تھی، افسوس کہ ان کاعلم،ان کے سینہ سے سفینہ میں بہت کم منتقل ہوسکا ... یہ ہستی آئی اورچلی گئی،لیکن دنیاان کی قدرومنزلت کونہ پہچان سکی اور ان کے فضل وکمال کی معرفت سے ناآشنا رہی۔‘‘ (سید سلیمان ندوی، یاد رفتگاں۱۲۴)

حمید الدین فراہی ۱۸۶۲ء میں اعظم گڑھ ،ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ دس برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا ۔ پھر عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی اور بیس برس کی عمر میں دینی علوم کی تحصیل سے فارغ ہوئے۔دینی علو م اور عربی زبان میں تخصص (Specialization) کے لیے ہندوستان کے بڑے بڑے علمی مراکز کا سفر کیا اور اپنے زمانے کے چوٹی کے علما سے کسب فیض کیا۔ ان کے اساتذہ میں علامہ شبلی نعمانی(جو فراہی کے پھو پھی زاد بھی تھے)، مولانا عبدالحئی فرنگی محلی اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری جو اس وقت ہندوستان میں عربی زبان و ادب کے سب سے بڑے عالم تھے، شامل ہیں۔

قدیم علوم کی تکمیل کے بعد انگریزی اور جدید علوم کی تدریس مکمل کی اور علی گڑھ سے بی اے کی ڈگری لی۔یہاں آرنلڈ جیسے مشہور اسکالر سے فلسفہ پڑھا۔بعد میں جب علی گڑھ پڑھانے آئے تو عبرانی زبان بھی یہیں سیکھی۔علی گڑھ کے چار سالہ قیام میں فراہی کو ان مسائل کا ادراک ہواجو جدید علم اور تمدن کی پیداوار تھے۔عام مذہبی فکر ان مسائل کا جواب دینے سے قاصر تھا، جبکہ جدید فکر کے حاملین، علم، زبان اور ادب کا مطلوبہ پس منظر نہ ہونے کی بنا پر جواب دینے کی کوشش میں خود قرآن کریم کے معنی اور مدعا میں عملاً تحریف کے مرتکب ہو رہے تھے۔اس بات کو اصلاحی صاحب نے فراہی کے علی گڑھ کے قیام کے حوالے سے اس طرح بیان کیا ہے:

’’...یہ وہ زمانہ ہے جب سرسیدمرحوم مغربی نظریات سے مرعوبیت کے سبب سے قرآن مجید کی من مانی تاویلات کر رہے تھے اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جوانگریزوں اورانگریزوں کے لائے ہوئے افکار و نظریات سے مرعوب تھا،بری طرح ان من مانی تاویلات کاشکار ہورہا تھا۔ مولانا کے اس فتنہ کو جہاں انگریزوں کے تسلط کاایک قدرتی نتیجہ خیال کیا، وہاں اس حقیقت پربھی ان کی نظرگئی کہ مذہبی علوم خصوصاًقرآن کے سمجھنے سمجھانے کاجوطریقہ مسلمانوں میں رائج اور مقبول رہاہے، وہ بالکل ہی غلط اورفرسودہ ہے۔ اور اس غلط اور فرسودہ طریقہ نے مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کو فکری اعتبار سے اس قدر کمزوراورمنفعل بنادیاہے کہ وہ بڑی آسانی سے ہرفتنہ کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کاعلاج اللہ تعالیٰ نے مولاناکے دل میںیہ ڈالاکہ قرآن مجیدپرغورکرنے کا وہ صحیح طریقہ اختیار کیا جائے جس سے حکمت قرآن کے دروازے کھلیں تاکہ مسلمان مغرب کی فاسد عقلیت سے مرعوب ہونے کے بجاے قرآن کی صالح عقلیت سے اس کامقابلہ کرسکیں۔ چنانچہ مولانانے تفسیروں کے واسطہ سے قرآن کے سمجھنے کامقبول عام طریقہ چھوڑکر قرآن پر براہ راست غور کرنے کا طریقہ اختیار کیا اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے مولاناکی رہنمائی ان اصولوں تک فرمائی جو انھوں نے اپنے مقدمہ نظام القرآن میں بیان فرمائے ہیں۔‘‘(مجموعہ تفاسیر فراہی۳۰)

فراہی نے عملی زندگی کا آغاز سندھ مدرسہ کراچی میں بحیثیت معلم کیا۔ کراچی میں ۱۸۹۷ء سے ۱۹۰۶ء تک دس سالہ قیام میں فراہی کو وہ فرصت میسر آگئی کہ وہ قرآن پر اپنے اس کام کا آغاز کریں جو ایک نئے دور کی نوید بننے والا تھا۔ قرآن کی تفسیر اور علم قرآن پر متعدد تصانیف آپ نے یہیں تحریر کیں۔ کراچی کے بعد وہ ایم اے او کالج علی گڑھ، میور سینٹرل کالج الٰہ آباد اورعثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد دکن جیسے نمایاں تعلیمی اداروں میں پڑھاتے رہے۔ ۱۹۱۹ء میں آپ اپنے آبائی وطن لوٹ آئے اور پھر آخری وقت تک مدرسۃ الاصلاح ، سرائے میر کی نظامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ کے دن حمید الدین فراہی کا انتقال ہوگیا۔

امام فراہی نے اپنے پیچھے بہت بڑا علمی کام چھوڑا۔ان میں سے کچھ ان کی زندگی میں اور کچھ بعد میں شائع ہوا۔ ان کابیش تر کام عربی میں تھا جن میں بہت سی کتابوں کا ترجمہ اردو میں ہوچکا ہے۔ ان میں سب سے مشہور ’’مجموعہ تفاسیر فراہی‘‘، ’’اقسا م القرآن‘ ‘اور ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ ہیں، تاہم فراہی کا اصل سرمایہ وہ دو شاگرد تھے جو انھوں نے اپنی زندگی کے آخری عرصہ میں مدرسۃ الاصلاح میں تیار کیے۔ان میں سے ایک اختر احسن اصلاحی تھے جنھوں نے فراہی کے بعد مدرسۃ الاصلاح کی ذمہ داری سنبھالی۔ دوسرے شاگرد امین احسن اصلاحی تھے۔یہی وہ امین احسن تھے جو فراہی کے فکر کے امین بنے اور اگلی پون صدی تک اسے اپنی غیر معمولی علمی و ادبی صلاحیتوں سے سینچتے رہے۔ فراہی ، علم کا ایک پوشیدہ خزانہ تھے۔اللہ تعالیٰ نے اس خزانے کوامین احسن کے ذریعے سے زمانے پر آشکار کیا۔

Uzma Sagheer Janjua
About the Author: Uzma Sagheer Janjua Read More Articles by Uzma Sagheer Janjua: 19 Articles with 48577 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.