’’ رٹا رٹا رٹا ‘‘

 ’’ رٹا رٹا رٹا ‘‘ ہمارے ایک محترم پروفیسر محمد ندیم صاحب کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ طلباء رٹا سسٹم سے گریز کریں ‘‘ ، ندیم صاحب کی بات میں وزن ہے ، ہمیں رٹا سسٹم سے گریز کرنا چاہیے ، رٹا سسٹم دراصل تاریخ کے اوراق پر موجود لفظ بہ لفظ ذہن نشین کرنے کا نام ہے، یا تو ہم تاریخ کے اوراق کھولنا ہی بند کردیں ، تاریخ کے لفظوں میں ہیرپھیر کرلیں ، حالات کی بدحالی کا رونا رونا چھوڑ دیں ، ہم اپنے ماضی کے زخموں پر مرہم لگالیں، ہم بھول جائیں کہ 1947ء میں ہمارے آباء نے کتنی قربانیاں دیں، ہم بھول جائیں گے قیام پاکستان کی کس کس نے مخالفت کی ؟؟ ہم یہ بھول جائیں کہ بھارت نے 1948ء میں کشمیر پر کیوں چڑھائی کی، ندیم صاحب کی بات اپنی جگہ درست مگر ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ ملک غلام محمد ہماری منتخب اسمبلی سے کھلواڑ کرتے رہے ، ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ 1954ء میں پہلی اسمبلی توڑ دی گئی، ہم یہ کیسے بھول جائیں کہ 1958ء میں ملک میں پہلا مارشل لاء لگادیا گیا۔ ہم یہ کیسے بھول جائیں گے بنیادی جمہورتوں کے نام پر ملک کے آئین و قانون سے کھیلا جاتا رہا ، ہم یہ کیسے بھول جائیں گے 1962ء میں ایک آمر نے ملک کا آئین اور نظام ہی تبدیل کردیا، ہم یہ کیسے بھول جائیں گے کہ ’’ پروڈا ‘‘ اور ’’ ایبڈو‘‘ کے نام پر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ 1965ء کی جنگ ہم اپنی نادانیوں کی وجہ سے ٹیبل پر ہار گئے تھے ، ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ 70ء کے الیکشن نتائج کو کس نے ٹھکرادیا تھا؟ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ ’’ ادھر تم ادھر ہم ‘‘ کا نعرہ کس نے لگا کر نفرت کی بنیاد رکھی؟ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں نے پاکستان کے خلاف مکتی باہنی کے روپ میں کیا کھلواڑ کیا ؟ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں 71ء کی جنگ ہم کیوں ہارے ؟ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ جنرل یحیٰ خان سے لے کر ضیاء الحق تک آمرانہ سوچ ہم پر مسلط کی جاتی رہی ،ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ عالمی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے بھٹو کو پھانسی دے کر قیمت چکائی گئی، ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ کبھی صلواۃ تو کبھی جہاد کے نام پر ہمیں استعمال کیا جاتا رہا ۔ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ ملک کے سیاستدان کس طرح ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہے، ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ 88ء میں ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے ملکی راز بھارت کو شیئر کیے گئے ، ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ 90ء کی دہائی میں قوم طوفان بدتمیزی کا سامنا کرتی رہی، ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں 90ء سے 96ء تک نام نہاد جمہوری قوتیں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتی رہی، اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا، ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں -

واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 62 Articles with 102310 views i like those who love humanity.. View More