مولانا فضل الرحمان نے جس طرح سے نوازشریف کا ساتھ دیا۔وہ قابل
ستائش ہے۔یہ بڑا مشکل کام تھا۔نوازشریف اس وقت مرد نامطلوب بنے ہوئے ہیں۔ ہر طرف سے
ناموافق ہوائیں چل رہی ہیں۔ دور دور تک کوئی غم خوار نظر نہیں آرہا۔مولانا صاحب ان
کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہرمشکل موقع پر دفاع کرتے مولانا فضل ارحمان جس طرح کھل کر
نوازشریف کے مخالفین پر بر س رہے ہیں۔وہ انوکھی بات ہے۔ان کا مزاج اس طرح کے
جھمیلوں میں پڑنے والا نہیں۔جانے کیا بات انہیں حوصلہ دے رہی ہے۔اور وہ خلاف مزاج
حکمت عملی اپنانے پرکاربند ہوئے۔نواز شریف سے اس تعاون کا سلسلہ الیکشن دوہزار تیرہ
کے نتائج آنے والے دن سے شروع ہوا۔اور آج تک جاری ہے۔مولاناصاحب اس بیچ لیگی قیادت
سے اس بات پر ناراض بھی رہے کہ وہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت بنانے کے لیے ان
کی تجویز کے ہمنوا نہ بنے۔تب یہ صورت حال تھی کہ 124رکنی ایوان میں 63اراکان کی
حمایت درکارتھی۔مولانا سمجھتے تھے کہ وہ مسلم لیگ ن۔قومی وطن پارٹی کے ساتھ مل کر
باآسانی حکومت بنوا سکتے تھے۔ان تینوں جماعتوں کے کل اراکین کی تعد اد 44 تھی۔
مولانا صاحب کو یقین تھا کہ جماعت اسلامی کے 9اراکین کو مل اکروہ 52اراکین اسمبلی
اکٹھے کرسکتے ہیں۔باقی بچے گیارہ لوگ وہ آزاد امیدواروں میں سے پورے کرسکتے
ہیں۔مولانا فضل الرحمان کی تجویز کو نوازشریف نے مستردکردیا۔وہ کچھ دن ناراض رہے
مگر پھرمیاں صاحب کے ساتھ آن کھڑے ہو گئے۔
مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر تشویش
کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ احتساب عدالت میں پیشی کے لیے وطن واپسی کے
باوجود انہیں ائیر پورٹ پر ہی گرفتار کرلیا گیا۔واضح رہے کہ شریف فیملی کے جن لوگوں
کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔ان میں سابق
وزیر اعطم نوازشریف۔ ان کے دونوں صاحب زادوں۔بیٹی مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن
صفدر کا نام شامل ہے۔اس کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی ریفرنس دائر
کرنے کاحکم دیاگیاہے۔سابق وزیراعظم کیپٹن صفدر کی طرف سے احتساب عدالت میں پیش ہونے
کے لیے وطن واپسی کے باوجود گرفتاری کے عمل کو درست نہیں مان رہے۔ ان کا موقف ہے کہ
اگر طلبی کے دن وہ پیش نہ ہوتے تو بلا شبہ گرفتار کرلیا جاتا۔مگر تب تک کا انتظار
نہ کرنا اور ایئر پوٹ پر ہی سے گرفتار کرلینا غلط ہے۔وہ اسے ایک انتقامی کاروائی
سمجھتے ہیں۔جو ان کے مخالفین عدلیہ کے کچھ لوگوں کو استعمال کرکے کررہے ہیں۔عدلیہ
کے حالیہ کچھ فیصلوں نے لیگی قیادت کے ساتھ ساتھ سنجیدہ حلقوں کو بھی مضطرب
کررکھاہے۔انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ بالکل ایک جیسے معاملات ہونے کے باوجود عمران
خان اور نوازشریف کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں ہورہا ہے۔ایک طر ف تو لمبی لمبی تاریخ
پڑ رہی ہیں۔اور دوسری طرف دنوں میں فیصلے سنائے جارہے ہیں۔ایک طرف تو ایک بندہ
مہینوں سے اشتہاری ہے۔اس کی گرفتاری کے احکامات جاری کرنا ضروری نہیں سمجھا
جارہا۔دوسری طرف کچھ ہی دنوں میں کچھ لوگوں کو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوچکے۔ان کی
پیشی کے دن سے قبل ہی گرفتار کیا جارہاہے۔ سابق وزیر اعظم انتقامی رویے کو محسوس
کرنے کے باوجود قانون او رضابطوں پر کاربند رہنے کے حق میں ہیں۔انہوں نے مریم
نوازکو ٹیلی فونک رابطے پر بتایا کہ تمام تحفظات کے باوجو د ہم عدالتوں میں پیش
ہونگے۔
مولانا فضل الرحمان نے اس آڑے وقت میں نوازشریف کا ساتھ نبھایاہے۔جب وہ مقتدر حلقوں
کے لیے بالکل ناقابل قبول ہوچکے۔مولانا صاحب نے مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہوکر اپنے
دیرینا دوستوں کو بھی ناراض کیاہے۔مذہبی جماعتو ں کی اکثریت نوازشریف کے خلاف صف
آراء ہیں۔ہر کوئی کسی نہ کسی پوائنٹ لیے ہوئے ہے۔ان کے بے وزن جوازان کی مخالفت کے
کھوکھلے پن کو عیاں کررہے ہیں۔کچھ جماعتیں نوازشریف حکومت پر غیر اسلامی ذہنیت
رکھنے کا الزام لگاکر اس کے خلاف صف آراء ہیں۔یہ نکتہ بالکل بے وزن ہے۔شریف فیملی
کی مذہبیت پسندی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے باوجود نوازشریف پر غیر اسلامی ذہنیت کا
الزام عجب ہے۔ ابھی کل ہی پاکستانی تاریخ کا سب سے زیادہ غیر اسلامی دور ایک فوجی
آمر پرویز مشرف کی سربراہی میں گزرا۔تب میراتھون ریس ان مذہب پسندوں کی نظر سے
اوجھل رہی۔ لال مسجد کو خون سے نہلا دیا گیا۔تب یہ مذہبیت نہ جاگی۔اس وقت سینسر
بورڈ نامی ادارہ جانے کہاں سویا رہا تھا۔ جیسے چاہے گانے متعارف کروائے جارہے
تھے۔جیسی چاہے فلمیں بن رہی تھی۔جیسے چاہے ٹی وی سیریل بن رہے تھے۔ان مذہبیت پسدوں
کی طرف سے نوازشریف پر غیر اسلامی اور کرپٹ ہونے کا الزام لگاناا س بات کا ثبوت ہے
کہ یہ لوگ کسی مجبور ی کے تحت ایسا کررہے ہیں۔ان کے کھوکھلے خطابات اور دلائل
انتہائی بے وزن ہیں۔یہ مذہبی جماعتیں ان قوتوں کی پٹھو بنی ہوئی ہیں۔جو ایک عرصہ سے
نوازشریف کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے اس آڑے وقت میں نوازشریف کا
ساتھ نبھایاہے۔ اس کٹھن اور خارزار راستے پر وہ پچھلے چارسال سے گامزن ہیں۔نوازشریف
کی سیاست ان دنوں خطرے سے دوچارہے۔ان کے ساتھ کھڑے ہونے والے بھی نشانہ بن رہے ہیں۔
مولانا صاحب کی ثابت قدمی ایک طرح سے جے یوآئی سمیت ان تمام مذہبی جماعتوں کی ان
کوتاہیوں کا کفارہ ہے۔جو یہ اب تک کرتی رہیں۔
|