’’مالہ میں دھاگہ ‘‘پروفیسر امین طارق قاسمی کا شعری
مجموعہ ہے جس کی اشاعت ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرکز تحقیقات میرپور کے
زیراھتمام ۲۰۱۴ء میں ہوئی ۔ پیش لفظ پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے تحریر
کیا ہے ۔ ’مختصر سوانح‘ میں امین طارق قاسمی کی صاحبزادی جو یریہ یاسمین نے
اپنے والد کی سوانح حیات کو سامنے لایا ہے ۔جو یریہ یاسمین میرپور کالج فار
گرلز کی سربراہ ہیں ۔امین طارق نے ضلع پونچھ کے ایک علمی ،ادبی اور دینی
گھرانے میں جنم لیا۔ بچپن میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کے باعث ان کی
ابتدائی تعلیم و تربیت ان کے دادا حبیب اﷲ خان نے کی۔
اُردو کے علاوہ فارسی اور عربی بھی اپنے دادا سے ہی سیکھی ۔دیو بند، پنجاب
یو نی ورسٹی اور پشاوریونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ ملازمت کے سلسلے میں
سوہاوہ، افضل پور، چکار اور راولاکوٹ میں بھی رہے ۔جامعہ آزادجموں و کشمیر
کے شعبہ علوم اسلامیہ سے منسلک ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک اسی شعبے سے وابستہ
رہے ۔ آٹھ ، نو سال کی عمر سے سخن گوئی کا آغاز کیا اور کبھی کسی سے اصلاح
نہیں لی۔ ابتدا میں اختر اور بعد ازاں طارق تخلص اختیار کر لیا۔ ڈوگرہ
حکومت کے دور میں ان کی حب وطن کی شاعری کے باعث ان کے سر کی قیمت پانچ سو
روپے مقرر کی گئی ۔
1947ء میں تحریک آزادی کے تمام جلسوں میں ’طارق نامہ‘ کے شاعر کی شاعری
گونجتی تھی ۔ انہوں نے سترہ سال کی عمر میں حفیظ جالندھری کے ’’شاہنامہ
اسلام‘‘ کی طرز اور بحر میں انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف طویل نظم ’’جہاد
کشمیر ‘‘ لکھی جو کہ ۱۹۵۷ ء میں شائع ہوئی اور حکومت پاکستان نے انہیں ۵۰۰
روپے انعام عطا کیا ۔4 مئی 2008 ء کو وہ اس جہان فانی کو الوداع کہہ گئے ۔
’’مالا میں دھاگہ‘‘ کا آغاز نعتیہ کلام سے ہوتا ہے ۔ نعتیہ کلام کے ہر
شعراور ہر مصرع سے عشق رسول ؐ اور عقیدت جھلکتی دکھائی دیتی ہے ۔ محمد
مصطفی ؐ کی ثنا بیان کر نے کے بعد وہ دربار رسالت میں مسلمانوں کی حالت
زاربیان کر تے ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمان اس وقت مصائب کا شکار ہیں ،ایک
مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ کشمیر ، لبنان اور افغانیوں کی حالت زار پر افسوس
کر تے ہوئے حضور رحمت ؐ سے التجا کر تے ہیں ۔
یہ روداد مصیبت لائق غور و توجہ ہے
حضور رحمت عالم اسے اک التجاکہیے
ایک نعت میں امین طارق بتاتے ہیں کہ نبی آخر الزماں ؐ کے اسوۂ حسنہ سے مہرو
مروت اور اخوت کا پیغام ملتا ہے۔ ان کا ہر قول و عمل حسین تھا۔ وہ رحمت
عالم بن کر آئے۔ ان کی آمد سے زمین و آسمان روشن ہو گئے ،وہ صادق اور امین
تھے ۔ خدا نے بھی ان کی ثنا بیان کی اور قرآن پاک بھی ان کی مدح سرائی بیان
کر تا ہے۔
کرتا ہے خدا خود اس کی ثنا
قرآن ہے اس کا مدح سرا
وہ نور ازل وہ شمع حرا
روشن کیے اس نے ارض و سما
اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے کہ شاعر نے تقریباً ہر غزل کے ساتھ مقام،تاریخ ،
اور سال تحریر درج کیا ہے ۔ بعض اوقات انسان کو کچھ مصلحتوں کے تحت خاموشی
اختیار کر نا پڑتی ہے ۔ دل کی بات کو دل میں ہی دبا کر رکھنا پڑتا ہے یہی
