کرپشن

پاکستان کو فاٹا کے ترقیاتی پروگرام کے لئے ملنے والی یو ایس ایڈ 775 ملئین امریکی ڈالر جو امریکی این جی اوز کی نگرانی میں ہی پروجیکٹ بنائے جا رہے تھے بہت بڑے فراڈ غبن اور مالی بدعنوانیوں کا شکار ہو گئے۔ اب اس فراڈ کی تحقیقات کے لئے یو ایس ایڈ پروگرام آفس کی درخواست پر پاکستان قومی احتساب بیورو نے تحقیقات شروع کر دیں۔ نیب کے ایک سینئر ترجمان نے تصدیق کی کہ پروجیکٹس میں بڑے پیمانے پر فراڈ کئے گئے ہیں۔ ان پروجیکٹس میں حکومت پاکستان کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔

اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں کس طرح کی امداد دی جاتی ہے کہ ان حسانات سے ہماری کمر دوہری ہو گئی اور رقومات واپس امریکہ۔ چاہے وہ ہمارے لوگ کریں یا امریکی این جی اوز ٹاسک ایک۔

سیلاب متاثرین کی مدد براہ راست رچرڈ ہالبرک کا اعادہ ہے کرپشن ہماری میراث نہیں ہے یہ آئی ہی یورپ اور امریکہ سے ہے۔ جس نے ہمارے ملک میں مغل شہزادے اور الیٹ کلاس پیدا کی اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ کلاس رقومات کی منتقلی یورپی اور امریکی ممالک میں کرتی ہے۔اور قوم پر قرضوں کا بوجھ ڈال کر انہیں مالی بدحالی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ اب اگر امریکی بھی وہی کام خود کرتے پکڑے گئے تو اس میں رقومات کی تقسیم میں کوئی جھگڑا ہوا ہوگا یا پھر اس کرپشن کی ٹھوس حقائق لوگوں نے پکڑے ہونگے۔ اس سے ادارہ نیب سے تحقیقات کرانے پر مجبور ہوا ۔ اندر ہی اندرتحقیقاتی ادارے شفافیت کی سند بھی عنایت کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا منشا یہی ہو۔ امریکی خود اپنے اداروں سے تحقیقات کرائیں ہم تو ویسے ہی بدنام ہیں۔اور پیسے کے لئے تو ہم بہت کچھ اور امریکیوں کی توقعات سے بھی بہت بڑھ کر کرتے ہیں۔ جیسے ایمل کانسی کی حوالگی امریکیوں نے میں ان القابات سے نوازا تھا کہ پاکستانی پیسوں کے لئے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔ پھر دنیا نے دیکھا حوالگی ہی حوالگی۔ اور جانے کس کس کو کتنے کتنے پیسوں کے عوض امریکیوں اور پاکستانیوں نے مل کر ایمانداری سے دولت کی منصفانہ تقسیم کی کہ کوئی گڑبڑ یا فساد نہیں اٹھا۔ اس کو ایماندارانہ تقسیم کہتے ہیں۔

کبھی کبھی اس تقسیم میں جھگڑا ہو جاتا ہے۔ جیسے آگسٹا آب دوز کی خریداری میں رقم کی تقسیم پر ہوا اور یورپی تحقیقی اداروں کے مطابق کراچی شیرٹن ہوٹل کے پاس فرانسیسی ماہرین مار دئے گئے۔ پر خود کش حملہ کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اس کرپشن سے کمائی گئی دولت کا کچھ حصہ صدارتی مہم پر بھی خرچ ہوا۔ اس گڑبڑ کے دونوں کردار صدارت کی کرسی پر براجمان ہیں۔ تو فرق کتنا ہے دونوں ایک ہی طرح کے ملزم ہیں۔ ایک بد قسمت پاکستان سے ہے دوسرا خوش قسمتی سے دنیا کی کلیدی جمہوری مملکت فرانس سے ہے۔

انڈیا کے راجیو گاندھی اور اٹلی کی بوفورز توپوں کا چرچا انکی موت تک جاری رہا۔ وہ بھی دولت کی تقسیم کا کوئی جھگڑا ہی ہوگا۔ لیکن بدنام ہم کیوں قرار دئے جاتے ہیں۔ یہاں تین ممالک کی مثال دی گئی ہے۔ جو گڈ گورننس کے اعلیٰ ترین اعزازات رکھتے ہیں۔ یہ تیسری دنیا میں کرپشن کک بیکس اور لوٹ مار کے فروغ میں معاون ہیں۔

اس لعنت سے چھٹکارہ پانا ہو تو ملکی وسائل بروئے کار لا کر غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کم سے کم کر کے ملکی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔

اب عدلیہ اس مد میں کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اسے غیر معمولی اقدامات اٹھا کر کرپشن کے مرتکب افراد اور قرضے ہڑپ کرنے والوں کو فوری ٹرائل کر کے سزا دینا چاہئیے ۔ ایک اچھی خبر تو تھی کہ 71 سے اب تک قرض معاف کرانے والوں کی لسٹ مانگی گئی تھی۔ لیکن پیشرفت دکھائی نہ دی۔ اگر صرف ان سے ہی دولت واپس لے کر خزانے میں جمع کرائی جائے تو ملکی صورتحال بہتری کی طرف پہلا قدم ہو سکتی ہے۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75671 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More