اس کی زندگی مکمل عیش میں گزری تھی لیکن اب وہ زندگی کی
سوچ کو فکر کی ایک نئی شاہراہ پر ڈالنے جا رہا تھا جس کے ہر سنگِ میل پر
بہن، بیٹی۔۔۔ بہن بیٹی ہی لکھا ہوا تھا۔اس کی زندگی ایک بے لگام آندھی کی
طرح اندھی تھی جو جو چاہے کر چکی تھی لیکن اب وہ اس منہ زور آندھی کو ایک
پر سکون قوسِ قزح کی شکل دے کر اپنی زندگی کی تاریک شام کے چھا جانے سے
پہلے پہلے افق پر رنگوں کی ایک پر سکون بہار کی طرح بکھیر دینا چاہتا تھا۔
وہ نواب بخت یارکا اکلوتا بیٹا تھا ۔ ملک میں جمہوریت آئی تو تھی لیکن صرف
برائے نام ، یا یوں کہہ لیں کہ جمہورت کا صرف نام ہی آیا تھا ۔ نہ لوگوں کا
مزاج جمہوری بنا تھا اور نہ بلند بالا ایوانوں کے لانوں میں جمہوریت کی
’مشک ببری‘ کاشت کی گئی ۔ملک کی عکاسی کر رہا تھا وہی پرانا فرسودہ آمریت
کا مینار ہی کر رہا تھا۔ ہر چیز مغلیہ یا دورِ غلاماں کی سی لگ رہی تھی۔
طاقتور اور امیر کو پوچھنے والا کوئی نہ تھا۔ معاشرہ کسی اصول پر نہیں تھا،
سوائے شخصی تعلقات اور ذاتی حیثیت کے اصول کے، سارے علاقے میں کوئی ضابطہ
نہیں تھا۔ ایسے میں نواب ، نواب ہی تھے اور وہ بے لگام بھی تھے۔
اس کی ہوش کی آنکھ کھلتے ہی اسے اپنے اندر ایک منہ زوربھیڑیا محسوس ہوا جو
آس پاس کی بھیڑوں کو جیسے چاہے چیرے، پھاڑے، کھا جائے، اٹھا کے لے جائے ۔
جنگل میں بھیڑیئے کو بھیڑ پھاڑنے سے کوئی روک سکتا ہے ؟ نہیں کوئی نہیں۔ اس
کے باپ کے شہر کے تما م معتبر لوگوں اور حکومت کے اعلی عہدے داروں سے ذاتی
تعلقات تھے اور اکثر ان کی حویلی میں ان کی دعوتیں سجتی تھیں۔ ان دعوتوں
میں اکثر گانا بجانا بھی اپنا رنگ جماتا اور نوابی کلچر اپنے پورے جوبن پر
نظر آتا۔
وہ ابھی نوجوانی کی دہلیزِ دل نشیں پر قدم رکھ ہی رہا تھا کہ جنسی ہوس کے
مضبوط پنجوں کی گرفت نے اسے دبوچ لیا ۔ اسے لڑکیوں کے اندر لطفِ دو جہاں
محسوس ہونے لگا ۔ وہ ان کی قربت کے انداز سوچنے لگا۔ اس کی شب داری کے لئے
حسیناؤں کا انتخاب ہونے لگا ۔ شروع شروع میں تو ایسی بازاری عورتیں جو ان
کی حویلی میں آیا کرتیں تھیں،ان سے گزارا کیا گیا۔ لیکن ان کا تو کئی اور
لوگوں کے پاس بھی آنا جانا تھا یا ان کے پاس کئی لوگوں کا جانا آنا تھا۔ وہ
کسی ایک کے لئے نہ تھیں اور وہ کسی طرح سے بھی کنواری تو بالکل ہی نہ تھیں۔
نئی’ نکور‘ چیز کا جو لطف ہے وہ کسی بوسیدہ، پرانی یا استعمال شدہ میں تو
نہیں ہو سکتا۔
اس کی نظروں کی لالچ اب اپنے آس پاس کی نو خیز کونپلوں کی طرف بڑھنے لگی۔
وہ چاہتا کہ اپنے گاؤں کے مزارعوں کی بیٹیوں سے دل بہلائے۔ اور ایسا کرنے
سے بھی اسے کوئی روک نہ سکتا تھا۔ وہ جس مزارع سے اس کی بیٹی کی بات کرتا ،
وہ اپنی بیٹی اس کے پاس بھیج دیتا اس لالچ سے کہ ہو سکتا ہے اس کی بیٹی
