امت مسلمہ پر ظلم کے پہاڑ اور مسلم حکمران امریکہ کے وفادار

اس لیے میڈیا اب یہ نہیں چاہتا کہ ہمیں بھی کوئی روکنے ٹوکنے والا ہو اور ویسے بھی میڈیا والوں کا تو کاروبار ہے جو جتنے زیادہ پیسے دے گا اس کی ایڈورٹائزنگ اتنی ہی زیادہ ہو گی اس کی طرف داری اتنی ہی زیادہ ہوگی جو جتنے زیادہ پیسے دے گا اور ان کے پاس بے تہاشہ پیسا ہے اور وہ اپنے سارے کالے کرتوت میڈیا کے ذریعہ سے کھلےعام گھولتے پھر رہے ہیں اور ایک وقت آنے والا ہے کہ یہ لوگ فوج پر بھی غلبہ حاصل کر لیں گے جیسے انھوں دوسرے سارے اداروں اور سیاست دانوں کو پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے

میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ یہ جو مسلمانوں پر ذلّت مسلّط ہوتی جارہی ہے اور ملکوں کے ملک مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلتے جارہے ہیں اس کی مین وجہ یہ ہے غیر مسلم اقلّیتوں کو سر پر چڑھا لیا گیا ہے اور خاص طور پر عیسائی اقلّیت نے مسلمان ملکوں میں امریکہ کے قوانین رائج کرنے میں دن رات ایک کیا ہوا ہے اور امریکہ اور برطانیہ ان اقلّیتوں کے ذریعہ سے مسلمان ملکوں میں فساد پھیلا رہے ہیں اور مرزائی ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں جو ہر قسم کے جرائم چٹکیوں میں کر لیتے ہیں میں یہاں یہ بات بڑے وثوق سے کہنا چاہوں گا کہ جو شکستوں پہ شکستیں مسلمانوں کو ہورہی ہیں ان بدمعاش مرزائیوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں اور کافر قوّتیں امریکہ برطانیہ ہندوستان اور اسرائیل اور دیگر اسلام دشمن قوّتیں ان بے ایمانوں کے ذریعہ سے یہ ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور دن بدن کافروں کی قوّت میں اضافہ ہو رہا ہے اور مسلمان دن بدن اپنی طاقت کھو رہے ہیں اور میڈیا اس وقت سارے کا سارا مرزائیوں کے ہاتھ میں ہے اور میڈیا کے ذریعہ سے مسلمان حکومتوں کو نا صرف حقا ئق سے اندھیرے میں رکھا جا رہا ہے بلکہ ان کو غلط مشوروں کے ذریعہ سے گمراہ بھی کیا جارہا ہے

اب ان کم ذات مرزائیوں نے مسلمانوں سے مالی طاقتیں اور جنگی طاقتیں چھین لی ہیں اور آم کے آم اور گھٹلیوں کے دام وہ کافروں کے کہنے پر غدّاری کرکے ان سے سپاری میں لاکھوں کروڑوں ڈالر بھی بٹورتے ہیں اور پھر ان پیسوں سے کاروباری کامیابیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا کاروبار ناصرف ملک کے طول وعرض میں پھیل جاتا ہے بلکہ ان کا آنا جانا دوسرے ملکوں میں بھی کثرت سے ہونے لگتا ہے اور وہاں سے پھر وہ سارے کے سارے وہ ہتھکنڈے سیکھ کر آجاتے ہیں اور ان کا کلچر بھی اپنا لیتے ہیں اور پیسوں کی وجہ سے وہ مسلمان ملکوں میں اپنا کلچر جو وہ کافروں کے ملکوں سے سیکھ کر آئے ہوتے ہیں وہ پھیلانا شروع ہوجاتے ہیں ان کا کلچر کیا ہے یہ کہ مرد کی مرد سے شادی ہو سکتی ہے ہم جنس پرستی کوئی جرم نہیں ہے اور جسم فروشی بھی کوئی جرم نہیں ہے اور آدمی جس طرح چاہے سیکس کر سکتا ہے ایک دوسرے کے اعضاء مخصوصہ چوسے جاسکتے ہیں اور گروپ سیکس بھی کیا جا سکتا ہے شراب و رقص کی محفلیں دن رات ہوتی رہتی ہیں اور بوائے فرینڈ گرل فرینڈ بھی ایک رشتہ ہے جو اب پولیس کو بھی منوا لیا گیا ہے ناولوں ڈائجسٹوں ڈراموں اور فلموں کے ذریعہ سے بھی اور سکولوں اور دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں عملی طور پر بھی

اور بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ ماں بیٹا بھی بن سکتے ہیں اور باپ اور بیٹی بھی بن سکتے ہیں اور بہن بھائیوں میں کیا ہوتا ہے وہ تو سب جانتے ہیں کون نہیں جانتا کہ بہن بھائی ایک دوسرے سے کافر ملکوں میں سر عام سیکس کرتے ہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ مسلمان ملکوں میں بھی اسی رفتار سے یہ جرائم ہوتے ہیں مگر سرعام نہیں ہوتے تو گناہ تو گناہ ہوتا ہے کھلے عام ہویا چھپ چھپا کے یہ وہ خرابیاں ہیں جو مسلمان ملکوں میں مرزائی پھیلا رہے ہیں اور یہاں کی طوِائفیں اور ہندوستان کی طوائفیں مکّہ مدینہ میں جاکر نقلی داڑھی لگا کر مقدّس مقامات پر خادم بن کر پھر رہے ہوتے ہیں یہ سب غدّاری کے پیسوں کی بھرمار سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اثر رسوخ اور یہاں آکر دعوے کیے جاتے ہیں کہ ہم عربوں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ہم وہاں یہ یہ جرائم کر کے آئے ہیں مگر ان کو پتا بھی نہیں چلا یہی وجہ ہے کہ ایسے بھونڈے ہتھکنڈوں کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات خراب ہوتے جارہے ہیں اور رفتہ رفتہ اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ پاکستان نمک حرام ملک قرار دیا جانے کے قریب پہچ چکا ہے اور قریب ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے جیسے تعلقات انتہائی خراب ہیں اسی طرح سعودیہ اور پاکستان کے ہونے جارہے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے بھی تعلقات روز بروز خراب اور تشویش ناک ہوتے جارہے ہیں بلکہ یو کہا جاسکتا ہے کہ ہو چکے ہیں -

جو شخص ان کم ذات مرزائی امیر زادوں اور نو دولتیوں کو اگنور کرتا ہے اس کا حال ایسا کر دیا جاتا ہے جیسے حالات روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے ہیں ان سے وسائل ایک ایک کر کے چھین لیے جاتے ہیں جھوٹے کیسز میں پھنسا کر نوکری سے جواب دلا کر گھر کے لڑکے لڑکیوں کو بری سوسائٹی میں لے جاکر بگاڑ دیا جاتا ہے اور نشے کا عادی بنا دیا جاتا ہے اور بہت سوں کو سائبر سیکس کا عادی بنا کر پروکسیز کا شکار بنا کر فیلئر بنا دیا جاتا ہے ظاہر ہے جب جرائم پر روک نہیں لگائی جاتی تو ایسے بگڑے ہوئے امیر زادوں اور نودولتیوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ بآسانی کافر ملکوں سے سیکھا ہوا کلچر پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے اور قانوں کے رکھوالوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نئی نسل کا ستیا ناس کیا جارہا ہے اور ایسی پروکسیز میں کھرے ہوئے لوگ مسلمان ملکوں میں لاکھوں کی تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں اور قانون کے رکھوالے اگر اپنی ساری طاقتیں صرف کر دیں تو بمشکل ایسے لوگوں کو ہی سدھار سکیں گے تو کافروں کے ملکوں میں جاتے وقت سوائے کشکول کے اور کیا لے کر جاسکتے ہیں یہ بہت بڑا المیہ ہے ہمارے ملک کا اور میڈیا فوج کی مخالفت اس لیے دن رات چوبیس گھنٹے کرتا رہتا ہے تاکہ ہمیں اپنی سرگرمیوں سے کوئی روک نا سکے جیسا کہ مشرف دور میں میڈیا کو بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ چاہے مشرّف بھی ان کا اپنا ہی بندہ تھا مگر اس نے بہت سے چینلز والوں کو ناکوں چنے چبوائے اور بہت سوں کو اجاڑ دیا تھا -

اس لیے میڈیا اب یہ نہیں چاہتا کہ ہمیں بھی کوئی روکنے ٹوکنے والا ہو اور ویسے بھی میڈیا والوں کا تو کاروبار ہے جو جتنے زیادہ پیسے دے گا اس کی ایڈورٹائزنگ اتنی ہی زیادہ ہو گی اس کی طرف داری اتنی ہی زیادہ ہوگی جو جتنے زیادہ پیسے دے گا اور ان غدّاروں کے پاس بے تہاشہ پیسا ہے اور وہ اپنے سارے کالے کرتوت میڈیا کے ذریعہ سے کھلےعام گھولتے پھر رہے ہیں اور ایک وقت آنے والا ہے کہ یہ لوگ فوج پر بھی غلبہ حاصل کر لیں گے جیسے انھوں دوسرے سارے اداروں اور سیاست دانوں کو پر غلبہ حاصل کیا ہوا ہے جب سارے کے سارے خواص و عوام کو اپنی اپنی ہی پڑی ہوئی ہے اور ان مرزائیوں کو اپنے برے عزائم اور ناپاک پالیسیوں کو مسلمان ملکوں میں داخل کرنے سے فرصت نہیں ہے یہاں یہ معاملہ ہی رہ جاتا ہے کہ ان سب اقلّیتوں سے ساری غدّاری کی کمائیاں چھین لی جانی چاہئیں ان کے سورس آف انکم کی انکواریاں ہونی چاہئیں جو کہ مردم شماری میں ہونی تھیں مگر وہ بھی انھوں نے پلان کے مطابق ٹمپریری سی کرالی ہے جیسے کہ کاغذی اتحاد ہوا ہے

