پاکستان اور امریکا: اسٹرے ٹیجک تعلقات یا مغالطہ انگیزی اور دھوکا دہی؟

۲۰ تا ۲۲ اکتوبر ۲۰۱۰ء واشنگٹن میں پاکستان اور امریکا کے درمیان ’اسٹرے ٹیجک مذاکرات‘ کے نام سے جاری بات چیت کا تیسرا دور منعقد ہوا، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے انجام دی ہے۔ ۱۳ وزارتوں کے نمائندوں (بشمول پانچ وزرا) نے ان مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن پاکستان کی جانب سے کلیدی کردار بری افواج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہی نے ادا کیا ہے۔

جنرل صاحب حسب معمول خاموش ہیں، لیکن پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیر اطلاعات پھولے نہیں سما رہے اور یہ دعویٰ تک کر رہے ہیں کہ: ’’ہمیشہ امریکا ہمیں سناتا اور مطالبات کرتا تھا، لیکن اب وہ ہماری بھی سن رہا ہے اور ہم نے ’برابری کی بنیاد‘ پر بات چیت کی ہے‘‘۔ ایک وزیر صاحب نے ارشاد فرمایا: ’’امریکا ہمیں کمزور نہیں دیکھنا چاہتا‘‘۔ ایک اور شریکِ سفر وزیر کا فرمانا ہے: ’’امریکا ملک کے شمال مغربی علاقے میں دو چھوٹے ڈیم بنانے کے مصارف برداشت کرے گا‘‘، اور سب ہی آواز میں آواز ملا کر کہہ رہے ہیں: ’’ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نئی زندگی اور تقویت میسر آئی ہے‘‘۔

ملک کے کم و بیش تمام اخبارات نے اپنے ادارتی تبصروں میں، حزبِ اختلاف کے تمام قائدین نے بیانات کے ذریعے، اور ٹی وی کے معروف ٹیلی میزبانوں میں سے بیش تر نے اپنے تجزیاتی پروگراموں میں ان دعوؤں کو بڑی حد تک ہوائی باتیں اور حقیقت سے عاری اور خوش فہمی پر مبنی خام خیالیاں قرار دیا ہے۔ امریکا سے پاکستان کے خارجہ تعلقات کی تقریباً ۶۰برسوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کی روشنی میں اس دعوے کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے کہ پاک امریکی تعلقات محض وقتی اور مالیاتی لین دین کے مرحلے (transanctional framework) سے نکل کر اب زیادہ اصولی، دیرپا اور بنیادی نوعیت کے تعاون میں داخل ہوگئے ہیں، جسے بین الاقوامی تعلقات کی اصطلاح میں برابری کے اسٹرے ٹیجک تعلقات کہا جاتا ہے۔ زبانی کلامی ایسے دعوؤں کا آغاز بش کے آخری دور میں ہوگیا تھا، مگر اس کو ایک متعین شکل اب صدر اوباما کے دور میں دی جارہی ہے اور عملاً اس کا آغاز فروری ۲۰۱۰ء سے ہوا ہے۔ حالیہ مذاکرات اس سلسلے کی تیسری کڑی ہیں اور چوتھا راؤنڈ ۲۰۱۱ء کے آغاز میں متوقع ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ گہرائی میں جاکر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی اصل حقیقت کو متعین کریں، تاکہ قوم، پارلیمنٹ، میڈیا اور اگر اللہ توفیق دے تو موجودہ قیادت حالات کا صحیح صحیح ادراک کرسکے اور اس کی روشنی میں سیاسی، عسکری، معاشی اور تہذیبی حکمت عملی کی صورت گری کرے۔

خارجہ پالیسی کا مسلّمہ اصول
ویسے تو خارجہ تعلقات کا ایک مسلّمہ اصول یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں نہ دوست مستقل ہوتے ہیں اور نہ دشمن، مستقل اور دائمی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف مفادات ہیں۔ اس لیے ایک ملک کی خارجہ پالیسی انھی مفادات کے گرد گردش کرتی ہے۔ البتہ ان مفادات کے تعین میں متعلقہ ملک کے عالمی اور علاقائی مقاصد اور اہداف، اس کے سیاسی اور معاشی عزائم اور اس کی معاشی، عسکری اور سیاسی قوت پر مشتمل عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ ہمہ وقت بنتے اور بدلتے تعلقات پر جہاں وقتی عناصر اور تقاضے اثرانداز ہوتے ہیں، وہیں کچھ دیرپا تعلقات اور روابط بھی ہیں جو لنگر کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، اور ان کا انحصار بھی مقاصد کی ہم آہنگی، اقدار میں اشتراک اور مفادات کی یکسانی پر ہوا ہے اور انھی کی بنیاد پر ایک تعمیری یا افادی انداز میں تزویراتی (strategic) شراکت وجود میں آتی ہے۔

