اس وقت امریکاسمیت کسی بھی ملک سے چین کی جنگ کا
بظاہرکوئی امکان نہیں۔تائیوان کے معاملے میں چین مجموعی طورپرامن پسندرہا
ہے۔ تائیوان کی قیادت سے معاملات طے کرنے کی کوششیں طاقت کے استعمال سے
دورلے گئی ہیں۔ امریکا نے جب بیجنگ کو چین کا دارالحکومت تسلیم کرلیااوراس
حوالے سے تائپے کی حمایت ترک کردی تب چین نے بھی تائیوان کوطاقت کے ذریعہ
اپنے میں ضم کرنے کاارادہ ترک کر دیااورباضابطہ اعلان کیاکہ وہ تائیوان
کوپرامن طریقے سے اپناحصہ بنائے گا۔
تائیوان ہویاکوئی اورملک،کسی بھی تنازع میں چین نے یہ واضح کرنے میں کوئی
کسراٹھانہیں رکھی کہ وہ طاقت کے استعمال کواوّلین ترجیح نہیں دیتااوراس کی
کوشش ہوتی ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے طے کرلیے جائیں۔ چینی قیادت ایک طرف
تودنیاکویہ بتاتی ہے کہ چین بے انتہاطاقتورہے اورکسی بھی وقت کچھ بھی
کرسکتا ہے اوردوسری طرف وہ اس بات کوبھی واضح کرتی ہے کہ چین طاقت اسی وقت
استعمال کرتاہے جب ایساکرناناگزیرہو۔اپنی بڑھتی ہوئی قوت کو ذہن نشین رکھتے
ہوئے چینی قیادت اس وقت کاانتظارکرنے کوترجیح دیتی ہے، جب فریق ثانی
خوداپنے مطالبات سے دستبردارہوجائے اورچین سے معاملات کو طے کرنے میں
دلچسپی لے۔
ریکارڈاورمشاہدے سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ چین محدودمقاصد،محدود وسائل
اورمحدودمساعی کے ساتھ کام کرنے کاعادی ہے۔ وہ کسی بھی بہترموقع پراچھی
طرح،طویل مدت تک انتظارکرتاہے اورجب موقع ہاتھ آتاہے تب وہ اُس سے مستفید
ہونے میں ذرابھی دیرنہیں لگاتا۔ماہرین کہتے ہیں کہ چین نے کبھی کسی بھی
موقع سے ضرورت اورگنجائش سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ چینی
قیادت مشن کی تکمیل کے حوالے سے کھلواڑکی عادی نہیں۔اگر ایک انچ دیا جائے
تواس بات کاامکان معدوم ہے کہ چینی قیادت ایک میل کیلئےتگ ودوکرے گی لیکن
ان دنوں چین اوربھارت کی دوہزارمیل طویل مشترکہ سرحدجوکہ شمال مغرب میں
جاکرپتلی سی راہداری کی صورت اختیارکرلیتی ہے اوریہ راہداری ایٹمی طاقت کے
حامل دو پڑوسی ممالک کے درمیان تنازع کی وجہ بن گئی تھی۔
۱۶جون۲۰۱۷ءکو چینی فوجیوں نے ڈوکلام کے مقام پرسڑک کووسعت دینے کیلئےکام
شروع کیا،یہ وہ متنازع جگہ ہے جس پر بھوٹان اورچین دونوں دعوی کرتے ہیں (یاد
رہے بھارت کا اس سے کوئی تعلق نہیں)۔جب کام شروع ہواتو بھوٹان نے بھارت سے
اس کی تعمیررکوانے کیلئے مدد مانگی۔جب نئی دہلی نے اپنی فوج بھیجی توبیجنگ
نے اس مداخلت کو سختی سے مستردکردیااوراس کے بعددونوں ممالک کے ذرائع ابلاغ
میں بیانات کی ایک جنگ شروع ہوگئی۔ گزشتہ ہفتے چین نے سرحد سے ملحقہ علاقے
میں جنگی مشقیں بھی کیں جن میں اصلی اسلحہ و بارود استعمال کیا گیا۔
دونوں ممالک کی طرف سے فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک ماہ تک جا ری رہا اور
بالآخر٣/اگست کوچین کی وزاتِ خارجہ نے بھارت کی اس حرکت کو غیر ذمہ دارانہ
اورجارحیت سے بھرپورقراردیکرمتنبہ کیا۔ اس کے ایک ہی دن بعد چینی وزارت
دفاع کے ترجمان''جنرل ووقیان''نے پریس کانفرنس میں بھارت کودھمکی دیتے ہوئے
کہا''کہ قومی سلامتی اورخودمختاری کے تحفظ کیلئےچین کاعزم غیر متزلزل ہے،
بھارت حالات ہمیشہ اپنے حق میں سازگاررہنے کے مفروضے پر رسک لینے اور خیالی
دنیا میں رہنے سے گریز کرے''۔
بھارت ڈوکلام پرتوکوئی دعویٰ نہیں کرتالیکن یہ مقام''سلی گوری'' راہداری سے
متصل ہےجو ریاست سکم کے پاس سے گزرتی ہے،یہ ریاست بھارت کی سات انتہائی
شمال مغربی ریاستوں کومرکزی بھارت سے ملاتی ہے۔انہی میں سے ایک ریاست
اروناچل پردیش بھی ہے جوکہ رقبے کے لحاظ سے مغربی کیرولینا جتنی ہے،فی
الحال تواس ریاست کاکنٹرول بھارت کے پاس ہے لیکن چین اس کی ملکیت کادعویٰ
کرتا ہے۔ یہ علاقہ تزویراتی طورپر بھارت کیلئے بہت اہم ہے اور بھارت کوڈرہے
کہ چین اس علاقہ پر قبضہ نہ کرلے لیکن زمینی حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ
چین ہمیشہ ایک لمبی اورصبرآزما پالیسیوں کے تحت بالآخراپنی منزل کوحاصل
کرکے رہتاہے۔
چین اوربھارت ایک سرحدی جنگ لڑچکے ہیں،اس کے باوجودان دونوں ممالک کے
درمیان تنازعات حل نہیں ہوئے۔اروناچل پردیش کے علاوہ سیاچن، اکسائی چن
اورDepsang Plainsبھی متنازع علاقوں میں شامل ہیں لیکن اس مرتبہ چین نے
بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پربیٹھ کرڈوکلام کاتنازعہ کو ختم کرنے کیلئے
اپنی دوٹوک پالیسی کے تحت بھارت کوڈوکلام سے فوج نکالنے پرمجبورکردیا۔
بظاہرمودی سرکارنے اپنی عوام کے سامنے یہ کہہ کر ''دونوں ملکوں نے باہمی
اتفاق سے اپنی فوجیں واپس بلالیں ہیں''اپنی شرمندگی کوچھپانے کی کوشش کی
لیکن حقیقت کوزیادہ دیرتک نہیں چھپایاجاسکتاکیونکہ چین کی فوج بھارت کے
سینے پرمونگ دلنے کیلئےاب مستقل طورپروہاں موجودرہے گی۔ |