تقریبا بیس سال پہلے ایبٹ آباد میں 'پانوس ' لندن ،'شرکت
گاہ ' کراچی اور عمر اصغر خان کی ' سنگی' ہزارہ کے زیر اہتمام ماحولیات سے
متعلق ٍایک ورکشاپ کے دوران ممتاز و معروف دانشور عبیداللہ بیگ نے اپنے
لیکچر کے دوران کہا کہ ہر بات کے پس پردہ اصل معاملہ معاشی ہی ہوتا ہے۔ہر
معاملے کو کشمیر کے زاوئیے سے دیکھنے کی عادت کے تحت میں رہ نہ سکا اور کہا
کہ لیکن کشمیری تو ایسا نہیں سمجھتے،معاشی فوائد تو کشمیریوں کو شاید بھارت
سے زیادہ حاصل ہو سکتے ہیں لیکن ان کی جدوجہد آزادی کا مقصد فقط معاشی نہیں
ہے۔عبیداللہ بیگ ( اللہ تعالی ان کے درجات بلند کرے) نے میرے جذبات دیکھتے
ہوئے کشمیر سے اپنی نسبت بھی بیان کی۔اس وقت تو میں عبیداللہ بیگ صاحب کی
وضاحت کے باوجود بات کونہیں سمجھا لیکن مزید علم ہونے پر تسلیم کرنا پڑا کہ
ہر معاملے کا محرک معاشی ہی ہوتا ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عمل اور
اس کے بعد مشرقی پاکستان کے بغیر قائم رہنے والے ملک پاکستان میں پالیسی
سازی کا عمل غیر تحریر شدہ آئین و رواج کے مصداق فوج کی ہی صوابدید چلا
آرہا ہے۔ باقی ماندہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ابتداء ہی مارشل لاء کی
چھتری تلے ہوئی اور مارشل لاء فوجی حکمران سے سول حکمران کو منتقل کیا
گیا۔بلا شبہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ہندوستان کے حملے نے فیصلہ کن
کردار ادا کیا تاہم اس کی مضبوط بنیادیں مغربی پاکستان کی سماجی،معاشی اور
سیاسی نا انصافیوں نے تعمیر کیں۔بنگلہ دیش بننے سے تقریبا ایک عشرہ پہلے
جنرل ایوب نے مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ ہونے کی پیشکش کی جس کا جواب
مشرقی پاکستان سے یہ آیا کہ وہ آبادی میں زیادہ ہیں،اگر علیحدگی کا اتنا ہی
شوق ہے تو مغربی پاکستان ،پاکستان سے علیحدہ ہو جائے۔
بلا شبہ پاکستان کو فیصلہ کن نقصانات سے دوچار کرنے کے لئے ملک کی اقتصادی
ترقی کو تباہ کرنے کی سازشوں میں بڑی پیش رفت جنرل مشرف کی قیادت میں ہونے
والی فوجی بغاوت سے ہوئی۔جنرل مشرف نے جنرل ایوب اور جنرل ضیاء کی آشیر باد
میں قائم حکومتوں کے تجربات کا نیا ماڈل سامنے لایا۔اتنا ہی نہیں بلکہ فوجی
حکومتوں کے اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے ہی سول حکومتوں قائم ہوئیں۔ لیکن اس
کے باوجود ملک میں پالیسی سازی کے اختیارات کی کشمکش اب تک مسلسل جاری نظر
آ رہی ہے،حاکمیت کے اس انداز میں سول حکومت کو ایسے اقتدار و اختیار میں
محدود رکھنے کا تقاضہ بار بار سامنا لایا جا تا ہے کہ جس میں سول حکومت کا
کام بنائی گئی پالیسیوں پر عملدرآمد کرنا ہے،پالیسیاں بنانا نہیں۔جن قومی
امور پر سول اور فوج کا نقطہ نظر ایک جیسا ہے،ان امور میں بھی حکمت عملی سے
متعلق اختلافات واضح ہیں۔ملک کی سلامتی اور استحکام میں بلاشبہ اقتصادی
ترقی اور مضبوط دفاع ناگزیر ہے لیکن ملک میں طبقاتی بالادستی کا مستقل نظام
ملک اور عوام کو حقیقی خوشحالی سے ہمکنار نہیں کرتا۔بلاشبہ ٹیکس کی صورتحال
بہتر بنانا اہم ہے لیکن طبقاتی بالادستی کے مستقل ملکی نظام میں ٹیکس کا
تمام بوجھ عام شہریوںپر ڈالے جانے سے ان کی معاشی ،سماجی اور سیاسی زندگی
پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔شہری جب دیکھتے ہیں کہ نظام ریاست چلانے
والوں کے لئے شاندار سرکاری اور سماجی زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی
ہے اور شہریوںکے مسائل کو کمتر درجہ دیا جاتا ہے،تو ان کا اعتماد ٹیکس ہی
نہیں ملک کے نظام سے بھی اٹھتا چلا جاتا ہے۔ملک میں شہریوں کو اہمیت کے
مختلف درجات میں رکھے جانے سے ملک کو مضبوط اور محفوظ نہیں بنایا جا
سکتا۔شہری ہی نہیں ،یہ دینا دیکھ رہی ہے کہ ملک میں پالیسی سازی ،حکمت عملی
اور اقدامات کی اتھارٹی کا تعین ابھی تک نہیں کیا جا سکا ہے اور اسی وجہ سے
ملک اب بھی غیر یقینی اور عالمی سطح پر بے اعتمادی کا شکار ہے۔یہی وجہ ہے
کہ ہمارے قومی اہداف بھی وقت کی ضرورت کے طور پر تبدیل کر دیئے جاتے ہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجو ہ نے کراچی میںمعیشت اور سیکورٹی کے موضوع پر
منعقدہ سیمینار سے خطاب کیا جس میں معیشت کو ملکی ترقی کی بنیاد قرار دیتے
ہوئے، اس کے تحفظ کے لئے سیکورٹی کو یوںلازمی قرار دیا کہ اس کا کردار ملک
کے ہر شعبے پر حاوی نظر آیا۔آرمی چیف نے کہا کہ معیشت کی کیفیت اداروں کی
طاقت اور عوام کے اعتماد سمیت ملکی صحت بیان کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مضبوط
فوجی طاقت کے باوجود معیشت کی کمزوری کے نتائج کی ایک مثال روس ہے۔انہوں نے
معیشت اور سیکورٹی کے درمیان قابل اطمینان توازن یقینی بنانے پر زور دیا
۔انہوں نے کہا کہ سیکورٹی میں سیاسی، اقتصادی، فوجی، سماجی، انسانی اور
ماحولیاتی پہلو امور شامل ہیں جس سے سیکورٹی ایک پیچیدہ مسئلہ بن گئی
ہے۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کے طور پر، میں بیرونی اور اندرونی طور پر ملک
کی فوجی سیکورٹی کے لئے بنیادی طور پر ذمہ دار ہوں ۔انہوں نے نیشنل ایکشن
پلان کی پیروی کئے جانے اور خطرات دور کرنے کے لئے جامع کوشش پر زور
دیا۔انہوں نے کہا کہ منصوبہ بندی کے بروقت اقدامات سے ملک میں اقتصادی اور
سیاسی استحکام میں مدد ملے گی۔آرمی چیف نے پولیس،عدالتی اور مدرسہ اصلاحات
کا ذکر کیا۔آرمی چیف نے ملک میں سیکورٹی صورتحال کی بہتری کا تذکرہ کیا اور
کہا کہ بنیادی ڈھانچے اور رتوانائی کو کافی بہتر بنایا گیا ہے لیکن موجودہ
اکائونٹ کی توازن ہمارے حق میں نہیں ہے،ٹیکس بہت کم ہے اور اس کو تبدیل
کرنے کی ضرورت ہے،معیشت ہمارے سب سے زیادہ خدشات میں سے ایک ہے. لیکن ہمارے
مستقبل کو بچانے کے لئے، ہمیں مشکل فیصلوں کے لئے تیار ہونا ضروری ہے۔ اگر
میں ایک سیاستدان یا معیشت تھا تو، میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ہمارے لئے اعلی
ترجیح پر اقتصادی ترقی اور استحکام رکھنے کے لئے اعلی وقت ہے. قومی سلامتی
کونسل کے اجلاسوں کے دوران مجھے آپ کے ساتھ اشتراک کرنا ہے، معیشت ہمارے سب
سے زیادہ خدشات میں سے ایک ہے. لیکن ہمارے مستقبل کو بچانے کے لئے، ہمیں
مشکل فیصلوں کے لئے تیار ہونا ضروری ہے،ہمیں اپنے ٹیکس بیس میں اضافہ کرنا
ہوگا، مالی نظم و ضبط میں لانا اور معاشی پالیسیوں کی تسلسل کو یقینی بنانا
ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی کو برقرار رکھنے کے لئے قانون سازی کو
ملک بھر میں یقینی بنانا ضروری ہے۔انہوں نے سیکورٹی اور معیشت کے اچھے
رابطے کی مثال قرار دیا اور کہا کہ کراچی پاکستان کی اقتصادی سرمایہ ہمارے
آمدنی کا ایک اہم حصہ بناتا ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ سیکورٹی اور معیشت کے
درمیان یہ تعلق انتہائی پیچیدہ ہے، لہذا حل زیادہ پیچیدہ ہے۔انہوں نے کہا
کہ ہماری سلامتی کی ترجیحات کا تعین کرنا ہے جس کا ہمارے معاشی مستقبل کے
ساتھ مضبوط تعلق ہے اور اس کا مرکز چین پاکستان اقتصادی کوریڈور ہے،تاہم اس
سب کا انحصار سیکورٹی پر ہے، یہ ہمارے لوگوں کا مستقبل، ایک اہم قومی مفاد
ہے جس پر ہم کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔آرمی چیف نے کہا کہ بدقسمتی سے،
باہمی بے اعتمادی کے موجودہ ماحول کو ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔انہوں نے کہا
کہ ہم قائداعظم کے نقطہ نظر کو پورا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا
میں سیکورٹی سستی نہیں آتی،یہ اقتصادی عزم پر منحصر ہے،زیادہ سے زیادہ
پیداوار ار برآمد کرنے میں شراکت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنا حصہ
سیکیورٹی محاذ پر کیا ہے، اب آپ معیشت کو باہمی طور پر تبدیل کر دیں۔انہوں
نے امید ظاہر کی کہ آج کی یہ بحث وسیع پیمانے پر قومی اور علاقائی گفتگو کا
حصہ بن جائے گی۔ آرمی چیف کے کہنے کے مطابق معیشت اور سیکورٹی کے موضوع پر
وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے بحث میں حصہ تو
نہیں لیا لیکن اس متعلق چند جملوں میں ردعمل کا اظہار ضرور کیا۔ معیشت اور
سیکورٹی کے موضوع پرآرمی چیف کے بیان اور وفاقی حکومت کے دو اہم عہدیداران
کے ردعمل سے پاکستان میں پالیسی سازی کا عمل ایک بار پھر موضوع بنا ہے۔اس
تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ وفاقی حکومت کے پالیسی کے اختیارات میں
''ڈکٹیشن'' کا عمل محیط ہے۔ |