نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کودل وجان سے اللہ
تعالیٰ کاآخری نبی ماننامسلمانوں کابنیادی ایمان اورعقیدہ ہے۔رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدنہ کوئی نبی آیا ہے اورنہ ہی آئے گا۔اس دوران
جتنے بدبختوں نے بھی نبی ہونے کادعویٰ کیا ہے وہ سب سے سب جھوٹے اورکذاب
ہیں۔ان جھوٹے اورکذاب بدبختوں سے نبوت کی دلیل بھی طلب نہیں کی جاسکتی جوان
سے نبوت کی دلیل طلب کرتاہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے بعدنبی آسکتاہے۔حالانکہ قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے بعدکوئی نبی نہیں۔جوسرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کواللہ تعالیٰ کاآخری نبی نہ مانے اوردائرہ اسلام سے خارج ہے۔پاکستان ایک
اسلامی نظریاتی ملک ہے۔اس پرحکومت کرنے کے لیے مسلمان ہوناضروری ہے۔رسول
کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواللہ تعالیٰ کاآخری نبی ماننے کے بغیرایمان
مکمل نہیں ہوتا ۔ حکومتی ایوانوں میں منکرین ختم نبوت کاداخلہ روکنے کے لیے
انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی میں عقیدہ ختم نبوت کی شق بھی
شامل کی گئی ۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق حال ہی میں
منظورہونے والے الیکشن بل میں جوترامیم کی گئی ہیں ان ترامیم میں عقیدہ ختم
نبوت میں ترمیم بھی شامل ہے۔وفاقی حکومت کی طرف سے انتخابات بل۷۱۰۲ء میں
کاغذات نامزدگی فارم سے حلفیہ شق کے خاتمے اوربل سے سٹیٹس آف احمدیزشق کو
حذف کے معاملے پرحکومت کی اتحادی اوراپوزیشن جماعتوں نے سخت ردعمل
کااظہارکرتے ہوئے قومی اسمبلی میں شدیداحتجاج کیا ہے۔شاہ محمودقریشی، علی
محمدخان، صاحبزادہ طارق اللہ،اکرم خان درانی، میاں
عبدالمنان،میجرطاہراقبال، غلام احمدبلورنے ختم نبوت شق میں کوئی تبدیلی نہ
کیے جانے کی وفاقی حکومت کی باتوں کوحقائق کے خلاف قراردیتے ہوئے بل میں
ختم نبوت کی حذف شدہ ترامیم کوواپس بل کاحصہ بنانے کے لیے فوری
طورپرمنظورشدہ بل میں ترامیم لانے کامطالبہ کیا۔اہل سنت جماعتوں کامشترکہ
اجلاس جامعہ رضویہ میں چیئرمین سنی اتحادکونسل صاحبزادہ حامدرضاکی زیرصدارت
ہوا۔اجلاس میں جماعت اہل سنت، مرکزی جمعیت علماء پاکستان،نیشنل مشائخ
کونسل، انجمن طلباء اسلام، پاکستان فلاح پارٹی، مصطفائی تحریک، تنظیم
المساجد پاکستان ، تنظیم اتحادامت، تحفظ ناموس رسالت محاذ،شیران اسلام، سنی
علماء بورڈ،جانثاران ختم نبوت،تحریک فروغ اسلام، سنی یوتھ ونگ ، انجمن خدام
الاولیاء،انجمن طلباء مدارس عربیہ،سنی تنظیم القراء،مرکزی مجلس چشتیہ،انجمن
فدایان مصطفی،سنی جانثار،تحریک نفاذ فقہ حنفیہ،بزم محدث اعظم، آل پاکستان
علماء مشائخ کونسل، تحریک فروغ فکررضا،غوثیہ مشن انٹرنیشنل،سنی فاؤنڈیشن
اوردوسری جماعتوں کے راہنماؤں نے شرکت کی۔اجلاس میں اہل سنت جماعتوں نے
تحریک ختم نبوت چلانے کااعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ الیکشن امیدوارکے حلف
نامے میں ختم نبوت شق میں لفظی ترمیم ناقابل برداشت ہے۔حکومت کی قادیانیت
نوازی کھل کرسامنے آگئی ہے۔حلف نامے کے پرانے الفاظ بحال ہونے تک احتجاج
