انصاف نہ ہوگا تو بگاڑ پیدا ہوگا

اس سال عرفات کے میدان کی مسجدِ نمرا میں خطبہ حج دیتے ہوے مفتی اعظم سعودی عرب نے فرمایا کہ انصاف نہ ہو تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ مسلم حکمران عوام پر رحم کھائیں ان کے حقوق کا خیال کریں مسلم حکمرانوں کے پاس حکمرانی اﷲ کی امانت ہے!!!اس حقیقت سے اس وقت انکار ممکن نہیں ہے کہ مسلم حکمرانوں میں خاص طور پر پاکستان کے حکمران اﷲ کی عطا کردہ امانت کو کسی طرح بھی جائز طریقے پر استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ جہاں انصاف کے تقاضے بھی پورے نہ ہونا ایک المیہ ہے۔ سونے پر سہاگہ حکمران بے رحمی اور ظلم کے ساتھ اس ملک کے لوگوں کو بھیڑ بکریوں سے زیادہ اہمیت دینے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ عیدِ قرباں پر جانوروں کے علاوہ عوام کا سب کچھ قربان ہو رہا ہے۔ سیلاب کے ماروں کی اکثریت ہر سہولت سے محروم ہوچکی ہے اور یہ کہ حکومت امیروں سے ٹیکس لینے کے بجائے غریبوں کے گلے پر چھری پھیرنے کے لئے بے تاب ہے اور اس کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ حکومت عوام کی کمر توڑنے کے لئے ریفارمڈ جی ایس ٹی لگانے پر مصر ہے۔ جس سے عوام تو نڈھال ہو جائیں گے مگر نادہندگان اور ٹیکس چوروں کا بال بھی ٹیڑھا نہ ہوسکے گا۔

اگر وفاقی حکومت نے ریفارمڈ جی ایس ٹی (GST)بل کو پارلیمنٹ میں منظوری کی کوشش کی تو حکومت کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ کیونکہ حکومت کو اتحادی جماعتوں کی طرف سے بھی ریفارمڈ جی ایس ٹی سمیت کسی بھی نئے ٹیکس کے نفاذ پر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔ اس وقت آر جی ایس ٹی اور سیلاب ٹیکس کا بل بھی قومی اسمبلی اور سینٹ کی مالیاتی کمیٹیوں کے پاس ہے۔ 18ترمیم کی وجہ سے 14 دن کے اندر سینٹ کو اس بل پر سفارشات مکمل کر کے اسمبلی کو بھیجنا ہوگا لہٰذا ایوانِ بالا میں 23سے26نومبر تک اس بل پر بحث کے بعد سفارشات تیار کرنا ہونگی۔ دوسری جانب 20دسمبر کو پارلیمنٹ کا اجلاس بھی شروع ہوجائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اتحادی جماعتوں کی طرف سے مخالفت کے بعد جی ایس ٹی پر حکومت کو واضح شکست کا سامنا ہے۔ خبریں ہیں کہ وفاقی حکومت نے ریفارمڈ جی ایس ٹی کی منظوری کے لئے اپنی حکمتِ عملی تیار کر لی ہے۔ ٹیکس کی مخالف حکومت کی اتحادی جماعتوں اور حکومت مخالف جماعتوں کے ساتھ بھی معاملات طے پا گئے ہیں۔ جس کے تحت بل کی مخالفت کرنے والی جماعتوں کے ارکان ووٹنگ میں حصہ لینے کی بجائے ایوان سے واک آﺅٹ کر جائیں گے۔ مخالف جماعتوں کی عدم موجودگی میں ریفارمڈ جی ایس ٹی بل حکومت آسانی کے ساتھ منظور کرا لے گی۔ اگر حکومت کی اتحادی جماعتوں میں متحدہ قومی موومنٹ، اے این پی اور جمعیت العلماء اسلام حزب اختلاف کی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق تمام ریفارمڈ جی ایس ٹی کی مخالف جماعتیں ایوان میں بیٹھ کر اس بل کی مخا لفت میں ووٹ دیں گی تو یہ بل کبھی بھی منظور نہ ہو سکے گا۔ ورنہ واک آﺅٹ کی شکل میں یہ بل آسانی کے ساتھ منظور کرایا جاسکے گا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے پاکستان ڈیولپمنٹ فورم سے خطاب میں قوم کو دلاسہ دینے کی اپنی سی تو کوشش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرپشن اور حکمرانی کے مسا ئل ہیں۔ اصلاحات کے لئے ہمیں وقت دیا جائے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تین سال کا وقت بھی گیلانی حکومت کے لئے کم تھا؟ جو مزید وقت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوام کو بہتر قیادت فراہم کر نے کے لئے سیاسی خطرات مول لینے کو بھی تیار ہیں!! وزیر اعظم بتائیں کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران آپ نے کونسی بہتر قیادت کی فراہمی کی کوششیں کیں؟ہر محب وطن آپ سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ گڈ گورنس پر توجہ دیں۔حکومتی اخراجات کم کریں ، وزارتیں سفارتیں کم کر یں کرپشن زدوں کو لات مار کر باہر کریں مگر آپ کو اور آپکی حکومت کو یہ ہی خوف رہا ہے کہ اگر ایسا کریں گے تو اتحادی روٹھ جائیں گے اور ہماری حکومت خطرات کا شکار ہو جائے گی!!!اور اب تک تو ہوسکتا تھا کہ گیلانی گھر کا راستہ تلاش کر رہے ہوتے!!!اپنے اسی بیان میں وزیر اعظم نے ایک اور اچنبھے کی بات کہہ دی کہ عام سبسڈی ختم کر کے غریب اور مستحق افراد کو مخصوص سبسڈی دیں گے یہ مخصوص سبسڈی کیا ہوگی اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔

یہ خبریں بالکل واضح ہیں کہ سینٹ کمیٹی ریفارمڈ جی ایس ٹی بل کو مسترد کر دے گی۔ سینٹ کی مجلس قائمہ مالی امور سے متعلق 22نومبر کو بلا ئے گئے اجلاس میں جنرل سیلز ٹیکس میں اصلاحات کا جی ایس ٹی کا بل واضح اکثریت سے مسترد کر دے گی۔کیونکہ سینٹ کی 12رکنی کمیٹی جس کے سربراہ ایم کیو ایم کے سینیٹر احمد علی ہیں،اپنی سفارشات مخصوص مدت میں سینٹ کو پیش کر دے گی۔ پیپلز پارٹی کو اس کی اتحادی جماعتو ں نے آر جی ایس ٹی کے معاملے پر تنہا چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ معاملہ عوامی مفادات اور اصول سیاست کا ہے جس سے کوئی نظریں چرانا بھی چاہے تو چرا نہیں سکتا ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے رکن صفدر عباسی بھی اس بل کے خلاف ہیں۔ایک آدھ جماعت کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی بھاری اکثریت آر جی ایس ٹی کے خلاف ہے۔ بارہ رکنی کمیٹی میں سے سات ارکان کا تو فیصلہ واضح طور پر اس بل کے خلا ف ہے۔100 رکنی ایوان بالا میں بھی بمشکل 40 ارکان بمعہ فاٹاارکان، پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں گے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئر مین احمد علی نے وا ضح کر دیا ہے کہ چاہے قومی اسمبلی ہو یا سینٹ ایم کیو ایم اس بل کی مخالفت کرے گی۔

پاکستان ڈیولپمنٹ فورم PDF میں امداد دینے والے ممالک نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ کرپشن کے خاتمے بجلی کے شعبے پر سبسڈی ختم اور امیروں پر ٹیکس لگائے جائیں۔مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا نشانہ خالصتاََ غریب اور متوسط طبقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے جاگیر دار زرعی زمینوں سے کروڑوں روپیہ تو کما رہے ہیں مگر زرعی ٹیکس کا نام سنتے ہی ان کے غصے کی انتہا نہیں رہتی ہے۔پی ڈی ایف کے تحت امداد دینے والے مزید کہتے ہیں کہ امداد دینے والوں کو ٹیکسوں کی مایوس کن شرح پر بھی تشویش ہے۔وہ کہتے ہیں کہ صورت حال کی بہتر ی کے لئے غیر مقبول فیصلے کرنا ہونگے اور ٹیکسوں کے دائرہ کار کو وسیع کرنا ہوگا۔بجلی کا بحران اور نا مناسب سبسڈی وسائل ہڑپ کر جائے گا۔ حکومت مرکزی بینک سے بھی قرضے لے رہی ہے،اس بات کا اظہار پاکستان ڈیولپمنٹ فورم سے امریکہ، برطانیہ، جاپان ،آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں اور ممالک کے نمائندوں نے اپنے اپنے خطابات میں کیا۔ ہالبروک جو پاکستان کو بہت بڑی خوش خبری دینے والے تھے انہوں نے کوئی خوش خبری تو پاکستان کو نہ دی ہاں البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان اقتصادی ایجنڈے پر تیزی سے عمل کرے۔پاکستان میں امیر طبقہ بھی ٹیکس دے ۔ اینڈریو مچل انگلستان کے بین الاقوامی تعاون کے وزیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے صحیح طریقے سے استعمال کیئے جانے چاہئیں۔بورڈ آف ریونیو کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ملک میں ترقی آبادی کی شرح پیدائش کے مطابق ہونی چاہئے۔جاپان کی امور خارجہ کی نائب پارلیمانی وزیر میکسیکو کیکون نے کہا کہ پاکستان کا جاپان دیرینہ دوست ہے اسکی ترقی اور خوشحالی کا دل سے خواہش مند ہے۔ عالمی بینک کی ازبیل گیررو نے کہا کہ پاکستان کو طویل عرصہ تک بیرونی امداد کی ضرورت رہے گی۔ڈونرز پاکستان کو امداد فراہم کریں۔تاکہ پاکستان اپنے مسائل پر قابو پاسکے۔

