سی پیک ایک ایسا شاندار منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے آنے
والی نسلوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ پاکستان اور چین کے تعلقات کی حیثیت کسی
سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دونوں ممالک کے تعلقات چھے دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر
محیط ہیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ پاکستان قدرتی طور
پر جغرافیائی محل وقوع سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس قدرتی محل وقوع کو
سامنے رکھتے ہوئے پاکستان اور چائنہ نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کے تحت سی
پیک بنانے کا فیصلہ کیا۔ سی پیک میں ہزاروں کلومیٹر سڑکیں، ریلوے ٹریک اور
گوادر میں دنیا کے جدید ترین ایئرپورٹ کی تعمیر کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ ون
بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ سٹیل، تعمیراتی مشینری اور
ٹرانسپورٹ کو برآمد کیا جائے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی تکمیل سے خطے کی
تقدیر بدل جائے گی۔ اور پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ پاک
چین دوستی آزمائش کی ہر گھڑی میں پوری اتری ہے۔ بین الاقوامی اداروں کے
مطابق سی پیک کے ذریعے 150 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ ملک میں 8
لاکھ سے زائد نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس عظیم الشان منصوبے میں
36 بلین ڈالر صرف انرجی پراجیکٹس کے لیئے مختص ہیں۔ اسی منصوبے کے تحت
پاکستانی حکومت کا ارادہ ہے کہ اس کوریڈور کے ساتھ کئی ایسے صنعتی پارک اور
کاروباری ترقیاتی خطے قائم کیئے جائیں۔ منصوبے کی تکمیل سے دنیا کی 70 فیصد
سمندری تجارت پاکستان کی دو بڑی بندرگاہوں کراچی اور گوادر کے ذریعے ہو گی۔
سی پیک منصوبہ راتوں رات نہیں بن گیا اس منصوبے کو اقوام متحدہ کی حمایت
حاصل ہے۔ اور مختلف براعظموں کے 70 سے زائد ممالک اس عظیم الشان منصوبے میں
شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین اور پاکستان کو سڑکوں،
ریلوے، پائپ لائنز اور فائبر آپٹیکل کیبلز کے 3 ہزار کلومیٹر طویل نیٹ ورک
کے ذریعے باہم منسلک کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ چین کے صوبے سنکیانگ کو براہ
راست گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرے گا۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی پوری
دنیا میں جتنے بڑے پیمانے پر پزیرائی ہوئی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی
برادری اسے کسی ایک ملک کی بالادستی کے قیام کا نہیں بلکہ دنیا کی مشترکہ
ترقی و خوشحالی کا لائحہ عمل تصور کرتی ہے۔ اس امر کا ایک مظاہرہ پانچ ماہ
پہلے بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ سربراہی کانفرنس میں امریکا سمیت دنیا کے
ایک سو تیس ملکوں کی شرکت اور اقوام متحدہ کی جانب سے حوصلہ افزائی کی شکل
میں ہو چکا ہے۔ اس منصوبے سے 3 بلین سے زائد لوگ مستفیذ ہوں گے۔ سی پیک کی
تکمیل سے پاکستان کی کایا پلٹ جائے گی۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ
دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ بھارت اس منصوبے کو روکنے کے لیئے ایڑی چوٹی کا
زور لگا رہا ہے۔ حکومت پاکستان اور عسکری قیادت برملا اس بات کا اظہار کر
چکی ہیں کہ سی پیک منصوبہ ہر حال میں مکمل کیا جائے گا۔ سی پیک جیسے میگا
پراجیکٹ نے امریکہ اور بھارت کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ ون بیلٹ ون روڈ
کے خلاف امریکی انتظامیہ اور ٹرمپ کے جارحانہ عزائم اس بات کا کھل کر
اعتراف ہے کہ سپر پاور پاکستان کو کسی صورت مضبوط اور مستحکم نہیں دیکھنا
چاہتی۔ سی پیک پاکستان کے لیئے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے ناصرف
پاکستان اقتصادی ترقی کی نئی منازل طے کرے گا بلکہ خطے کی ترقی پر بھی اس
کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکی اعتراضات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ خطے
میں پاکستان کو بھارت کا تابع رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت کے عزائم پاکستان کے
متعلق کیا ہیں ، کلبھوشن یادیو اس کا اعتراف کر چکا ہے۔ امریکی سیکرٹری
دفاع جمیز میٹس کی جانب سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ سی پیک پاکستان میں
متنازع علاقہ سے گزر رہا ہے۔ جمیز میٹس کا کہنا تھا کہ امریکا اصولی طور پر
ون بیلٹ ون روڈ کی مخالفت کرتا ہے۔ امریکا کا اعتراض ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ
منصوبہ کشمیر سے ہو کر گزرے گا جو کہ متنازع علاقہ ہے تو امریکا نے منگلہ
ڈیم کی تعمیر کے وقت یہ اعتراض کیوں نہیں اٹھایا۔ امریکا کو سی پیک کے
معاملے میں کشمیر کا متنازع علاقہ ہونا یاد رہا مگر کشمیریوں کے حق خود
ارادی کے لیئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں سات دھائیوں سے روگردانی کی
روش اپنائے رکھی ہے۔ پاکستان نے امریکی اعتراض کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا
ہے۔ امریکی سیکرٹری دفاع کے اس اعتراض سے بالآخر امریکا کا خبث باطن آشکار
ہو گیا۔ جب سی پیک منصوبے کا اعلان کیا گیا تھا تو بھارت نے علی الاعلان اس
کی مخالفت کی تھی اور دھمکی دی تھی کہ وہ اس منصوبے کا کامیاب نہیں ہونے دے
گا۔ بھارت کی بولی بولتے ہوئے امریکا نے خود اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں
عشروں سے جاری دہشتگردی کا سرپرست پاکستان کو قرار دے کر قربانی کا بکرا
بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ اور اب سی پیک میں بھی امریکا کو خرابیاں نظر
آنا شروع ہو گئیں۔ چین اور پاکستان کی جانب سے امریکی اعتراضات کو تسلیم نہ
کرنا جائز اور درست ہے اور پوری عالمی برادری کی جانب سے اس کی حمایت کی
جانی چاہیئے۔ |