پاکستان میں پہلے زیادہ تر سیاستدان فیوڈل یعنی زمینداربے
گراونڈ سے تعلق رکھتے تھے جن پر یہ الزامات تھے کہ یہ لوگ پیسے والے ہیں ،اسلئے
سیاست کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ ٹیکس بھی پوری طرح ادا نہیں کرتے اور
سیاست میں پیسے کااستعمال کرتے ہیں لیکن پھر وقت تبدیل ہوا پاکستان کی
سیاست میں فیوڈل کی جگہ تاجروں نے لے لی ،فیوڈل تو جس وجہ سے بدنام تھے
انہوں نے وہ سب کیا آپنا یا بلکہ ان سے بڑھ کر ملک کو لوٹنا شروع کیا ،ان
فیوڈل پر جن میں آج بھی کچھ خاندان شامل ہے کرپشن اور لوٹ مار کی ایسے
الزامات نہیں لگائے جاسکتے جو آج ہمارے سامنے تاجر براداری یعنی میاں نواز
شریف خاندان کی ہے ۔ ستم ظریفی یہ کہ کھربوں روپے باہر ممالک میں ان کے
اکاونٹس میں جمع ہوتے رہے ہیں جن سے انہوں نے ہر جگہ پر جائیدادیں بنائی
لیکن پھر بھی ان کی یہ دولت اور کمیشن کرپشن نہیں بلکہ حلال کمائی ہے ۔
میاں صاحبان کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ تاریخ میں ان کا نام بدنام ہوچکا ہے ،اب
انہوں نے اپنی سیاست اور کرسی بچانے کیلئے مختلف پلاننگ اور سازشیں شروع کی
ہے جو ملک کے خلاف بھی ہے ، یعنی کچھ دن پہلے حلف نامہ میں تبدیلی ، دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں ساٹھ ہزار قربانیاں اور آپریشن ضرب عضب سے لیکر نیشنل
ایکشن پلان اور ردالفساد تک جاری ہونے والے سکیورٹی اداروں کی قربانیاں کے
باوجود یہ بیانیہ کہ پہلے گھر کی صٖفائی کی ضرورت ہے جس کا صرف ایک ہی مقصد
تھا کہ فوج کو بدنام کیا جائے جو پروپیگنڈا بھارت اور امریکا پاکستان کے
خلاف کررہا ہے ان کو تقویت دی جائے ۔ مقصد صرف ایک ہی ہے یعنی کیسے نواز
شریف کو بچایا جائے اور امریکا کی مدد حاصل کی جائے جس کے لئے ہمارے
وزیرخارجہ امریکی دور وں میں مصروف ہے۔ وہاں پر امریکا کو بتایا کہ عمران
خان طالبان ہے دائیں بازوں کی سیاست کرتا ہے اور ہم لبرل سیاست کرتے ہیں
جبکہ ملک میں عمران خان پر یہودی ایجنٹ اور اسلام کا غدار جیسے القابات سے
نوازتے ہیں ۔انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کے ساتھ مل کر آئین میں
ترمیم کی بعد میں وزیر خارجہ کی جانب سے سارا الزام سوشل میڈیا پر لگایا
گیا کہ ان میں بعض لوگ ملک میں آگ لگاناچاہتے ہیں ، سوشل میڈ یا پر پابندی
کے خوب بھی دیکھے جارہے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ اب زمانہ تبدیل ہوچکاہے
اب پرانے طریقے نہیں چل سکتے ۔ ان سب کا مطلب یہ ہوا کہ اگر سوشل میڈ یامیں
شور نہ مچایا جاتا تویہ قانون جس پر اسمبلی میں شیخ رشید اور جماعت اسلامی
کے ایک رکن نے احتجاج کیا تھا جس کو انہوں نے نظرانداز کیا یہ لوگ اپنے
سازش میں کامیاب ہوجاتے ۔ اسی طرح ایف آئی اے کے ذریعے اپنے 38ممبران
