مجھے جزیرہ نما جنوبی کوریا میں چند سال گزارنے کا موقع
ملا۔ جنوبی کوریا ترقی کے بامِ عروج کو چھو رہا ہے۔ اُس نے تیز ترین ترقی
70ء کی دہائی سے کرنا شروع کی اور دو عشروں میں بہت بڑی ترقی حاصل کر لی۔
جنوبی کوریا کا رقبہ 100,210 کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی 2017ء کے مطابق
51,446,201 ہے جبکہ جی ڈی پی 2.029 ٹریلین ہے جبکہ شمالی کوریا کا کل رقبہ
120,540 کلومیٹر ہے جبکہ اس کی آبادی 2016ء کے مطابق 25,368,620 اور اس کا
جی ڈی پی 40 بلین ہے۔ جنوبی کوریا کا تیز ترین سب وے ٹرین نظام، شاندار
ہائی ویز، بلند و بالا عمارات، خوبصورت اور تیز ترین میٹرو سسٹم اور بڑے
بڑے ایئر پورٹس اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ جنوبی کوریا نے واقعتا بہت
بڑی ترقی حاصل کر لی ہے جبکہ اس کے بالکل برعکس شمالی کوریا میں غربت کی
انتہا ہے مگر شمالی کوریا نے جنگی ساز و سامان میں خود کو خود کفیل بنا لیا
ہے۔ ابھی حال ہی میں شمالی کوریا نے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا ہے۔ جنوبی
کوریا امریکہ کا اتحادی ہے اور جنوبی کوریا کی عوام کی حفاظت کے لئے 37
ہزار امریکی فوجی جنوبی کوریا میں تعینات ہیں۔ جنوبی کوریا اور شمالی کوریا
کی عوام ایک دُوسرے کو بہت چاہتے ہیں مگر حکومتی سطح پر تعلقات ہمیشہ خراب
رہے ہیں۔ جنوبی کوریا کی جنگ امریکہ لڑنا چاہتا ہے اور اسی وجہ سے دونوں
ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور اس میں حالیہ دنوں میں زیادہ
تیزی آئی ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں سخت الفاظ میں
ٹویٹ کئے ہیں اور کہا ہے کہ ماضی میں سابقہ امریکی صدور شمالی کوریا سے
مذاکرات کرتے رہے ہیں مگر اب پیانگ یانگ سے نمٹنے کے لئے ’’صرف ایک چیز ہی
کارگر ہو گی‘‘۔ اس ٹویٹ پر چین نے ٹرمپ کو الفاظ احتیاط سے استعمال کرنے کو
کہا ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل بھی شمالی کوریا کے سربراہ کم
جونگ ان کو ’’راکٹ مین‘‘ کہہ کر مخاطب کر چکے ہیں اور یہاں تک کہ وہ شمالی
کوریا کو مکمل تباہ کرنے کی بھی دھمکی دے چکے ہیں اور اس کے جواب میں شمالی
کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو دماغی مریض اور امریکہ کو آگ
سے سدھاریں گے کا سخت بیان دے چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان
سخت گیر الفاظ کا تبادلہ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ تجزیہ
نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ بیانات
صرف شمالی کوریا کو دھمکانے کے لئے دے رہے ہوں مگر چونکہ شمالی کوریا کے
سربراہ کم جونگ ان ٹرمپ سے کئی گنا زیادہ جذباتی ہیں ہو سکتا ہے وہ ان
الفاظ کو خاص اہمیت دیں اور وقت سے پہلے ہی کچھ کر گزریں اس لئے دونوں
ممالک کے سربراہان کو خاص احتیاط کرنا ہو گی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند
دن قبل دھمکی آمیز الفاظ میں کہا تھا کہ شمالی کوریا پر ’’آگ اور قہر‘‘ کی
بارش کر دی جائے گی۔ اس طرح کے سخت گیر الفاظ کسی لحاظ سے بھی قابل قبول
نہیں اور دُنیا کو جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ جنگ
عالمی جنگ کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے۔ شمالی کوریا کی طرف سے حال ہی میں
کیا جانے والا بیلسٹک میزائل تجربہ بھی تنقید کا خاص نشانہ بن چکا ہے۔
شمالی کوریا کے حکام نے اس کو پُرامن مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا عندیہ
دیا ہے مگر اس طرح کی کارروائیاں کرنا کسی بھی طرح دُنیا کو امن کا پیغام
نہیں دے رہیں جبکہ اس کے جواب میں جنوبی کوریا نے ایک بم تیار کیا ہے جو
شمالی کوریا کے بجلی کے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دے گا۔ یقینا دونوں ممالک
کے درمیان کشیدگی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر امریکہ
اور شمالی کوریا آپس میں اُلجھتے ہیں تو دُنیا دو گروپس میں تقسیم ہو جائے
گی۔ یقینا شمالی کوریا کو روکنے کے لئے چین اور روس کا کردار بڑا اہمیت کا
حامل ہے۔ اگر وہ خلوص نیت سے چاہیں تو آگ کے اس خوفناک کھیل کو ٹھنڈا کیا
جا سکتا ہے لیکن حالیہ بیانات سے ایسے لگتا ہے کہ دونوں ممالک تیسری جنگ
عظیم کی طرف ساری دُنیا کو دھکیل رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ بارہا کہہ چکے ہیں کہ
پیانگ یانگ کو ’’آگ اور غصے‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ شمالی کوریا نے
ڈونلڈ ٹرمپ پر جوہری جنگ کے دھانے پر پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔ شمالی
کوریا نے بحر الکاہل میں واقع امریکی اڈے ’’گوام‘‘ کو 5 میزائلوں سے نشانہ
بنانے کا اعلان کیا تھا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ اگر شمالی کوریا کی
حکومت نے اپنی سمت درست نہ کی تو وہ اس طرح مشکل میں پھنسے گا جیسے شاید ہی
دُنیا کا کوئی ملک پھنسا ہو۔ دونوں ممالک کو امن کی خاطر احتیاط سے کام
لینے کی ضرورت ہے اور یقینا اس میں اقوامِ متحدہ کے مثبت کردار کو بھی نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
|