مسلمانوں کا ایسے ہی کاغذی اور ٹمپریری مردم شماری کرا کر اللہ اللہ خیر سو اللہ جہاں تک میرا سوال ہے تو میرے تو سارے بیویاں بچّے داو پر لگ چکے ہیں ان کوتو پہلے ہی ہرغمال بنایا جا چکا ہے مگر میں نے پھر بھی ہار نہیں مانی تو میرے ارد گرد اور بیک گراونڈ کو خرید لیا گیا ہے اور جو میں مشورے دیتا ہوں ان کو ایسے کنٹرول کرو ایسے کنٹرول کرو مجھے ہی مجرم قرار دے کر وہ سب حکمت عملیاں مجھ پر ہی لاگو کر دی جاتی ہیں اور مجھے ہی کنٹرول میں لے لیا جاتا ہے اور میں بھی روہنگیا کے مسلمانوں جیسے حالات کا شکار کیا جارہا ہوں تو ایسی صورت حال میں ان مظلوموں کی مدد کون کرے گا کہ سوائے ان باتوں کے کہ امریکہ نوٹس لے وہ مسلمانوں پر فتوحات کر کے لوٹے یا ان مسلمانوں کی مدد کرے کیونکہ وہ تو امریکہ کا فائدہ ہی کر رہے ہیں ظلم ڈھانے والے امریکہ تو چاہتا ہے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے اور ہمارے حکمران یہ کہتے ہیں کہ کرنا کیا ہے -

اللہ کی پناہ یہ مجھے بڑا ہی عام بیان سے مختلف بیان لگا ہے کہ کرنا کیا ہے بتاو کرنا کیا ہے عوام اس کا کیا جواب دیں میں تو جہاں تک میرا بس چلا میں نے کوشش کی ہے اور میں کہتا ہی رہتا ہوں کہ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو ختم کیا جانا چاہیے جو کسی بھی پارٹی کے بس ک بات نہیں ہے اور فوج یہ کام کر سکتی ہے مگر فوج کو اپنی نفری میں سو گنا اضافے کی ضرورت ہے کم ازکم پاکستانی افواج کی تعداد پانچ کروڑ ہونی چاہیے یہ تب ہی ممکن ہے جب نماز اور زکواہ اور حدود اللہ کا قیام کیا جائے گا بصورت دیگر جتنے بھی بچے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرکے فارغ تحصیل ہوتے ہیں وہ غیر مسلموں کے سپاہی بن چکے ہوتے ہیں اور ان کا ہر قدم اسلام کے خلاف ہوتا ہے اورکفر کے حق میں ہوتا ہے

افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایسا ہو چکا ہے کہ ہندووں کے ترجمان اور حمایتی بن جاتا ہے ہر ایک سٹوڈنٹ اور اس کی وجہ یہ ہے ہندووں نے دوسرے تمام محکموں سے زیادہ فوکس محکمہ تعلیم پر کیا ہوا ہے کہ تمام بڑے عہدوں پر ان کے ایجنٹ تعینات ہیں جو اتنے اثرو رسوخ والے ہیں کہ کوئی ان کا کچھ بھی بگاڑ سکتا اور ان کا کام کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ کرپشن کی جائے اور کرپشن کے پیسے سے اپنی اور اپنے وفاداروں کی پوزیشن مضبوط بنائی جائے اور جو بھی لڑکا پڑھ لکھ کر سکول کالج یونیورسٹی سے میدان عمل میں آتا ہے اس وقت وہ پوری طرح سے برین واش ہو چکا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کرپشن بڑھتی ہی جارہی ہے کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی کیونکہ سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں تعلیم ہی کرپشن کی دی جاتی ہے اللہ کی پناہ غدّاروں کے شر سے اللہ کی پناہ منافقوں کے شر سے اللہ کی پناہ فرقہ پرستوں کے شر سے آمین -

محمد فاروق حسن
About the Author: محمد فاروق حسن Read More Articles by محمد فاروق حسن: 108 Articles with 126307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.