جاری رہے گا۔حلف نامے میں تبدیلی کرناحکومتی بدنیتی ہے،اس ترمیم
کامقصدقادیانیوں کوفائدہ پہنچاناہے۔ ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی اس
حوالے سے ایک رپورٹ یوں ہے کہ الیکشن سال دوہزارسترہ میں ختم نبوت سے متعلق
الفاظ تبدیل کرنے پرترمیم نے حکومت کوایک اورمشکل میں ڈال دیاہے۔ترمیم
پرمذہبی حلقوں نے شدیداحتجاج کرتے ہوئے تبدیلی واپس لینے کامطالبہ کیا
ہے۔علمائے کرام کاکہنا ہے کہ حکومت نے آبیل مجھے ماروالی بات کی ہے۔نئے بل
میں ختم نبوت سے متعلق الفاظ کواقرارنامے میں تبدیل کر دیاگیا ہے۔اس سے
پہلے امیدوارکوحلف دیناہوتاتھا کہ وہ ختم نبوت پرایمان رکھتاہے۔نئے بل میں
حلف کی جگہ اقرارکالفظ ڈال دیاگیا ہے۔بل کی آڑ میں حکومت نے ایساکام کیاجس
کی ماضی میں تمام کوششیں ناکام ہوئیں۔ضیاء الحق کے دورمیں اے زیڈفاروقی
جیسے لوگوں کومنہ کی کھاناپڑی۔اے زیڈ فارقی نے میں ’’میں حلفیہ
اقرارکرتاہوں‘‘کوبدل کر’’میں اقرارصالح کرتاہوں‘‘اے زیڈفاروقی کاخیال تھا
کہ اس ہیرپھیرکی کسی کوسمجھ نہیں آئے گی۔علماء کی جانب سے شدیدردعمل
اورالیکشن کمیشن کے گھیراؤکرنے کے اعلان پرضیاء الحق نے اے زیڈ فاروقی
کوعہدے سے فارغ کردیا۔اب صدق دل کالفظ ختم کرکے محض ڈکلیئرکالفظ لکھ دیاگیا
ہے۔سادہ الفاظ میںآپ یوں کہہ سکتے ہیں حکومت نے کاغذات نامزدگی میں عقیدہ
ختم نبوت پرحلف کالفظ ختم کرکے اقرارنامے میں بدل دیاہے۔حلف اوراقرارنامے
کے مطلب میں واضح فرق ہے۔ن لیگ حکومت کے اس بدترین اقدام کے خلاف مذہبی
جماعتیں سراپااحتجاج بن گئی ہیں ۔سینیٹ میں بڑے سمجھدارلوگ ہوتے ہیں مگراس
شق کوکسی نے بھی نہیں دیکھا۔یہ توقومی اسمبلی میں شیخ رشیدنے فضل الرحمن
کوللکارتے ہوئے کہا کہ کہاں ہوآج ختم نبوت کابل ختم کردیاگیا ہے۔ ماہرقانون
آفتاب باجوہ نے کہا کہ حکومت نے بل میں ترمیم کرکے قوم سے زیادتی کی
ہے۔اقرارنامے کالفظ لین دین کے لیے مخصوص ہے۔تحریک لبیک یارسول اللہ، تحریک
حرمت رسول، پاکستان علماء کونسل جماعۃ الدعوۃ اورالحمدیہ سٹوڈنٹس سمیت
دیگرمذہبی جماعتوں نے بھی اراکین اسمبلی کے حلف نامے میں ترمیم کرنے
پرشدیدردعمل ظاہرکرتے ہوئے ملک بھرکی دینی، سیاسی، سماجی تنظیموں کوساتھ
ملاکرملک گیرتحریک چلانے کااعلان کیاہے۔تحریک لبیک یارسول اللہ کے
زیراہتمام انتخابی اصطلاحات بل سال دوہزارسترہ کے نام پرختم نبوت کے حلف سے
لفظ حلف نکالنے کے خلاف پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوا۔جس میں ا
میرعلامہ خادم حسین رضوی، پیرافضل قادری، مولاناوحیدنور، پیراعجازاشرفی
ودیگرنے شرکت کی۔علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ شریف براداران اسلام
اورعدلیہ پرحملہ آورہونے کے بعددنیابھرکے مسلمانوں کے اجماعی اورقطعی عقیدہ
ختم نبوت کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوچکے ہیں۔اب ان کی حکومت کے رہنے کاکوئی
جوازنہیں۔اگریہ حکومت میں رہیں گے تویہ اسلام وپاکستان کوشدیدنقصان پہنچانے
کاباعث بنیں گے۔نوازشریف کانااہل ہوناکافی نہیں بلکہ ان کی پوری جماعت
کواقتدارسے نکالنابقائے پاکستان کے لیے ناگزیرہوگیا ہے۔حکومت کی طرف سے
منظورہونے والے بل پرسیاستدانوں نے شدیدردعمل کااظہارکیاہے ۔چودھری شجاعت
حسین ودیگرسیاستدانوں نے کہا ہے کہ ختم نبوت ایمان کامسئلہ ہے جس پرکوئی
مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا۔انہوں نے پارلیمنٹ کاالیکشن لڑنے کے لیے کاغذات
نامزدگی میں عقیدہ ختم نبوت پرقسم کے الفاظ کی شق ختم کرکے اقرارنامے میں
بدلنے کی شدیدمذمت کی ہے۔اورکہا ہے کہ قسم اوراقرارنامے میں واضح فرق
ہے۔’’میں صدق دل سے قسم اٹھاتا ہوں ‘‘ کے الفاظ بدل کر میں ’’اقرار کرتا
ہوں‘‘شامل کیاگیا۔سیاستدانوں نے کہا کہ اس موقع پرحلف نامے کے الفاظ کی
تبدیلی سے واضح ہوتاہے کہ حکمران مخصوص ایجنڈے پرکام کررہے ہیں۔ختم نبوت کے
معاملے پرپاکستان کے مسلمان ماضی میں گراں قدرقربانیاں پیش کرچکے
ہیں۔جوہماری تاریخ کاروشن باب ہے۔شیخ رشیدنے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے
کہا کہ انتخابی اصطلاحات کابل پاس ہونے کے بعداجمل پہاڑی بھی کسی پارٹی
کالیڈربن جائے گا۔ آخرمسلم لیگ ن کونوازشریف کے علاوہ اورکوئی
اورامیدوارکیوں نہیں ملتا۔ایک نااہل شخص کوبچانے کے لیے قانون سازی کی
جارہی ہے۔ایک اخبارمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے الفاظ یوں ہیں کہ ن لیگ
کے ذرائع سے معلوم ہواہے کہ انتخابات کے کاغذات نامزدگی فارم میں ختم نبوت
کے اقرارنامہ میں تبدیلی کے بعدشدیدترین عوام ردعمل سامنے آنے اورن لیگ
قیادت کی طرف سے قومی اداروں کوتنقیدکانشانہ بنانے پرن لیگ کے اندرگروپنگ
شروع ہوگئی ہے۔اس رپورٹ میں لکھاگیا ہے کہ مصدقہ ذرائع کے مطابق ن لیگ کے
۵۴ اراکین اسمبلی نے جن میں دووزیربھی شامل ہیں واضح طورپرکہہ دیاہے کہ
اگرختم نبوت کے معاملات اصل صورت حال پرواپس نہیں آئے توہم ن لیگ کے پلیٹ
فارم پرالیکشن نہیں لڑیں گے۔رپورٹ میں مزیدلکھاگیا ہے کہ دوسول خفیہ اداروں
نے بھی اس حوالے سے وفاقی حکومت کورپورٹ دی ہے کہ ختم نبوت اور۲۶،۳۶ کے
حوالے سے مذہبی حلقوں میں ن لیگ کے خلاف اس قدرنفرت پیداہورہی ہے کہ آئندہ
انتخابات میں مذہبی حلقوں کی طرف سے ن لیگ کوووٹ نہیں ملے گا۔اگریہ ترامیم
واپس نہ ہوئیں تومذہبی حلقوں کی طرف سے ن لیگ کے خلاف ایک بڑی تحریک بن
سکتی ہے۔جوحکومت کے لیے انتہائی خطرناک صورت حال اختیارکرسکتی ہے۔اس حوالے
سے حکومتی موقف یہ ہے کہ وفاقی وزیرقانون زاہدحامدنے پریس کانفرنس سے خطاب
کرتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن اصلاحات بل کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں سے
مشاورت کی گئی، اس دوران سیاسی جماعتوں کی طرف سے چھ سوسے زائدتجاویزسامنے
آئیں۔الیکشن کمیشن کی طرف سے آٹھ قوانین کویکجاکرکے اصلاحات کی گئیں۔جبکہ
انتخابات بل کی شق ۳۰۲ میں ترمیم کے حوالے سے کسی نے اعتراض نہیں کیا۔دونوں
ایوان اس شق میں ترمیم کے لیے متفق تھے۔وفاقی وزیر قانون زاہدحامدنے پریس
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت کے حوالے سے بل میں کسی بھی قسم
کی تبدیلی نہیں کی گئی۔ختم نبوت والاپیرابالکل ویساہی ہے۔بل منظوری کے وقت
سب خاموش رہے اب شورمچایاجارہا ہے جوہماری سمجھ سے بالاترہے۔ایک طرف وفاقی
وزیرقانون کہتے ہیں کہ ختم نبوت کے حوالے سے کوئی ترمیم نہیں کی گئی دوسری