بات امین طارق بھی کہتے ہیں ۔
احساس مصلحت نے زباں کو پکڑ لیا
دل میں چل رہے تھے کچھ اسرار دوستو
ایک غزل میں شاعر کہتے ہیں کہ ہمیں قید سے فضول میں ڈرایا جا رہا ہے کیوں
کہ ہم تو پہلے سے جانتے ہیں کہ یہاں اہل وفا کو کیا کچھ سہنا پڑتا ہے ۔
زبان پر تو پابندی لگائی جا سکتی ہے لیکن دلوں پر پہرے نہیں بٹھائے جا سکتے
۔ آسمان نے بھی ہمیں مٹانے کے لئے بہت کوششیں کیں مگر ہمارا کچھ نہ بگاڑ
سکا۔
فلک نے زور تو اپنا لگا کے دیکھ لیا
یہ اور بات ہے اس سے نہ ہم مٹائے گئے
علامہ اقبال نے کہا تھا
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے آدمی کو دیتا ہے نجات
امین طارق بھی غزل کے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ میں کسی کے در پر نہیں
جھکوں گا کیو ں کہ میرے تمام سجدے ایک آستاں کے لیے ہیں اور یہ جبیں صرف
اسی آستاں پہ جھکتی ہے ۔ کاش دنیا کے سارے مسلمان یہ حقیقت جان لیں کہ ایک
خدا کے سامنے جھک کر صرف اسی سے مانگنا ان کو ہزار ناخداؤں کے آگے جھکنے سے
بچا لیتا ہے ۔جو لوگ خدا سے لو لگا لیتے ہیں :اسی کے در پہ جھکتے ہیں تو
خدا یقینا ان کو اپنی رحمتوں سے کبھی مایوس نہیں ہونے دیتا ۔
کسی کے در پہ جھکے گی نہ یہ جبیں طارق
تمام سجدے ہیں وقف ایک آستاں کے لیے
دور جدید کا جائزہ لیتے ہوئے ایک غزل میں ان کا کہنا ہے کہ اس دور نے ہمیں
دیا ہی کیا ہے :جائز اور ناجائز کا فرق بھی ذہنوں سے مٹ گیا ہے، رہنما ہی
رہزن بن گئے ہیں ۔
دور جدید نے ہمیں اس کے بغیر کیا دیا
فرق روا وناروا ذہن سے بھی مٹا دیا
ایک اور غزل میں کہتے ہیں
خود نمائی خود سری ، اس دور کا دستور ہے
ایک زعم برتری اس دور کا دستور ہے
امین طارق اپنے عہد اور اس عہد کے انساں سے مطمئن نہیں تھے جس کا اظہار ان
کی غزلیات میں جابہ جا دکھائی دیتا ہے ۔ انہیں افسوس ہے کہ اس دور کے انسان
کو باقی سب کچھ تو یاد ہے مگر خدا جسے یاد رکھنا چاہیے ،جس کا ذکر ہر سانس
کے ساتھ کرنا چاہیے: وہ خدا انساں کو یاد نہیں ہے ۔ اس عہد کے لوگ دنیا کی
لذتوں میں گم ہو کر رہ گئے ہیں ۔ انہیں تو روز آخرت بھی یاد نہیں ۔
اس دور میں انساں کو خدا یاد نہیں ہے
دنیا میں ہے گم روز جزا یاد نہیں ہے
انہیں رہنماؤں سے بھی شکوہ ہے جو ہواؤں میں محل تعمیر کر تے ہیں۔ انہیں قوم
سے بھی گلہ ہے جس کی حالت گرتی دیوار جیسی ہے ۔ انہیں قافلے کا بھی دکھ ہے
جو احساس زیاں سے محروم ہو چکا ہے ۔ امین طارق کہتے ہیں کہ ہم نے خود کو
روایات کے خود ساختہ پھندوں کا قیدی بنا لیا ہے ۔ مکرو فریب میں ہم الجھ
گئے ہیں اب تو خدا سے خیر کی ہی طلب ہے۔
ہم روایات کے خود ساختہ پھندوں میں اسیر
وہ فسوں ساز وفسوں کا ر خدا خیر کرے
امین طارق کو جب صدق و اخلاص کہیں دکھائی نہیں دیتا تو وہ سوچنے پر مجبور
ہو جاتے ہیں کہ انہیں کوئی مونس وغم خوار کہاں ملے گا۔جسے وہ اپنا حال دل
سنا سکیں ۔وہ جب دیکھتے ہیں کہ یہاں تو خود فروشی کے بدلے اعزاز ملتے ہیں ۔
اپنے مطلب کے لئے ناخوب کو خوب کہنا پڑتا ہے تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ یہ
سب کرنا ان کے بس کی بات نہیں ۔
خود فروشی کے عوض ملتے ہیں اعزاز یہاں
ایسے ماحول میں اعزاز کہاں سے لاؤں
لیکن اس سب کے باوجود وہ نا امید نہیں ہوتے ۔ ان کا یقین ہے کہ ظالم آخر
