ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی پالیسیوں سے استحصال اور
کرپشن کا آغاز ہوا اور افسوس ناک بات یہ کہ جس انداز سے شروع ہوا ایک روایت
کے طور پر آگے بڑھا اور روایت کی جڑیں بہت عمیق ہوتی ہیں شروع میں زور
خوشامد اور سیاسی سفارش تک رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں رشوت کی
مرکزیت قائم ہو گئی اور بہت بری طرح پھیلی جو بہت بھیانک تصویر ہے ۔شخصیت
پرستی کے بعد رشوت بھی بہت بڑی برائی ہے اس سے معاشی نا ہمواری پھیلتی ہے،
اس سے مذہبی اور اخلاقی قدریں پیچھے چلی جاتی ہیں اور مادہ پرستی بڑھتی چلی
جاتی ہے ۔معاشرے سے قانون اور اصول رخصت ہوتے چلے جاتے ہیں، مال کی محبت
اور اس کے حصول کی خواہش دیوانگی کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ
دینے والا اﷲ ہے جسے چاہے فراخی دے اور جسے چاہے تنگی ۔لیکن مذہبی قدریں
پیچھے چلی جائیں تو آدمی ظاہر میں کرپٹ ہو جاتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ جائز
طریقے سے مال ہر آدمی اپنی اہلیت اور محنت سے حاصل کرتا ہے مگر بغیر محنت
کے کثیر مال حاصل کرنے کے بھی بہت سے طریقے ہیں جو لوگ نچلی یا اوپری سطح
پر کسی بھی طرح کا اختیار رکھتے ہیں وہ اسے حصول مال کیلئے استعمال کرتے
ہیں اور حیثیت نہ ہونے کے با وجود خوش حال ہونے لگتے ہیں اور معاشرے میں
مسابقت بھی ہوتی ہے دوسرے لوگ جن کے پاس کوئی ایسا اختیار نہیں ہوتا وہ
اپنی ذہنی صلاحتیں بغیر محنت کے کثیر مال حاصل کرنے کی ترکیبیں سوچنے میں
لگا دیتے ہیں یوں ذہنی صلاحیتیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں جو کہ قومی سرمایہ
ہوتا ہے اور دوسری طرف معاشی نا ہمواری اور طبقاتی بغض میں بھی اضافہ ہوتا
ہے ۔محروم لوگوں میں احساس محرومی ہونا تو فطری بات ہے لیکن دوسروں کی
ناجائز خوش حالی ان کے احساسِ محرومی کو ناسور بنا دیتی ہے ان سب باتوں کے
نتیجے میں معاشرہ کھوکھلا ہو جاتا ہے ۔اﷲ سے تعلق کمزور ہوتا چلا جاتا ہے
اﷲ پر بھروسہ کرنے کی ،اﷲ سے مدد مانگنے کی خُو ختم ہو جاتی ہے ایمان کمزور
ہوتا چلا جاتا ہے ۔اس قیمت میں جمہوریت نا قابل قبول حد تک مہنگی ہے اور نہ
ہی جمہوریت مل سکتی ہے ۔جمہوری ،ملکوں کو دیکھو تو پتہ چلتا ہے کہ جمہوریت
میں وراثت نہیں ہوتی پارٹی افراد سے بڑی ہوتی ہے اور مشاورت سے فیصلے کرتی
ہے کسی فرد کو کسی منصب کیلئے منتخب سیاسی جماعت کرتی ہے پاکستان میں
سیاستدانوں نے محترمہ فاطمہ جناح ؒ کو سامنے لا کر سیاست میں موروثیت کی
ایک بری مثال قائم کر دی اب ہندوستان کو دیکھو وہاں پاکستان کی نسبت بہت
توانا جمہوریت تھی لیکن کانگریس کو نہرو کا متبادل کوئی اور نہیں ،نہرو کی
بیٹی ہی ملی ،اس طرح موروثیت کی روایت وہاں بھی قائم ہو گئی اور اس طرح وہ
روایت آگے تک بڑھی۔میرے خیال میں برصغیر ایک الگ مزاج کا خطہ ہے پاکستان
میں اسلامی اقدار کو مستحکم نہ کیا جا سکا اسی وجہ سے آج دونوں معاشروں میں
انیس ، بیس کا ہی فرق رہ گیا ہے ۔ویسے بھی شخصی آمریت یا تو اس طرح سے فروغ
پاتی ہے یا پھر اس طرح کے نتائج سامنے لاتی ہے اﷲ پاکستان کو محفوظ رکھے
لیکن جو کچھ سامنے ہے اسے دیکھ کر مستقبل کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ
انتہائی بھیانک ہے۔پاکستان میں جمہوریت کا صرف نام ہی رہ گیا جمہوریت کبھی
نہیں آئی انتخابات میں من مانے نتائج حاصل کئے گئے شخصی آمریت رہی ۔سیاسی
جماعتوں کی جمہوریت میں بہت اہمیت ہوتی ہے وہ جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہے اور
ان کا انحصار شخصیتوں پر ہر گز نہیں ہوتا پارٹی کسی شخص کو ملک کا سربراہ
منتخب کرتی ہے اورجو شخص پارٹی کو جواب دہ ہوتاہے اسے پارٹی کے منشور پر
عمل کرنا ہوتا ہے پارٹی چاہے تو اسے اقتدار سے محروم کر دے اور وہ بس دو
ٹرم تک سربراہ رہ سکتا ہے لیکن ہمارے ملک میں تیسری بار کا بھی رواج ہے اس
کے بعد وہ صدر یا وزیر اعظم تاریخ کا حصہ بن کر رہ جاتا ہے۔حال ہی میں ایک
نیا کھیل رچایا گیا اور تیسری بار کے رواج سے بھی بڑھ کر چوتھی بار ایک
ناہل شخص کو وزیر اعظم بنانے کیلئے آئین میں ہی ترمیم کر دی گئی ،یہاں تک
اسلامی شرعی قوانین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا،جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کی
طرف سے چنا گیا سربراہ ایک عوامی نمائندہ ہوتا ہے اسے معاشرہ اس کے اچھے
کاموں کی وجہ سے عزت دے الگ بات ہے لیکن وہ عام شہریوں کی طرح زندگی گزارتا
ہے۔جمہوریت میں اقتدار مرتکز نہیں ہوتا اسے بڑی دانش مندی کے ساتھ تقسیم
کیا جاتا ہے اور پھر چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیا جاتا ہے یہ کرپشن کی
روک تھام کیلئے ضروری ہے،لیکن پاکستانی جمہوریت میں اس کے بالکل برعکس ہے ۔
ہندوستان میں پارلیمانی سربراہ اپنی پارٹی کا سربراہ نہیں ہوتا لیکن ہمارے
ہاں یہ بات مختلف ہے سیاسی جماعتیں شخصیتوں کی محتاج ہیں ان پر انحصار کرنے
پر مجبور ہیں۔ ہمیشہ ایک ہی قاعدہ ہ رہا کہ ایسی تمام چھوٹی جماعتوں کا
اختتام ہونا چاہئے ۔تاکہ جماعتیں کم سے کم ہوں زیادہ تر تو دنیا میں دو
جماعتی نظام قائم ہے اور پاکستان میں بھی اسی نظام کو فروغ دیا جاتا ہے
جنہو ں نے باریاں بنا رکھی ہیں ،میثاقِ جمہوریت والا اقدام اسی کی ایک کڑی
تھا۔شخصی آمریت میں ہر فیصلہ فردِ واحد کرتا ہے نہ اسے کوئی پوچھنے والا
ہوتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی روکنے والا ایسے میں کرپشن خوب پھیلتا ہے بظاہر
اس کے نقصانات نظر نہیں آتے لیکن یہ ملک کی معیشت کو کھا جاتا ہے پھر فردِ
واحد کی اولاد اس کی وارث بن جاتی ہے اور باپ کا سیاسی مرتبہ اور اقتدار
اسے مل جاتا ہے انڈیا نے بھی جمہوریت سے آغاز کیا لیکن اب وہ بھی موروثیت
میں ڈوب چکا ہے ۔بات شخصیت پرستی کی طرف جاتی ہے جس طرح بھٹو اور ن لیگ کو
پذیرائی ملی اس نے انہیں شخصی آمریت کی راہ دکھلائی یہاں یہ یاد رکھنے کی
بات ہے کہ یہ سب عوام کی ذمہ داری ہے جذباتیت، عقیدت ،رشتے ناطوں اور
برادری کے حوالے سے ووٹ دینا اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مارناہے ۔آپ جمہوریت
کو کھیل بنا لیں الیکشن کو تفریح میلہ سمجھ لیں تو اپنے اور ملک کے ساتھ
مذاق کر رہے ہیں الیکشن پیسے کا کھیل ہے تو لائق ترین شخص بھی ، جو غریب ہے
اسمبلی میں نہیں پہنچ سکتا اور جو اسمبلی میں پیسہ پانی کی طرح بہا کر
پہنچے گا وہ اسے منافع کے ساتھ وصول کرنا چاہے گا۔نتیجہ کرپشن ۔۔۔۔۔۔۔کرپشن
اور صرف کرپشن۔ جاری ہے۔۔۔۔۔
|