افغانستان ، امریکہ کیلئے دردِ سر بن گیا ہے ۔ امریکہ کے
وزیر دفاع جیمز میٹسکا افغانستان پہنچنے پر کابل ائیرپورٹ پر راکٹوں سے
استقبال کیا گیا۔ یہ راکٹ بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ملٹری سیکشن کے قریب
گرے۔ٹرمپ انتظامیہ کے کسی اعلیٰ عہدے دار کا یہ پہلا باضابطہ دورہ تھا جو
یقینا امریکہ کیلئے ناخوشگوار ثابت ہوا گو کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
لیکن امریکہ کی رٹ کو چیلنج کرکے ’واضح پیغام دنیا بھر میں دیا گیا کہ
افغانستان میں اَمریکہ کا کسی قسم کاکردار قبول نہیں ۔ افغانستان میں اربوں
ڈالرز خرچ کرنے کے باوجود من پسند نتائج حاصل کرنے میں امریکہ کی ناکامی
اور پاکستان پر مزید دباؤ بڑھانے کیلئے کی" روش" نے خطے میں امن کو ناپید
کردیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کیلئے مضحکہ خیز پالیسی کے تناظر
میں امریکہ کے وزیر دفاع جیمز میٹس نے پہلے بھارت اور پھر افغانستان کا
دورہ کیا ۔پاکستان کا دورہ شیڈول میں اس لئے شامل نہیں تھا کیونکہ اس سے
قبل پاکستان ’اـمریکی نائب وزیر خارجہ کے دورے کو ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے
عائد بے بنیاد الزامات کے سبب ملتوی کراچکا تھا ۔ تاہم اِس وقت پاکستانی
وزیر خارجہ ’امریکہ میں موجود تھے اور حقانی نیٹ ورک اور جماعۃ الدعوۃ کے
خلاف نیا بیانیہ دے رہے تھے کہ یہ تنظیمیں پاکستان پر بوجھ ہیں انہیں ختم
کرنے میں وقت لگے گا۔وزیر خارجہ کے مذکورہ متنازعہ بیان پر پاکستان کے
سیاسی اور عوامی حلقوں میں زبردست تنقید کی جا رہی ہے ۔سنجیدہ حلقوں کے
مطابق پاکستانی وزیر خارجہ نے غیر سنجیدہ بیان دیکردراصل امریکی صدر کے
الزامات کی توثیق کردی ہے‘ جس سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔تاہم
امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس کا دورہ بھارت بھی امریکہ کی جنوبی ایشیائی
پالیسی کے حوالے سے پہلا جھٹکا ثابت ہوئی، امریکہ کو بھارت نے افغانستان
میں بھارتی افواج بھیجنے کی یقین دہانی کرانے کے بجائے افغانستان میں
بھارتیوں کیلئے ’ نئے قبرستان ‘ بنانے سے انکارکرتے ہوئے بھارتی پالیسی دے
دی ہے ،جس کے بعد مستقبل میں امریکہ کی خواہشات متاثرہوسکتی ہیں ۔بھارت
اچھی طرح جانتا ہے کہ جب نیٹو اور امریکہ کے لاکھوں فوجی افغانستان میں امن
قائم نہیں کرسکے تو ٹڈی دَل بھارتی فوج کی سرزمین کی بُود باَش میں ایسا
کسی سُورمَا کا خمیر پیدا ہی نہیں ہوا کہ وہ صدیوں کی تاریخ رکھنے والی
جنگجو ،فاتح قوم کی سرزمین کی تسخیر کا سوچے۔
بھارت نے اپنا "سازشی ـ "کردار بڑھانے کی یقین دہانی ضرور کرائی ہے ۔ لیکن
یہ کسی کے لئے کوئی نئی بات اس لئے نہیں تھی کیونکہ بھارت پہلے ہی
افغانستان میں اپنی مذموم سازشو ں کا جَال بُن چکا تھا۔پاکستان اپنی سرزمین
میں بھارتی بد نام زمانہ ایجنسی "رَا "اور افغانستان کی "خاَد"و" این ڈی
ایس" کی دہشت گرد ی کا نیٹ ورک ختم کرنے میں قیمتی جانوں کی قربانیاں دے
رہا تھا تو دوسری طرف افغانستان میں’ داعش‘ کو مضبوط بنانے کیلئے بھارت
میدان میں اُتر چکا تھا۔" مدر آف آل بمز" کے گرائے جانے کے بعد’ داعش ‘کے