ایک دن اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا تب انہیں عذاب الٰہی سے کوئی طاقت نہیں
بچا پائے گی ۔ستم کے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ غم کی شام کے بعد مسرت کی صبح
ضرور طلوع ہو گی کیوں کہ ہماری دعا اثر سے خالی نہیں ۔
صبح مسرت آئے گی شام الم کے بعد
خالی نہیں اثر سے دعا دیکھتے رہو
علامہ اقبال کی طرح امین طارق بھی اس بات کے قائل تھے کہ زندگی کا حاصل عشق
اور عشق کا حاصل خود ی ہے۔ لیکن یہ بات انہیں رنجیدہ کر دیتی ہے کہ ہم نے
اس متاع حیات کو بھی کھو دیا ۔ نہ ہماراجذبہ عشق سلامت رہا اور نہ ہماری
خودی مستحکم ہوئی ۔
حاصل زندگی ہے عشق ، حاصل عشق ہے خودی
ہم نے تو اس متاع کو کلیۃً گنوا دیا
خدا تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں سے کسی ذی روح کو انکار نہیں۔ امین طارق کہتے
ہیں کہ بے شک اس کی عطا کی گئی نعمتوں سے کسی کو انکار کی جرات نہیں لیکن
مکافات کا جو سلسلہ ہے اس سے خوف محسوس ہوتا ہے۔
اس کی نعمت سے ہے انکار کی جرات کس کو
اس کے قانون مکافات سے ڈر لگتا ہے
ان کے ایمان کی پختگی ان کو دنیا سے نہیں خدا سے ڈرنے پر مائل کر تی ہے ۔
اہل دنیا سے نہیں کوئی بھی خطرہ طارق
مالک ارض و سماوات سے ڈر لگتا ہے
امین طارق کی ایک غزل کا نچوڑیہ ہے کہ اس دنیا کی بے مروتی پر اعتبار نہیں
کیا جا سکتا کیوں کہ زندگی کا سامان صرف چند سانسیں ہی تو ہیں ۔ حقیقت میں
تو زندگی ایک مجبوری کا نام ہے جہاں قید رہنا پڑتا ہے۔ اس دنیا میں جی لگے
بھی تو کیسے یہاں تو ظالم نا اہل مالک و مختار بنے بیٹھے ہیں اور اہل لوگوں
پر زندگی کا دائرہ تنگ کیا جا چکا ہے ۔
جاہل و جابر یہاں پر مالک و مختار ہیں
اہل دانش کے لئے ہے تنگ وامان حیات
ظاہری صورت اکثر دھوکا دے جاتی ہے ۔جب بھی کسی کو پرکھنا ہو اس کے اندر
جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں کیوں کہ تن تو اجلا ہو لیکن من میلا تو اس
ظاہری خوب صورتی کی کوئی اہمیت نہیں ۔
ظاہری صورت ہوا کر تی ہے اکثر پر فریب
جب کسی کو دیکھنا ہو اس کے اندر دیکھئے
ماضی اور حال کا تقابل بھی کر تے ہیں کہ ماضی میں پتھر سے مکاں بنائے جاتے
تھے آج یہ حال ہے کہ ان مکانوں میں رہنے والے مکیں ہی پتھروں کی طرح بے جان
اور بے حس ہو چکے ہیں ۔
ماضی میں بناتے تھے پتھر سے مکاں اپنا
اب حال یہ ہے اپنا ہوتے ہیں مکیں پتھر
رہزنوں کی بھیڑ میں انہیں کسی مسیحا کی تلاش مضطرب رکھتی ہے ۔
رہزنوں کا ہجوم ہے طارق
اور کہیں رہنما نہیں ملتا
حق و باطل کے معرکے کربلا کو یاد کرتے ہوئے حضرت حسین ؓکو صبر و استقامت کی
علامت قرار دیتے ہیں ۔
صبر و ضبط و استقامت کی علامت ہیں حسینؓ
کربلا ہے ظلم اور باطل سے ٹکرانے کا نام
حسد ایک بیماری ہے جو آج کل کے معاشرے میں بھی بہت عام ہے ۔اس پر بھی بات
کرتے ہیں کہ جو لوگ حسد کر تے ہیں دوسروں کی کامیابیوں سے جل کر اندر ہی
اندر کڑھتے ہیں وہ در حقیقت اپنا ہی نقصان کر رہے ہوتے ہیں ۔
حسد کی آگ میں خود اپنے گھر کو کر کے خاکستر
تماشا دیکھتے ہیں چند ناداں یوں بھی ہوتا ہے
قدروں کے مٹ جانے کا افسوس بھی کرتے ہیں۔
ہم کو تھااپنے دور سعادت میں جن پہ ناز
تبدیل ہو گئی ہیں وہ اقدار دوستو
ایک غزل ساغر صدیقی کے اس شعر کی زمین میں کہی گئی ہے جو انہوں نے اس وقت
