پاکستان نے اپنے قیام کے فوراً
بعد امریکا کے جمہوری دعوؤں اور سامراج کی گرفت سے آزاد ہونے والے ممالک کی
تحریکاتِ آزادی کے بارے میں امریکی قیادت اور دانش وروں کے اعلانات کی
روشنی میں معاشی تعاون اور سیاسی دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ خود قائداعظم نے
میر لائق علی کے ذریعے امریکی صدر کو خصوصی پیغام بھیجا، لیکن اس کا کوئی
بامعنی ردعمل رونما نہ ہوا۔ پھر جب خان لیاقت علی خاں کو اشتراکی روس کے
دورے کی دعوت ملی تو امریکا نے نہ صرف ان کو دورے کی دعوت دے دی، بلکہ اس
کے لیے سیاسی چال بازی سے بھی کام لیا جس کے نتیجے میں روس کا دورہ منسوخ
اور امریکا کا دورہ کرنا منظور ہوا۔ اس دورے کے نتیجے میں عملاً کچھ حاصل
کیے بغیر ہم اپنے اڑوس پڑوس میں روس سے دُور اور ہزاروں کلومیٹر دُور
امریکا کے کیمپ کی طرف سرکنے بلکہ لڑھکنے لگے۔ اس موقع پر امریکا نے ایک
نئی چال چلی، جس کے بڑے دور رس اثرات پاکستان کی پوری تاریخ، اس کے بین
الاقوامی تعلقات کے رُخ اور سب سے بڑھ کر ملک کی اندرونی سیاست اور قومی
سلامتی کی نئی صورت گری اور پاکستانی مسلح افواج کے سیاسی کردار کی شکل میں
مرتب ہوئے۔ بلاشبہ اس میں پاکستانی افواج کی اس وقت کی قیادت کے اپنے عزائم
کا بھی ایک اہم کردار ہے، لیکن یہ معاملہ یک طرفہ نہیں تھا۔ تالی کے دونوں
ہی ہاتھ سرگرم تھے۔ گویا ’’دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔
پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا سرکاری سوانح نگار، ایک حاضر
سروس لیفٹیننٹ کرنل، ان کی داستانِ حیات My Chiefمیں، جو ان کے دورِاقتدار
ہی میں شائع ہوئی، لکھتا ہے: پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد جنرل ایوب
کی اقدامی کوشش سے ممکن ہوئی۔ یہ خیال ان کے دماغ میں آیا اور امریکا کے
سیاسی اور فوجی قائدین سے ان کے مذاکرات کے نتیجے میں امریکی حکومت نے
پاکستان کو باہمی دفاعی معاہدہ کرنے کی دعوت دی۔ (دیکھیے: My Chief،
لیفٹیننٹ کرنل محمداحمد، ۱۹۶۰ء، ص ۷۳۔۷۴)
جنرل ایوب خان کی کوششوں سے پاکستان سیٹو (SEATO) اور سنٹو (CENTO) کے جال
میں پھنسا۔ دوسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ کے دورِ حکومت میں امریکا چین
تعلق کا باب کھلا۔ تیسرے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں
فوجی اور معاشی تعاون نئی بلندیوں پر پہنچا۔ چوتھے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز
مشرف نے امریکا کی’ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں پاکستان کو جھونک دیا، جس
آگ میں افغانستان اور عراق کے ساتھ پاکستان بھی جل رہا ہے اور خصوصیت سے اس
کے شمالی علاقے اور ان علاقوں میں بھی خصوصیت سے سوات، باجوڑ،شمالی اور
جنوبی وزیرستان برستی آگ اور بہتے خون کی لپیٹ میں ہیں۔ اب ’اسٹرے ٹیجک
تعلقات‘ کے عنوان سے اس آگ کو شمالی وزیرستان میں بھی بھڑکانے کے لیے ترغیب
و ترہیب کا ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے اور ۲ارب ڈالر کے وعدہ فردا پر
مبنی فوجی امداد کا چکمہ بھی دیا گیا ہے۔
یہ تصویر کا ایک رُخ ہے، دوسرا اور اصل چہرہ یہ ہے کہ ہر دور میں پاکستان
کو تو اپنے مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا، لیکن جب بھی پاکستان پر
کوئی کڑا وقت پڑا تو بے رُخی سے منہ دوسری طرف موڑ لیا گیا۔ جب ۱۹۶۵ء میں
بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اسی لمحے امریکا نے پاکستان کی فوجی اور
اقتصادی امداد کو بند کر دیا حتیٰ کہ ان فاضل پرزوں سے بھی فوج کو محروم کر
دیا گیا، جو ملک کی سیکورٹی کے لیے ضروری تھے۔ یہی ڈراما دسمبر ۱۹۷۱ء میں
ہوا۔ پھر اپنی بدترین شکل میں افغانستان سے روسی فوجیوں کے انخلا کے معاً
بعد نہ صرف افغانستان کو غیریقینی پن اور بدترین انتشار میں دھکیل دیا گیا
اور پاکستان کو اس کے نتائج بھگتنے اور ۳۰لاکھ سے زائد مہاجرین کے بوجھ کو
تن تنہا سنبھالنے کی آزمایش میں ڈال دیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ چشم زدن میں
امریکی صدر کو نیوکلیر پھیلاؤ میں پاکستان کا کردار بھی نظر آنے لگا اور
اسے پوری بے دردی سے معاشی پابندیوں کا نشانہ بنا دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام امریکا کی دوستی کو محض مطلب براری کا ایک
ڈھکوسلا سمجھتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم (۴۵۔۱۹۳۹ء) کے بعد سے دنیا کے تقریباً
ہر اس ملک سے، جسے امریکا نے اپنی دوستی کے جال میں پھنسایا ہے، اپنا کام
نکالنے کے بعد ٹشوپیپر کی طرح پھینک دیا ہے۔ اس کا مقصد محض اپنے ایجنڈے کی
تکمیل رہا ہے، کسی نوعیت کی حقیقی دوستی اور شراکت نہیں۔ امریکا کا کردار
مفاد پرستی کے ساتھ ساتھ دوغلے پن، رعونت اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل کا
رہا ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے عوام نے ۱۹۶۵ء کے بعد کبھی بھی امریکا کو
اپنا دوست تصور نہیں کیا، حتیٰ کہ اس زمانے میں بھی جب افغان جہاد کے سلسلے
میں امریکا، پاکستان اور عالمِ اسلام میں خاصی قربت تھی۔ عراق ایران جنگ کے
دوران میں تو امریکا مخالف لاوا بری طرح پھٹ پڑا۔ تمام اسلامی ایشوز کے
سلسلے میں امریکا کی پالیسیوں اور اس کی اسرائیل نوازیوں نے جلتی پر تیل کا
کام کیا۔
(پروفیسر خورشید احمد کے اشارات سے اقتباس) |