انتہا پسندوں کے ساتھ بھارتی ’را ایجنٹس‘ کی لاشوں کا ملنا لمحہ فکریہ تھا
۔ کابل کی دوہری حکومت پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے ، بہتان
طرازیاں اور بھارت کی گود میں بیٹھنے کے ٹاسک پر عمل کررہی ہے۔صرف چند ہزار
افغان طالبان کے مزاحمت کاروں کے خلاف امریکہ کی ناکامی کے سولہ برس میں
سوائے شرمندگی و نقصان کے سوا کچھ حاصل نہ ہونے پر اپنی ناکامیوں کا ملبہ
پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کو اقوام عاَلم نے بھی مُسترد کردیاہے۔بھارت ،
پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین کو استعمال کررہا ہے ۔افغانستان میں
دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک موجود ہیں ۔ لیکن قیادت کے خلاف افغان۔امریکہ
کاروائی کرنے کے بجائے حسب روایت صرف پاکستانی علاقوں میں خود مختاری کے
خلاف ڈرون حملے کررہا ہے۔
امریکہ ‘ بھارت کو مراعات اور ایف سولہ سمیت ڈیفنس سسٹم کی اَپ گریڈ کرنے
کا لالچ دے چکا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس ، بھارت کو ایف سولہ طیاروں
کی فروخت کی متواترپیش کش کررہاہے۔ بھارت اسی شہ پراپنی سازشوں کے ذریعے
پاکستان کے خلاف دنیا بھر میں مہم جوئی میں مصروف ہے۔ امریکہ بھارتی کی
انتہا پسندی کو مسلسل نظر انداز کرکے انڈیا کو خطے کا "بد معاش"بنانا چاہتا
ہے۔ لیکن بھارت کا باقاعدہ عملی عسکری کردار ادا کرنے سے مودی سرکار کا "فرار
"ہونا اور ’سازشی کردار ‘بڑھانے پر اکتفا کرنے سے ٹرمپ انتظامیہ کو پہلا
دھچکا لگا ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع جب افغانستان پہنچے تو ابھی بھارت مشن کی
خفت مٹی بھی نہیں تھی کہ افغان مزاحمت کاروں نے راکٹوں کے حملے سے استقبال
کرکے امریکہ کو پوری دنیا میں مزید شرمندہ کردیا کہ افغان دارالحکومت کا
بین الاقوامی ہوائی اڈ ااور امریکی اعلی وفد کی سیکورٹی بھی انتہائی غیر
محفوظ ہے ۔افغان مزاحمت کار ، جہاں چاہیں ، جس طرح چاہیں کابل دوہری حکومت
اور امریکہ و نیٹو کو ’ زچ ‘کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔پاکستان کا دورہ
’امریکی شیڈول میں شامل نہیں تھا ۔ویسے بھی یہ امریکی پالیسی ہوتی ہے کہ وہ
جس ملک میں جاتے ہیں اپنے میزبان کو خوش کرنے والے بیانات دیتے ہیں ، جیسے
بھارت میں رہ کر مُودی کی بولی بولنا اور پھر افغانستان پہنچ کر اشرف غنی
کے گیت گانا۔ تاہم اس بات کو اَب دوبارہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ افغان امن
میں پاکستان کے کردار و مدد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔پاکستان کی
سرحدیں افغانستان سے جڑیں ہوئی ہیں۔ پاکستان ، افغانستان کے تمام معاملات
سے گزشتہ چالیس برسوں سے براہ راست متاثر ہے۔ جبکہ بھارت کا اس خطے میں
کبھی کوئی کردار نہیں رہا اور نہ ہی1978کے’ انقلاب ثور‘ کے بعد بھارت کسی
بھی حوالے سے متاثر ہوا ہو۔بلکہ ماضی کے مقابلے میں بھارت کے اثر و نفوذ
میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ بھارت کو افغانستان کی بد امنی سے مسلسل فائدہ پہنچ