حکومت اب تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے 26 ٹریلین روپے کے علاوہ 1.5،ارب روپے کے حساب سے روزانہ، جس کا مطلب ہے کہ 45 ،ارب روپے ماہانہ قرض حاصل کرتی رہی ہے۔ جس کا انکشاف پاکستان ڈیولپمنٹ فورم کے آخری اجلاس میں گونر اسٹیٹ بینک شاہد حفیظ نے کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس قدر قرض کے حصول کی وجہ سے ہی ملک میں افراظ زر تیزی سے بڑھ رہا ہے۔حکومت اپنے اللے تھللے ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہے صرف عوام کا خون چوسنا چاہتی ہے۔ نہ تو خود چوری کا پیسہ واپس لوٹانے میں دلچسپی رکھتی ہے اور نہ ہی اپنے سیاسی ساتھیوں کو چوری سے روکنا چاہتی ہے اور جو کچھ ان سب نے لوٹ لیا ہے اس کو بھی واپس لینے میں پس وپیش کا شکار ہے۔دوسری جانب آئی ایم ایف کے اژدھے کو بھی ہم نے اپنے گلے کی زینت بنایا ہوا ہے۔جو ہماری معیشت کو تیزی سے تباہ کر رہا ہے۔پاکستان کے تمام کے تمام مسائل آئی ایم ایف کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے رہے ہیں۔یہ بھیک کا کشکول ہمارے غیرت مند حکمران کبھی نہیں توڑیں گے۔کیونکہ پھر ان کے چوری کے راستے بلاک ہو جائیں گے۔

وفاق ہائے ایوان صنعت و تجارت نے ریفارمڈ جی ایس ٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آر جی ایس ٹی قوم کے لئے موت کا پروانہ ہے۔حکومت کی طرف سے بر وقت معاشی مسائل کی طرف توجہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے ملک کی صنعتیں بد ترین حالات سے دوچار ہیں۔جبکہ عوام مزید مہنگائی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے ہیں۔آئی ایم ایف کے کشکول سے نجات دلانے کے لئے مقامی اسٹیک ہولڈر کے ساتھ مشاورت کو یقینی بنایا جائے۔اگر فیڈریشن آف پاکستان کو پچاس فیصد بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رکنیت قومی اثاثہ جات اسٹیل مل، ریلوے،پی آئی اے اور واپڈا میں دیدی جائے تو چھ ماہ کے اندر خسارے میں چلنے والے ان اداروں کو منافع بخش ادارے بنائے جا سکتے ہیں۔اس ضمن میں ایف پی سی سی آئی کے صدر سلطان احمد چاﺅلہ کا کہنا ہے کہ ملک میں گڈ گورنس نہ ہونے کی وجہ سے ریفارمڈ جی ایس ٹی قومی مسئلہ بنا ہوا ہے۔اجتماعی طور پر ملک کے تمام چیمبرز آف کامرس کی ایسوسی ایشنز نے بھی متفقہ طور پر ریفارمڈ جی ایس ٹی کو مسترد کر دیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ IMF کا ساتھ پاکستان کے لئے تباہی اور بر بادی کا سفر ہے۔ کیونکہ آئی ایم ایف کے ایماء پر ریفار مڈ جی ایس ٹی لگانے کی بجائے ٹیکس نیٹ ورک میں دیگر سیکٹرز کو شامل کر لیا جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ان تجاویز کو مان لیا جائے تو ہمارے مالی مسائل کسی حد تک حل کیئے جا سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
About the Author: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید Read More Articles by پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید: 285 Articles with 213498 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.