نظری طور پر ایسی حکمت عملی کے تصور کا شجرہ نسب یونان کے مفکرین سے جا ملتا ہے۔ یونانی زبان میں اس کا اصل مفہوم generalship ہے، جس کے معنی جنگ میں اعلیٰ ترین سطح پر مقاصد اور حکمت عملی مرتب کرنے کا نظام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹرے ٹیجی [حکمت کاری]کا تصور فلسفۂ جنگ کا ایک کلیدی تصور رہا ہے اور وہیں سے یہ علمِ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں داخل ہوا اور پھر تزویراتی ہیکل یا strategic structure خود ایک مستقل مضمون بن گیا۔ دورِ حاضر میں جنگ اور اس کی صورت گری کرنے والے داخلی اور خارجی عوامل، اور خود جنگ کی حکمت عملی اور اس حکمت عملی کو عمل کا روپ دینے اور معاملات کا گہرائی کے ساتھ جس شخص نے مطالعے کا آغاز کیا ہے، وہ ایک جرمن فوجی کمانڈر اور استاد کارل وون کلازے ویٹز (۱۸۳۳ء۔۱۷۸۰ء) ہے، جس کی کتاب On Warایک کلاسیک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں اس نے اسٹرے ٹیجی اور چال (tactic) کے فرق کو نمایاں کیا ہے۔ تزویری حکمت عملی کا تعلق مقصد اور اصل جنگی اہداف سے ہے، جب کہ ٹیکٹک ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع، اعمال اور تنفیذی اقدام سے متعلق ہیں۔ گذشتہ دو صدیوں میں ملٹری سائنس، علمِ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں اپنے اپنے انداز میں ان تصورات کو مزید نکھارا گیا اور اسٹرے ٹیجی میں بھی ’عظیم تر اسٹرے ٹیجی‘ اور ’عملی اسٹرے ٹیجی‘ کی درجہ بندی کی گئی۔ پھر جنگ، سرد جنگ، توازن، قوت وغیرہ کے پس منظر میں ان تصورات کو مزید ترقی دی گئی۔۱خارجہ سیاست کے ان مباحث کی روشنی میں اگر دیکھا جائے، تو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکا کے اسٹرے ٹیجک تعلقات صرف تین ممالک سے ہیں، یعنی برطانیہ، جو اب ایک صدی پر محیط ہیں، اور اسرائیل اور ناٹو ممالک جو تقریباً ۶۰ سال کے نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں۔ دنیا کے باقی ممالک سے اس کے تعلقات محض کاروباری معاملہ فہمی کی حد تک رہے ہیں اور مفادات کی دھوپ چھاؤں کے مطابق اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، جس کی زیادہ تر حیثیت آنکھ مچولی کی رہی ہے۔ کلنٹن کی صدارت کے دور میں بھارت سے امریکا کے تعلقات کو کاروباری سطح سے بلند کرکے اسے اسٹرے ٹیجک تعلقات کی طرف لے جانے کا آغاز ہوا۔ گذشتہ ۱۰، ۱۵ برسوں میں آہستہ آہستہ معاشی، عسکری اور سیاسی میدانوں میں اس سمت میں پیش رفت ہوئی، جسے بالآخر صدبش کے دور میں ۲۰۰۶ء میں نیوکلیر تعاون کے معاہدے کے ذریعے اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ کی شکل دے دی گئی۔ امریکا میں بھارتی کمیونٹی نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ صدراوباما کی حکومت کے ایک درجن سے زیادہ کلیدی مناصب پر بھارتی نژاد امریکی رونق افروز ہیں۔ بھارت اور امریکا کی تجارت کا حجم اس وقت ۶۱ ارب ڈالر سالانہ ہے۔ پھر بھارت اور امریکا کی براہِ راست سرمایہ کاری ۱۶ ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہے۔ امریکا سے کمپیوٹر ٹکنالوجی کی ہر پانچ کمپنیوں میں سے دو بھارت میں اپنا کام پھیلا چکی ہیں اور دفاعی میدان میں اسلحے کی خریداری، بھارتی مسلح افواج کی جنگی تربیت اور مشترکہ شعبوں میں تعاون کے لیے حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت نے اگلے پانچ سال کے لیے جس ۱۰۰ ملین ڈالر کی جنگی خریداریوں کا منصوبہ بنایا ہے، اس کا بڑا حصہ امریکا اور اسرائیل سے حاصل کیا جانا ہے۔ بھارت اور امریکا کا نیوکلیر تعاون کوئی حادثاتی یا وقتی تعاون کا معاہدہ نہیں ہے، بلکہ ہموار تعلقات کا ایک حصہ ہے، جس میں بھارت کو چین کے مقابلے ایک علاقائی سوپر پاور سے بڑھ کر ایک عالمی جنگی کھلاڑی کے کردار پر مامور کرنے کی مشترک حکمت عملی کا حصہ ہے۔ افغانستان میں بھی بھارت کے کردار کا معاملہ اسی ’عظیم تر حکمت عملی‘ کا ایک پہلو ہے۔

اس پس منظر میں پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقت پسندی کے ساتھ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حال اور مستقبل کے امکانات کا صحیح صحیح ادراک کرے، اور محض خوش فہمیوں، سر ٹکرانے کی مشقوں اور خوش نما مگر بے معنی الفاظ کے طلسم کا شکار ہوکر، اسٹرے ٹیجک مغالطوں اور دھوکوں کی دلدل سے ملک و قوم کو محفوظ رکھے۔ حال اور مستقبل کا کوئی مبنی برحقیقت نقشہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں عالمی اور علاقائی حالات کو سمجھے بغیر بنانا ممکن نہیں ہے۔

(پروفیسر خورشید احمد کے اشارات سے اقتباس )
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1530615 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More