کہا تھا جب صدر ایوب خان بھارت میں ان کی ایک غزل سن کر ان سے ملنے تشریف
لائے تو ساغر صدیقی نے مصافحہ کر نے سے انکار کر تے ہوئے یہ شعر کہا تھا۔
جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
امین طارق قاسمی کہتے ہیں
اس دور کا منشور ہے سلطانی جمہور
شاہوں کے ثناخواں سے کچھ بھول ہوئی ہے
حسرت موہانی کی غزل کی زمین میں لکھی گئی نظم بھی اس کتاب میں شامل ہے ۔
حسرت کی غزل کا مطلع ۔
رسم جفا کامیاب دیکھے کب تک رہے
حب وطن مست خواب دیکھے کب تک رہے
امین طارق قاسمی کی غزل کا مطلع
حسرت فصل بہار دیکھئے کب تک رہے
پہلو ئے گل میں یہ خار دیکھئے کب تک رہے
اقبال نے اپنے وطن کی محبت میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں اپنے وطن کے ہر
ذرے کا پجاری ہوں ۔’خاک وطن کا مجھ کو ہرذرہ دیوتا ہے‘ ۔طارق امین بھی کہتے
ہیں میرے وطن کا ہر ذرہ آفتاب کی مانند ہے ۔’ہر ذرہ میری خاک وطن کا ہے
آفتاب‘۔غالب کے اس خیال کو کہ’ در د کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‘ کو
امین طارق نے یوں بیان کیا ہے’گزرنا درد کا حد سے دوا ہونے کا مزہ ہے‘۔ایک
اور مصرع ملاحظہ کریں ’درد جب حد سے گزرتا ہے دوا ہوجاتا ہے ‘ ۔غالب کا یہ
شعر کہ
ترے سروقامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
یہی مضمون امین کے ہاں بھی نظر آتا ہے ۔
قامت بھی دیکھئے تو قیامت سے کم نہیں
وہ فتنہ ہے کہ فتنہ محشر کہیں جسے
علامہ اقبال کے درج ذیل شعر کا مضمون بھی ان کے ہاں ملتا ہے۔
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اس کو طارق امین یوں پیش کر تے ہیں ۔
حاصل جہاں میں صرف تغیر کو ہے ثبات
جس چیز کا ہے نام سکوں محال ہے
امین طارق قاسمی نے اردو کے کلاسیکی شعرا کے کچھ مصرعے تحریف کے ساتھ اپنے
کلام میں شامل کیے ہیں جیسا کہ اقبال کے اس مصرع کو’سینہء افلاک سے اٹھتی
ہے آہ سوزناک‘کو امین طارق نے یوں کہا’سینہء مظلوم سے اٹھی تھی آہ درد
ناک‘۔بہادر شاہ ظفر کا مصرع ’ بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ‘ کو کچھ
یوں باندھا کہ ’ہم کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ‘۔اقبال کا مصرع’دل سے جو
بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘ کو’بات جو دل سے نکلتی ہے وہ کرتی ہے اثر‘
لکھا۔فیض کا مصرع’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘ کو’داغ داغ اس کا
اجالا شب گزیدہ ہے سحر‘تحریر کیا۔اور اقبال کے اس شعر کا انہوں نے جواب دیا
ہے ۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
امین طارق اس کو یوں بیان کرتے ہیں کہ
فطرت کے مقاصد سے بے بہرہ ہیں اب دونوں
کیا بندۂ صحرائی،کیا مرد کوہستانی
کتاب کے آخر پہ دو نظمیں شامل ہیں۔ ’ہفت رنگ‘کے عنوان سے لکھی گئی نظم
مظفرآباد میں ۱۹۵۸ ء میں کہی گئی ہے۔اس نظم میں ایک نگران مجلس کا خاکہ
بیان کیا ہے۔ دوسری ’ساقی نامہ کشمیر‘ ہے۔ اس میں کشمیر کی خوب صورتی اور
وہاں کے علم و ہنر کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔امین قاسمی کی غزل میں رنگا
رنگ خیالات ملتے ہیں جو ان کے گہرے مشاہدے اور عمیق تجربے کا نتیجہ
ہیں۔مضمون کا اختتام ان کی غزل کے ایک شعر پر کرنا چاہوں گی ۔
فخر کرتے ہیں سہاروں پہ زمانے والے
بے سہاروں کا مددگار خدا ہوتا ہے |