مشرف نے امریکی اعتماد کھو دیا تھا

مشرف نے امریکی اعتماد کھو دیا تھا۔ انہیں کہا گیا ججوں کو بحال کرو۔ ایمرجنسی ہٹاؤ۔ عہدہ چھوڑ دو۔ بش کی کتاب کے انکشافات۔

ہمارے اتحادی امریکہ ہمارے معاملات میں اتنے زیادہ مداخل ہیں کہ انہوں نے 2007 کے آخر میں مشرف کو حکم دیا کہ جج بحال کرو۔ ایمرجنسی ہٹاؤ۔ اور اپنے عہدے سے دستبردار ہو جاؤ اس طرح سے احکامات دینا انہیں دھمکا کر تسلیم کرانا ایک نوآبادی کا تصور پیش کرتا ہے۔ جس سے محب وطن شدید نالاں ہیں۔ مشرف نے تمام مطالبات تسلیم کرتے ہوئے پورے کئے اور زندہ سلامت باہر بیٹھ کر سیاست کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں کر ہوا اس پر توجہ ہونی چاہئیے۔

رچرڈ ہالبروک نے واشنگٹن میں امریکی سفارت کاروں اور سکیورٹی کےماہرین کو بتایا کہ اگر پرویز مشرف نے صدر بش کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں کو نبھایا ہوتا تو آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہ ہوتا۔ رچرڈ ہالبروک نے کہا کہ جنرل ریٹائر پرویز مشرف کے بیانات کو کافی شک کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

جنرل مشرف کی طرف سے سیاسی جماعت بنانے اور دوباہ اقتدار حاصل کرنے سے متعلق رچرڈ ہالبروک نے امریکی سفارت کاروں کو بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق پرویز مشرف کا دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا اتنا ہی امکان ہے جتنا سابق روسی رہنماء میخائل گوربا چوف کا تھا۔

یہ مشرف نہیں بش اور رچرڈ ہالبروک کہہ رہے ہیں۔ ادھر سے یہ مطالبہ آیا۔ اور ایجنٹوں کو بھی اطلاع دے دی گئی۔اور ادھر ملک میں ہمارے حب الوطن بیوروکریسی اور سیاسی مگرمچھوں نے ملک کے سیاسی میدان میں مشرف کے خلاف ایک غلغلا اٹھا دیا۔ گو کہ مشرف صاحب نے لولی لنگڑی کابینہ سے اگلے چار سال کا حق تسلیم کروا لیا تھا۔

لیکن مشرف اپنی رٹ قائم کرنے میں ناکام رہے۔ یہ پیغام امریکیوں نے مشرف کیمپ کے مخالفین کو اعتماد میں لے کر کیا جس سے ان کی تحریک بڑی موثر انداز میں چلتی نظر آئی۔ اب سوال ہے کہ مشرف نے امریکی اعتماد کیوں کھو دیا تھا۔ چونکہ مشرف ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ کرنے پر مزید تیار نہ تھا طالبان سے امریکی مرضی کے برخلاف معاہدے کرنے پر مائل تھا جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے مفادات کا موثر تحفظ ۔ جو ظاہر ہے کہ امریکی مفادات کے خلاف تھا۔ س لئے یہ نوبت آئی مشرف نے جانا منظور کر لیا۔ چونکہ اس موقع پر غیر ملکی ایجنڈوں پر عمل درآمد کرنے والی بیوروکریسی اور ادارے مشرف کے حکومتی احکامات میں مزاحمت پیدا کر کے حکومتی رٹ ناکام کرنے میں سرگرم کر دیے گئے تھے ۔ اس لئے مشرف فوری طور پراپنی بساط لپیٹ کر چلدیے۔

کیا اس چیف کی نامزدگی اور پھر مدت ملازمت میں توسیع کسی نئی پیشرفت کی طرف ایک بڑا قدم تو نہیں ہے۔

تمام محب وطن اس سے شاکی ہیں اور ملکی سلامتی کے بارے میں غلطاں ہیں۔ یہ وکلاء کی تحریک اور پھر انتشار ایک دوسرے پر الزامات کسی اور کے عزائم کی نشندہی کرتے نظر آتے ہیں۔

امریکی بڑے تسلسل سے اپنی بساط بچھائے بیٹھے ہیں وہ اب آرمی حکمرانوں اور حکومت سب کو اس شطرنج کے مہروں کی طرح استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا اس ملک کی غالب حب وطنی اور ایمانی قوت سے لیس عوام اپنے ملک میں ایسی مداخلت جس سے ملکی سرحدات اور سلامتی کو لاحق خطرات پر آنکھیں بند کیے بیٹھے رہینگے۔ اور اس بساط کو ایسے ہی بچھا رہنے دینگے کہ اس واحد اسلامی ایٹمی صلاحئیت سے لیس مملکت جس کا مسلم امہ کی حفاظت کا ذمہ ہے۔ سسکنے پر مجبور کر دی جائے۔