اسمبلی کی مانٹیرنگ اور ان پر نظر رکھنے کیلئے جو حربہ استعمال ہوا جو اب
ناکام ہوچکا ہے تاکہ نون لیگ میں گروپ بندی کو روک جائے سارا ملبہ سنیئر
صحافی اور اینکر پرسن ارشدشریف پر ڈالا کیا کہ انہوں نے کیوں خبر دی ۔ ارشد
شریف ان صحا فیوں میں شامل ہے جنہوں نے پناماکیس میں بہت کچھ اس قوم
کوبتایا ۔اب نون لیگ حکومت اس کا بدلہ لینے کیلئے ارشد شریف کو کھلے عام
دھمکیا ں ایف آئی اے کے ذریعے دے رہے ہیں ۔ نون لیگ کی ان حرکتوں کو دیکھا
جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دن قریب آرہے ہیں ۔اب آخری خربے استعمال
کیے جارہے ہیں ۔ میاں نواز شریف اج بھی جس جمہوری نظام کی بات کررہے ہیں ان
کی سب سے زیادہ نفی بھی خود کررہے ہیں ، ایک طرف پارلیمنٹ کو بے توقیر کیا
تو دوسری طرف قانون اور آئین کا آج بھی خوب مذاق اڑایا جارہاہے۔ نااہلی کے
باوجود وزیراعظم حقان عباسی کے پروٹوکول میں پندرہ گاڑیاں ہوتی ہے تو میاں
صاحب کے ساتھ35گاڑیاں چلتی ہے اور سارے راستے بھی بند کیے جاتے ہیں جیسا کہ
ایک ملزم عدالت میں پیش نہیں ہورہابلکہ کوئی فا تح پیش ہورہاہے ، ان سے بھی
بڑھ کر ان کی بیٹی مریم نواز کوکس حیثیت میں اتنا پروٹوکول دیا جارہاہے جس
سے دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق اڑایا جارہاہے۔
ملک کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ وفاقی وزرا نااہلوں کو بچانے میں لگا
ہے ۔ جب تک قانون کے سامنے میاں نواز شریف اور ان کا خاندان ایک عام آدمی
اور لوگوں کی طرح پیش نہیں ہوتے اس وقت تک یہ سوالات اٹھتے رہیں گے کہ یہ
ملک انہوں نے جس طرح لوٹ اب قانون کے سامنے بھی یہ بادشاہت کا مظاہر ہ
کررہے ہیں۔ دوسری طرف نیب چیئرمین کی تقرری بھی کوئی اچھی نہیں ہوئی سب سے
موزں اور قابل شحض شعیب سڈل جو پولیس اور کرمنلزکیسز میں ایک الگ حیثیت
رکھتے ہیں ان کو چھوڑ کر جاوید اقبال صاحب کو لگایا گیا جن سے یہ لوگ یعنی
پیپلز پارٹی اور نون لیگ والے کوئی خطرہ محسوس نہیں کررہے ہیں ۔ ہماری
بدقسمتی کہ نیب چیئرمین وہ لوگ منتخب کرتے ہیں جن کے کیسز پہلے سے نیب میں
موجودہے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ نئے چیئرمین اپنے عمل سے کیا ثابت کرتے ہیں
آیا وہ پہلے والے چیئرمین قمرزمان کے نقش قدم پر چلتے ہیں یانئی روایات کو
قائم کرتے ہیں جس پر قوم کو فخر ہو۔
ویسے ان تاجروں نے اسلام دین حق کی سچائی ثابت کر دی کہ تاجروں کو ملک میں
حکمرانی نہیں دینی چاہیے وہ ہر جگہ اپنی کمیشن اورمنافع دیکھتے ہیں جن کو
یہ لوگ اﷲ کی فضل سے مہربانی کہتے ہیں کہ ہمیں لوگ خود ہی اربوں روپے دیتے
ہیں ۔ اب ان تاجروں کے مقابلے میں وہ فیوڈل ہزار گنا اچھے محسوس ہوتے ہیں
کہ کم از کم اپنی عزت کا پاس تو رکھتے تھے ،اس طرح ملک کو نہیں لوٹتے تھے
جس طرح انہوں نے لوٹا ہے۔
|