رہا ہے۔جبکہ پاکستان اپنے پڑوسی ملک میں جاری جنگ کیساتھ امریکی حلیف بننے
کے "جرم "میں کردہ‘ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ پہلی بار پاکستان نے"
ڈومور" کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے امریکہ اور اقوام عالم سے افغانستان کی
سرز مین پر موجود دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف "ڈو مور" کا مطالبہ کیا
ہے۔بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑخطے میں افغانستان میں امن لانے کیلئے نہیں بلکہ
پاکستان کو ون بیلٹ ون روڈٖ کا کلیدی کردار ادا کرنے کی وجہ سے سزا دینے
کیلئے بنا ہے۔بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں
کرنا چاہتا ۔چین کے ساتھ شراکت میں نئے معاشی انقلاب کی راہ میں رکاوٹیں
کرنے کی سازشیں کھل بھوشن یادو نیٹ ورک، احسان اﷲ احسان، کالعدم تحریک
طالبان پاکستان اور عزیر بلوچ نیٹ ورک کی شکل میں سامنے آچکی ہیں ۔
بھارت کی جانب سے مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں میں نہتے پاکستانی و
کشمیری عوام کو نشانہ بنا کر پاکستان کو مشتعل کرنے کی کوششیں بھی شامل ہیں
۔ بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور سندھ بالخصوص کراچی میں انتہا پسندی ، فرقہ
واریت ، نسل پرستی اور لسانیت کے نام پر مختلف گروپوں کی پشت پناہی
بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ کا مرکزی ایجنڈا ہے۔کمزور پاکستان بھارت۔امریکہ گٹھ
جوڑ کا منشور کا حصہ ہے۔جبکہ بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ کا مقصد پاکستان اور
افغانستان کے عوام کو ترقی کے بجائے پس ماندگی کی جانب دھکیلنے کی سازش کا
ایک حصّہ ہے۔بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ افغانستان کو نسلی بنیادوں پر منقسم کرنے
کی خواہشات کا مظہر ہے۔بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ جنوبی ایشیا ئی خطے میں" پولیس
مین"کی اجارہ داری کے لئے عالمی نظریہ سازش کا ایک جُز ہے۔بھارت۔امریکہ گٹھ
جوڑ دراصل پاک۔افغان عوام کے درمیان نفرتوں کی فیصل کھڑی رکھنے کا منصوبہ
ہے۔بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ کے مضمرات سے جہاں خطے میں امن مقفود ہوگا تو
دوسری جانب مسلم امّہ کے مسائل میں مزید اضافہ کا سبب بھی بنے گا ۔ پاکستان
کو کمزور رکھ کر اقوام مسلّم کی قیادت سے روکنے کیلئے اقوام عالم میں
پاکستان کو تنہا کرنے کی سازش کا نام بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ ہے۔اس موقع پر
پاکستانی سیاسی رہنماؤں اور حکومتی وزرا ء سمیت تمام اداروں کو مبہم اور
غیر واضح پالیسی کے بجائے معتدل رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام کی
خوشنودی کے بجائے ملک دشمن عناصر سے آشیر باد کے لئے متنازعہ غیر سنجیدہ
بیانات دینے سے احتیاط کی ضرورت ہے۔ بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ کو عوام و اداروں
کے ساتھ ملکر ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ عوام میں انتشار پیدا ہونے سے
بھارت۔امریکہ گٹھ جوڑ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ |