جمہوریت یا موروثیت

(پروفیسر رشید احمد انگوی)
پاکستان انسانی تاریخ کا عجوبہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ کلمہ توحید کی بنیاد پر برصغیر پاک وہند کے جغرافیہ میں اسلامیانِ عالم کے قلعے کے طور پر ایک ریاست وجود پذیر ہواورمفکرِ پاکستان علامہ اقبال کی تعلیمات اوربابائے قوم قائد اعظم کی راہ نمائی میں خوابوں کی یہ سرزمین حاصل کرلی گئی۔پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے قیامِ پاکستان کے اغراض ومقاصد کی روشنی میں قرادادِ مقاصد پاس کرکے ہمیشہ کے لیے راہ نما خطوط مہیا کردیئے اورربع صدی بعد ذوالفقار علی بھٹو نے انیس سو تہتر کا متفقہ دستور پاس کراکر قومی ترقی کے لیے راستہ ہموار کردیامگر اگلے انتخابات میں بھٹو کی دھاندلی نے ترقی کا راستہ روک دیا اورضیائی آمریت بنام اسلام کا دور شروع ہوگیا۔اس دور میں پنجاب کے گورنر جیلانی نے ایک بڑا قومی جرم یہ کیا کہ لوہے کے ایک تاجر سے ذاتی مفادات حاصل کرکے بغیر کسی میرٹ کے اس کے بیٹے کو گھر سے اٹھا کر پنجاب کی وزارت کی کرسی پر بٹھا دیا۔ بظاہر یہ ایک سادہ سی بات اپنے اندر قومی تباہی کا ایٹم بم لیے ہوئے تھی۔ سیاست کی ابجد سے بھی بے خبر یہ نااہل صاحبزادہ اپنے تاجرانہ پس منظر میں لفافہ کلچر ٗ سازش اورضمیروں کی خریدوفروخت کی منڈی سجا کر آگے بڑھتا رہا تاوقتیکہ کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نااہل قرار پا کر آج اندرون وبیرون ملک اس عظیم عدالت اوراس کے عظیم ججوں نیز اپنے محسن جیلانی کی ہم پیشہ افواجِ پاکستان کے خلاف نفرت وبغاوت کی ناپاک سرگرمی میں مگن ہے اوراس کے ساتھ قومی خزانے پر پلنے والے ہم نواؤں کاٹولہ بھی ہے۔ پارلیمنٹ اپنے حقیقی مقام کو چھوڑ کر اسے نوازنے میں لگی ہوئی ہے بلکہ ہماری رائے میں تو پارلیمنٹ عملاً’’جیلانی ہاؤس‘‘کا درجہ اختیار کرچکی ہے کہ جیلانی کی مٹھی گرم کرکے نیز اس کی خوش نودی حاصل کرکے چوردروازے سے ناجائز طور پر کیبنیٹ نشین ہونے والا فرد آج پارلیمنٹ میں فروکش مجروں سے لیڈری کا تمغہ اورخصوصی ترمیمی فضائل وفوائد حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے۔یہ جان کر بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ جیلانی کے ہاتھوں چھتیس سال قبل پلانٹ کیا گیا نام نہاد سیاست دان ابھی تک قوم کی جان چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ استغفراﷲ ۔ ادھربھٹو کے انجام کے بعد اس کی بیٹی کو اقتدار ملا اوریوں بھٹو کا قرض ووٹروں نے اتار دیا مگر اب اس مرحومہ کے سسرال نے اپنا نام بدل کر مجاوری کا نیا باب کھول دیا اورشوہر صاحب نے ’’آئینی تحفظ‘‘کی پناہ میں پانچ سال پورے بھی کرلیے مگر اب چاہتے ہیں کہ میری نسل نئے سرے سے اقتدار میں آجائے کہ میرا بیٹا بھٹو کا نواسا ہی تو ہے (تاریخ پوچھتی ہے کہ بھٹو کا کوئی پوتا پوتی بھی ہیں یا نہیں)۔اسی دوران جیلانی کا شاہ کار فرد اپنی بیٹی کو ملک کا سربراہ بنانے پر بھی تلا ہوا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظرجس میں قوم کو متوجہ کیا جاتا ہے کہ کیا مملکت خداد پاکستان کو ’’اسلامیہ جمہوریہ پاکستان‘‘کے طور پر رہنا ہے یا ’’موروثیہ ٗ شریفیہ ٗ زرداریہ پاکستان‘‘کے طور پر۔تحریک پاکستان کی حقیقتوں سے باخبر اہل علم ٗ اہلِ سیاست ٗ اہلِ صحافت ٗ اہلِ خطابت ٗ اہلِ قلم سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اس مملکت اوراس کے بائیس کروڑ انسانوں پر رحم کریں اورپرزور آواز اٹھائیں۔ کیا قائد اعظم نے یہ عظیم ریاست ’’نواز ومریم وبلال وزرداری جیسوں کو راہ نما بنانے کے لیے قائم کی تھی‘‘۔