اس مسلم قوت کو برباد کرنے تمام غیر مسلم قوتیں متحد ہیں وہ آپکی ہر طرح سے بربادی کے سامان کر رہی ہیں پورا میڈیا ماہرین اور محب وطن قوتیں اس مداخلت اور انتشار ان قوتوں کی خطے سے بیدخلی کا مطالبہ کر رہے ہیں اس پر غور ہی نہیں بلکہ عملدرآمد ضروری ہے۔

ایسا نہ ہو کہ پھر ہم غلامی کا طوق خود اپنے گلے میں ڈال کر صدام کی طرح اس ملک کو عراق بنا دیں۔ مصالحتیں اور امدادیں چھوڑ دیں عوام ہر قربانی کے لئے تیار ہیں یہ القائدہ اور طالبان کا ڈرامہ ختم کر کے ان صہونی قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ جنہوں نے الله کے شیروں کو سرکس کا شیر بنا کر تماشہ لگا رکھا ہے۔

ایک خبرکہ سی آئی ڈی سینٹر میں بھارتی بارود آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا۔ شواہد اکھٹے کرنے کے بعد ماہرین کی رائے۔

اب تو بھارت بھی پاکستان میں کھل کر اپنے دیرینہ خواب کی تکمیل پر نازاں ہے امریکی آشیر باد سے اب تو کھل کر حصہ لے رہا ہے۔ ماہرین کھل کر اسکی مداخلت کا ڈھنڈور پیٹ رہے ہیں مگر حکمران زبان ہلانے کو راضی نہیں امریکیوں کے خوف سے زبانوں کو تالا لگا کر کبھی خودکش حملوں کی صورت میں۔ کبھی بم دھماکوں کی صورت میں کبھی ڈرون اٹیکس کی صورت میں کبھی ٹارگٹ کلنگ کبھی ایجنسیوں کی بھیس میں اغوا اور قتل۔ اپنی قوم کی لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ مگر امریکیوں کو ویزے خوب جاری کر رہے ہیں۔

اب تو احتجاج سے بھی عاری ہو کر اسمبلی میں سرکس کا اہتمام کرتے نظرآتے ہیں۔ کرپشن کے رکارڈ بنانے پر مائل ممبران جعلی ڈگریوں کے مزے لوٹ کر قوم کی قسمت اور ملکی بقا سے کھیل ہے ہیں ادھر صہونی اپنے مقصد کی جلد از جلد تکمیل پر مائل ہیں۔

وہ اپنے رستے پر آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہماری بیوروکریسی کے تعاون سے دور کر لیتے ہیں۔ چاہے وہ بھٹو ہو ضیاء ہو نواز ہو بینظیر ہو یا مشرف ہو انہیں اقتدار دلوانا اور برطرفی انہی کی مرضی سے ہے۔ آجکل تو گیلانی پر اعتماد ہے زرداری بھی انکی گڈبک کا حصہ ہیں۔ نواز شریف بھی دوستی کے لائق ہیں وقت آنے پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اب جن پر وہ اعتماد کرتے ہیں کیا وہ قومی مفاد پورے کر سکتے ہیں یہی سوالیہ نشان ہے جس کی محب وطن قوتیں شاکی ہیں۔

چین نے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کے موقف تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ چین بھارت کی اس موقف کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ایسا پاکستان کی موقف کی حمایت نہیں یہ اس کے اپنے مفادات کا حصہ ہے وہ اگر سلامتی کونسل میں بھارت کی شمولیت پر اعتراض کرتا تو پاکستانی موقف کی حمایت کہا جاتا۔ اس کا موقف بڑا واضح ہے میں سی مغالطے میں نہیں رہنا چاہئیے۔ ہمیں اپنے مفادات کا تحفظ اپنے جغرافیائی حالات کے مطابق خود کرنا ہے۔ کارگل کے معاملے میں کلنٹن کے کہنے پر دستخط کر دینا نہیں بلکہ کشمیر کے کسی بھی مسئلہ کو دونوں ممالک نے خود ہی طے کرنا ہے۔ امریکی مشورے کو ماننے کا مطلب ملک سے غداری بھی ہے۔ چونکہ تاشقند اور شملہ دونوں میں مزکور ہے کہ کشمیر کے حوالے سے کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو دونوں ممالک آپس میں طے کریگے۔ بھارت اسی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کی کوئی بات تسلیم نہیں کرتا ۔ مذاکرات کے نام پر پاکستانیوں کو بیوقوف بناتا ہے۔ خود پھنس جائے تو امریکی مداخلت سے پاکستان کو ذلت آمیز اقدام پر مجبور کر دیتا ہے اور ہمارے ناہل حکمران اس کی منشا کے مطابق قومی مفاد پر کو پس پشت ڈال کر گڈ بک میں نام لکھوا آتے ہیں۔

کیا حب وطن قوتیں اسی طرح اپنے لٹنے کا تماشہ ہی دیکھتی رہیں گی۔ یا اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لئے اٹھ کر اس ملک کو صحیح سمت پر گامزن کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں اور لٹیروں سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لےکر ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرتی ہیں۔ اور غیر ملکی مداخلت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کرتی ہیں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75661 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More