جب ہم جواں ہوں گے،،،جانے کہاں ہوں گے،،،لیکن جہاں ہوں
گے،،،کڑکتی دھوپ،،،
بجلی کے بل کی لائن،،،وہاں سے پانی کی لائن،،،وہاں سے سرکاری مردہ
خانے،،،اوہ
معاف کیجئے گا،،،سرکاری ہسپٹل کی او۔پی۔ڈی کی لائن،،،بچے کو سکول میں
ایڈمیشن
کی لائن،،،اتنی لائنز ایک کے بعد دوسری بس لائن پر لائن،،،
اوپر سے پوچھ رہا ہے کہاں ہوں گے؟؟،،،،لائن سے نکلیں گے ،،،تو کہیں جائیں
گے،،،
پھر بھی لوگوں کو حسرت رہتی،،،ہائے کبھی لائن نہیں ماری،،،لائن نے ہی ہمیں
کھڑے کھڑے رکھ کے مار دیا،،،
اگر ہم پاکستان انڈیا کی موویز دیکھیں،،،ایسا کمال کہ نہ پوچھو،،،
دونوں ملکوں کی یہ حالت ،،،کہ بڑے بڑے وزیر اعظم،،،ان کے
خاندان،،،پڑوسی،،،کرپشن
کے الزام میں روز دو ہی کام کرتے ہیں،،،یاتو وکیل کرتے ہیں،،،یا پھرموقعہ
ملے تو،،،
پورا جج ہی کرلیتے ہیں،،،
ہمارے دوست ہیں وہ بولے،،،حکمران خاندان روز روز وکیل کرتا ہے،،،اک بس جج
کرلے،،،
سب گناہ معاف،،،
خیر بات ہے فلموں کی،،،ہیرو گورا چٹا،،،ہیروئن لاکھوں میں اک،،،اور عوام
منہ کھول
کر ایسے دیکھتی ہے جیسے کچاکھا جائے گی،،،
عوام کے پاس،،،نہ گھر،،،نہ سائیکل،،،نہ بجلی،،،نہ واش روم،،،کوئی ٹرین کے
ٹریک پر
لوٹا لے کربیٹھا ہوا ہے،،،باز اوقات دونوں چیزیں ساتھ آ جاتی ہیں،،،ٹرین
بھی،،،اور
یوریا خود بھی،،،بس پھر دریا کاپانی ہی صاف کرتا ہے،،،لوٹا کم پڑ جاتا
ہے،،،
فلم دیکھیے،،،بڑے بڑے گھر،،،قیمتی قالین،،،صوفے ایسے جیسے ہوا بھری ہو،،،
بیٹھو تو ایسے اندر دھنس جاؤ،،،جیسے حسینہ کی گود ہو،،،چلیں امی کی گود،،،
ہیرو چن چھبیلاسا،،،ہیروئن پنسل نہیں اسکی نوک جیسی نرم اور نازک،،،
بندے فلم دیکھ کر گھر آئے،،،تو اپنی بیوی ایسی لگتی ہے جیسے پڑوسی کے
گجر کی بھینس کھل کے آگئی ہو،،،
ہیروئن ایسے ٹھمکے مار رہی ہوتی ہے،،،جیسے جسم میں سپرنگ فٹ ہوں،،،
گھر والی کو دیکھو،،،تو مولی کھا کھا کر ایسے ڈکار مارتی ہے،،،جیسے گھرمیں
بھینسوں کا باڑا ہو،،،
اونچا لمبا موٹا تازہ ولن،،،نازک سے ہیرو سے ایسے مار کھاتا ہے،،،جیسے
اسلامیات
کا ٹیچر کبڈی کے پلیئر کومارتا ہے،،،
فلم میں اور بھی بہت کچھ باقی ہے،،،کیونکہ پکچر ابھی باقی ہے،،،پڑھنا نہ
بولیے
گا،،،اک فلم اور سہی۔۔۔۔۔
|