ان تمام کا ریاست کے مقصد وجود سے کیا تعلق۔’’اسلامیہ جمہوریہ پاکستان‘‘کے کس معیار پر یہ لوگ پورا اترتے ہیں ۔ ہماری رائے میں تو ن لیگ کو ج لیگ (بحوالہ جنرل جیلانی)کہنا زیادہ موزوں ہے۔ بھٹوکی بیٹی صنم بھٹو آج بھی ماشاء اﷲ زندہ اوربھٹو کی نشانی ہے ۔ اسی طرح ذوالفقار جونیئر اورفاطمہ بھٹو ہی بھٹو کے پوتے پوتیاں ہیں۔ ویسے بھی جمہوریت تو نئے سے نئے منتخب قائدین کے آتے رہنے کا نام ہے۔ریاست پر پکے ڈیرے تو بادشاہی نظام میں لگائے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں ہر گز ہرگز نہیں۔ سیاست میں کرپشن کے حوالے سے نواز وزرداری نے تو انتہائی مہلک اورتباہ کن ’’وراثتی کینسر‘‘کو جنم دیا ہے۔ آخر بائیس کروڑ انسانوں کو سیاسی قیادت سے محروم کرکے خاندانِ شریفاں اورزرداری خاندان کی ابدی غلامی کا جواز کہاں سے آگیا۔زرداری میاں بیوی نے کم وبیش دس سال تک بھٹو کے نام پر حکومتیں کرلیں اوردنیا جہاں میں جائیدادوں کے پہاڑ بنا لیے۔یہی حال جیلانی کے کا شتہ پودے نواز شریف کا ہے کہ شریف خاندان نے پورے ملک خصوصاًپنجاب پر حکمرانی کے ادوار بسر کرلیے ۔ اب آرام فرمائیں اور’’غیر شریف‘‘خاندانوں کو بھی سامنے آنے دیں۔ آپ فرماتے ہیں ’مجھے نکالا کس نے‘کیاقائداعظم نے جنرل جیلانی کے نام ریاست لکھ دی تھی کہ اپنے کسی خدمت گار کو آنے والے زمانوں کی حکمرانی بخش دے۔ جی نہیں ٗ ایسا ہرگز نہیں۔اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں آج نہ جمہوریت رہ گئی ہے اورنہ اسلام۔ایسے میں قوم اپنے پاک وطن اوراس کے قیام کی غرض و غایت یعنی اسلام وجمہوریت کی جانب متوجہ ہو۔ یہ عظیم سلطنت اسلامیان عالم خصوصاًمسلمانان برصغیر کی امانت ہے۔ اس کا کھویا ہوا کردار واپس لایا جائے۔لاہور میں اسمبلی ہال کے سامنے بلند وبالا سفید مینارپاکستان کی عالم اسلام میں اہمیت ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے حالیہ ’’اینگلو پاکستانی‘‘حکمرانوں کو تو سال بعد’یومِ اقبال‘کے حوالے سے ہونے والی سرگرمی بھی اچھی نہ لگی اورانہوں نے یوم اقبال منانے کو قانونی جرم قرار دے دیاتاکہ ذکرِ اقبال کے حوالے سے قیام پاکستان کی اصل وجوہات اورفکرِ اقبال کے مطالبات لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہیں۔ اسی لیے پوری قوم سے درد مندانہ اپیل کی جاتی ہے کہ آئیں وطن عزیز پاکستان کو چور ٗ ڈاکو ٗ بددیانت قسم کی قیادتوں سے نجات دلائیں ۔ زرداری کا لفظ اپنی تشریح خود کردیتا ہے۔ اسی طرح ’’سارے ٹبر‘‘والے نعرے فضاؤں میں گونج رہے ہیں اور’’مجھے کیوں نکالا‘‘کا نغمہ قومی تمسخر کی علامت ہے جسے سنا کر لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ اگر امریکہ برطانیہ کے حکمران چار یا آٹھ سال کے لیے آتے ہیں اورماضی میں گم ہوجاتے ہیں تو پاکستانی حکمران خاندان چالیس چالیس سال پر بھی کیوں راضی نہیں ہوتے اوربلاولوں و مریموں کو ملک کی قیادت کے لیے پیدا ہونے والے وجود کیوں قرار دیتے ہیں۔ ہم اس باطل تصور کو نہیں مانتے اوراس کے پرخچے اڑانے کو ملک سے وفاداری کا تقاضا سمجھتے ہیں۔اقبال=’’یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔ صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اﷲ‘‘۔جی ہاں اغراض کے بندوں نے نواز وزرداری کو بھی دیوتا بنا ڈالا ہے۔ کیا حالیہ ترمیمی سرگرمیاں بھی نوازپرستوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ؟

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 85 Articles with 83280 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.