طرف قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکرمرتضیٰ جاویدعباسی نے اس معاملے پرپورے
ایوان کوایک آوازپرمتفق ہونے کی نشاندہی کرتے ہوئے نئی ترمیم لانے
پررضامندی کااظہارکیا۔ارکان اسمبلی کے حلف نامے میں ردوبدل پربحث چلی توبات
دورنکل گئی۔معاملے کی سنگینی کااحساس ہونے پرسپیکر ایازصادق نے پارلیمانی
راہنماؤں کااجلاس بلالیا۔اجلاس میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے
پارلیمانی راہنماشریک ہوئے۔ اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے نویدقمرکاموقف
تھا کہ حکومت اپنی غلطی کودرست کرے۔تمام پارلیمانی راہنماؤں نے غلطی کی
فوری درستگی کامطالبہ کیا ۔ اجلاس کے بعدسپیکرایازصادق نے میڈیاکے سامنے
غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جوبھی ٹیکنیکل یاکلیریکل غلطی ہوئی ہے اس
کوٹھیک کیاجائے گا۔شاہ محمو د قریشی نے کہا کہ حلف نامہ اصل شکل میں واپس
لانے پراتفاق ہواہے۔وزیرقانون زاہدحامدنے کہاکہ پرانے حلف نامے پرواپس جانے
پرکوئی اعتراض نہیں ہے ۔یہ الفاظ کہہ کرزاہدحامدنے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ
حلف نامے میں ترمیم ہوئی ہے اس سے پہلے تووہ کہہ چکے ہیں کہ کوئی ترمیم
نہیں ہوئی ختم نبوت کاکالم ہوبہوموجودہے۔ایساکرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے۔
یہ تواچھاہواکہ سپیکرقومی اسمبلی سردارایازصادق نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے
کاغذات نامزدگی کے حلف نامے کوٹھیک کرنے کااعلان کردیا ہے ورنہ سینیٹر
ساجدمیرنے تواصلاحات بل پرتنقیدکرنے والے علماء کوانگریزی سیکھنے کامشورہ
بھی دے ڈالاتھا۔ساجدمیرکے مطابق علماء کوانگریزی نہیں آتی وہ انگریزی الفاظ
کے مفہوم کوسمجھ نہیں سکے اس لیے اصلاحات بل پرتنقیدکررہے ہیں۔واہ بھئی واہ
کیاخوب مشورہ دیا ہے ساجدمیرصاحب نے۔ساجدمیرکوبھی معلوم ہونا چاہیے کہ
کاغذات نامزدگی کے حلف نامے میں عقیدہ ختم نبوت کی شق میں تبدیلی
پرتنقیدصرف علماء نے ہی نہیں کی بلکہ سیاستدانوں نے کی۔جان بوجھ کر یا غلطی
سے کی گئی اس ترمیم کی نشاندہی جس نے سب سے پہلے کی وہ کوئی مولوی، عالم
دین نہیں بلکہ سیاستدان تھا جس کوشیخ رشیدکہا جاتاہے۔ حیرت تواس بات پرہے
کہ اصلاحات بل منظورہونے سے پہلے کیاکسی کی نظرختم نبوت کی شق میں ترمیم
پرنہیں پڑی یاکسی نے اسے قابل توجہ نہیں سمجھا۔سپیکرقومی اسمبلی کے مطابق
یہ ٹیکنیکل یاکلیریکل غلطی ہی تسلیم کرلی جائے توسوال یہ سامنے آتاہے کہ
کیااس کوکسی نے چیک نہیں کیاتھا۔اتنی بڑی غلطی ایوان کی نظروں سے اصلاحات
بل کی منظوری سے پہلے کیسے اوجھل رہی۔اب وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کوبھی
چاہیے کہ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں عقیدہ ختم نبوت شق میں ترمیم کی غلطی
تسلیم کرتے ہوئے ایوان میں قوم سے معافی مانگیں آئندہ اس حوالے سے کوئی
ترمیم نہ کرنے اورتحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں بھی کسی قسم کی ترمیم نہ کرنے
اورتوہین رسالت جرم میں عدالتوں کی طرف سے سزایافتہ مجرموں کوتختہ
دارلٹکانے کااعلان کرکے اس حوالے فوری اقدامات کرنے کے احکامات بھی جاری
کریں۔ |