نواب زادے کو پسند آجائے کہ وہ اس سے شادی کرنے کا سوچ لے۔ اس طرح اس کی
نسلیں سنور جائیں گی۔ لیکن جب وہ یکے بعد دیگرے کئی کنواریوں کے ساتھ وقت
گزار چکا تو ان مزارعوں کو اب بھی شک تھا کہ شاید ایسا ہو ہی جائے۔ یا کم
از کم انہوں نے نواب زادے کی خواہش کا انکار کر کے اپنے مستقبل کو کسی خطرے
سے دوچار نہیں کر لیا یا ان کی ظاہری عزت تو محفوظ رہی ہے ۔ ورنہ جو کچھ
ہوا وہ بھی ہونا تھا بلکہ اس سے بھی ابتر ہونا تھا۔ اور کسی کی جان بھی جا
سکتی تھی۔
بندہ غائب کروانا نوابوں کے بائیں ہاتھ کا کمال تھا ۔ وہ بندہ ، اپنے بندوں
سے یوں غائب کرواتے کہ کسی کو شک کی بھنک بھی محسوس نہ ہوتی۔ بڑی برائی کے
آگے چھوٹی برائی قبول کرنی ہی پڑتی ہے۔ ایسا ہی تو یورپ کی مہذب اقوام نے
ایشیا اور افریقہ کے ساتھ کیا ۔ اور اب بھی تو دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔
دنیا ہمیشہ ایک ہی اصول کو مانتی ہے جسے جنگل کا قانون بھی کہا جاتا ہے اور
جس کو لاٹھی اور بھینس کا قانون بھی کہتے ہیں۔
مزارع لڑکیوں سے ہوس کی آگ بجھانے کے بعد اب اسے شہر کی لڑکیوں میں بھی
رغبت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کو کالج جانے والی ، کتابیں اٹھانے والی ،
یونیفارم پہننے والے لڑکیاں ان کھیتوں میں کام کرنے والی، ان پڑھ’ بدھو ‘
لڑکیوں کے ساتھ وقت گزارنے کا افسوس ہونے لگا کہ وہ تو کسی طرح سے بھی وقت
گزارے جانے کی اہل ہی نہ تھیں ان کی حیثیت تو گاؤں سے آنے والی گاجر ، مولی
سے زیادہ نہ تھی۔اصل مزا تو شہر کی کنواریوں میں ہے۔ اس خواہش کے پورا ہونے
میں بھی زیادہ دیر حائل نہ ہوئی اور اس کی جیب ،لوگوں کے منہ بند کرنے کے
لئے کافی ثابت ہوئی اور بعض صورتوں میں اس کے تعلقات مسئلے کو رفع دفع
کروانے میں معاون ثابت ہوئے۔ بعض صورتوں میں اس کو حیرانی ہوئی کہ کچھ لوگ
نواب زادے سے تعلق کی امید باندھنے لگے۔
ٍ گناہوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اور پھر گناہوں سے مایوسی اور پچھتاوا جنم
لیتا ہے۔ گناہوں کی بظاہر دلکش سر زمین پر اپنے زندگی کا جوبن کھو دینے کے
بعد بہت سو ں کو عقل آ جاتی ہے۔ کسی کو وقت سبق سکھا دیتا ہے، کسی کی صحت
جواب دے دیتی ہے اور کسی کا دل کسی اور وجہ سے پھر جاتا ہے اور بعض کا دل
سیاہ ہو کر اسی کیفیت میں دنیا سے چلا جاتا ہے۔
اس کے گناہوں کی حد تو کوئی نہ تھی لیکن اس کا دل اب گناہوں سے بھی بیزار
ہو چکا تھا ۔ ان عیش کوشی میں اس نے اپنا گھر بھی نہ بسایا تھا اور نہ ہی
کبھی اپنی جوانی کے ڈھلنے کا سوچا تھا ۔ اس کی صحت بہت اچھی محسوس ہوتی
تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک ایک رات اس کے سینے میں شدید درد ہونے لگا ۔ اس کی جان خطرے کے گہرے
سایوں میں گھِرگئی۔ اسے جلد ہی ہسپتال متقل کیا گیا ۔ قدرت اسے ایک چانس دے
رہی تھی۔ اس کی موت قریب آتے آتے دور جا رہی تھی۔ اس کو ہوش آنے لگا تھا ۔
اس کا بائی پاس کا آپریشن کامیاب ہو چکا تھا ۔ لیکن اس آپریشن کے بعد اس کی
جسمانی حالت پہلے سے ایسے ہی بدل گئی تھی جیسے گرمیوں کی دوپہر سردیوں کی
آدھی رات میں ڈھل گئی ہو ۔
اس ہارٹ اٹیک نے نہ صرف اس کی جسمانی کیفیت بدل دی تھی بلکہ اس کا دل بھی
ایک میٹابولزم سے گزر گیا تھا ۔ اسے موت کی قربت کا احساس اس قدر پکا ہو
گیا کہ جس ہاتھ میں اکثر شراب کی بوتل ناز دکھایا کرتی تھی، اس میں تسبیح
کے دانے کنویں کی’ جھلار‘ کی طرح اوپر سے نیچے گرنے لگے۔ اس کو مسجد کا
رستہ معلوم ہو چکا تھا ۔
اس کا دل خدا کے خوف سے لبریز ہونے لگا تھا ۔ اس کی آنکھ میں نمی رہنے لگی
تھی۔ اس کے گناہوں کا کفارہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ جس جس سے اس نے گناہ کئے
ان سے معافی کیسے مانگے۔ اب دوبارہ ان کے پاس کیسے جائے۔ ان کو کیا کہے کہ
اس نے ان کے ساتھ کیا کیا ۔ اسے اپنے گناہوں کی معافی کی کوئی سبیل نظر
نہیں آ رہی تھی۔ اس کی کوئی بہن نہ تھی، اس کے ماں باپ بھی کافی عرصہ ہو ا
دنیا سے جا چکے تھے۔ اس نے شادی بھی نہ کی تھی۔ اس کی کوئی بیٹی بھی نہ
تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا دل چاہتا تھا کہ جس جس لڑکی سے اس نے گناہ کیا تھا اس کے پاس جائے
اور اسے بہن کہے، کسی کو بیٹی کہے۔ لیکن ایسا صرف سوچا ہی جا سکتا تھا کرنا
ممکن نہ تھا۔ اس نے اس سارے گناہ کا ذمہ وار اپنی دولت کو قرار دیا ۔ اور
دولت کو چھوڑنا ، گناہ چھوڑنے سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اور پھر دولت
بنا گزارہ بھی تو نہیں ہوتا، گناہوں کے بغیر تو اچھا گزارہ ہو جاتا ہے۔
اس نے اپنی زمین مزارعوں میں بانٹنی چاہی لیکن وہ ایسا نہ کر سکا ۔ پھر اس
نے حج کرنے کا سوچا لیکن اس عبادت میں بھی اسے لگا کہ اس کے مظلوموں کا کچھ
بھلا نہ ہے۔ اس نے اپنے گناہوں کی سزا اپنے آپ کو بے اولاد رکھ کر اور پھر
اپنا سکون ہر عورت کو اپنی بہن یا بیٹی ہی سمجھ کر پیش آنے میں سمجھا۔ اس
نے غریب لڑکیوں کی شادیاں اپنی بیٹیوں اور اپنی بہنوں کے طور پر کرنے کا
ارادہ کیا اور اس کام میں اسے کامیابی ملی ۔ وہ ہر لڑکی یا خاتون تو ’میری
بیٹی ، میری بہن ‘ کہہ کر ہی مخاطب کرتا اور اس کے ساتھ ہی اس کی نظریں
ندامت سے جھک جاتیں۔
وہ تصور میں ان ساری لڑکیوں سے رو رو کے معافی مانگتا جن سے وہ برا سلوک کر
چکا تھا لیکن ان ساری باتوں سے بھی اس کا دل مطمئن نہ ہوتا اور وہ رات بھر
اسی کرب میں گزارتا اور دن بھر پریشان رہتا اور ہر عورت کو ’، بہن ، بیٹی‘
کہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |