ایک خبر

نواز شریف پر عملی سیاست کیلئے 10سالہ پابندی ختم ہونے میں 12 دن رہ گئے۔

ویسے تو وہ گوشہ حکمرانی کی غلام گردشوں میں بل واسطہ ہیں ہی اور سرکاری زرائع کا بلا روک ٹوک استعمال بھی کر رہے ہیں۔ وکلاء تحریک میں بھی حکمران اتحادی ہونے کے باوجود بڑھ چڑھ کر قوت فراہم کرتے رہے ہیں۔ لیکن آرمی سے کئے گئے معاہدے کا پاس رکھتے ہوئے اسمبلی میں آنے سے اصرار کے باوجود گریز کرتے رہے ہیں۔ ایک سبق جو انہوں نے اپنی آخری حکومت کے گرنے سے سیکھا کہ ملک میں کوئی افرا تفری کا سلسلہ ہو تو فوری باہر نکل لو۔ کہیں پہلے کی طرح گردن نکالنی مشکل ہو جائے۔ ہر وقت سعودی اور امریکی دوست کام نہیں آ سکتے۔ عدلیہ کا آجکل احترام بھی کافی کر رہے ہیں۔ اب وہ پہلے کی طرح عدلیہ پر کارکنان کی چڑھائی بھی نہیں کروا رہے۔ مشرف کے خلاف اپنی حکومت گرانے کے خلاف مقدمات بھی قائم نہیں کر رہے۔ اپنے دوستوں سے کئے گئے وعدوں پر قائم ہیں۔

عدلیہ بھی ان پر عائد الزامات پر پوچھ گچھ نہیں کر رہی۔ ان سے قرض مکاؤ کی مہم کے پیسوں کا حساب بھی نہیں مانگ رہے۔ بینکوں سے لئے قرضوں اور معاف کروانے کا بھی نہیں پوچھ رہے۔ آپ سے رائیونڈ کے محلات اور بیرون ممالک اثاثوں اور دولت کا بھی حساب نہیں پوچھ رہے۔ موجودہ حکمرانوں کے روئیے سے دلبرداشتہ عوام اور عدلیہ حکومت پر تنقید تسلسل سے کر کے ان کے جانے کے دن گن گن کر گزار رہے ہیں۔ اسمبلی میں پچھلے ڈھائی سال سے جعلی ڈگریوں کا تعین بھی نہ ہو سکا ان جعلی ڈگریوں کے حامل پیپلز پارٹی نواز لیگ اے این پی قائداعظم لیگ سب ہی میں ہیں متحدہ اس اعزاز سے محروم ہے۔ اب کسی وقت نئے الیکشن کی کال اسلئے بھی دی جا سکتی ہے کہ اگر تریپن چون افراد کو نا اہل قرار دے کر الیکشن کے بھاری اخراجات اٹھانے سے بہتر ہے کہ نئے الیکشن کرا دئے جائیں۔ اور موجودہ حکمرانوں پر بدعنوانی کے الزام میں الیکشن سے باہر رکھا جائے۔

اب تو ایک ہی آپشن عوام کے پاس رہ جاتا ہے اور وہ ہے نواز شریف یہ ن لیگ کا دیرینہ خواب بھی ہے۔

لیکن عوام پھر قرض مکاؤ مہم پر شائد ہی پیسے دیں۔ گھاس کھا کر ملکی ترقی پر بھی کوئی پیسے دینے کو راضی نہ ہو گا۔ اب ایٹمی دھماکہ دوبارہ تو کر نہیں سکتے۔ عوام ایسا انقلاب چاہتے ہیں جو لٹیروں کو چوراہوں پر عبرتناک سزائیں ہو سکیں۔ قرض ہڑپ کرنے والوں سے پائی پائی وصول کر کے قومی خزانے کو واپس دیں۔ انکی بیرون ملک اثاثوں کی اندرون ملک ترسیل کو یقینی بنائیں۔ جو غیر ملکی مداخلت کا فوری سدباب کر کے انہیں ملکی عملداری سے نکال باہر کرے ورنہ امداد کی آڑ میں کئی اور مغل شہزادے ملکی فضاؤں میں پیدا ہو کر کارگل جیسے ایشو پر اپنی عسکری قوت کو ہدف تنقید بنوائیں گے۔ اس تناظر میں کس شخصیت کی تصویر عوام کو اس سیاسی اکھاڑے میں دکھائی دیتی ہے جسے قیادت کا قلمدان سپرد کرے
کیا نواز شریف اس معیار پر اترتے دکھائی دیتے ہیں۔

قوم اپنے لٹنے کا تشاشہ س طرح دیکھتی رہے گی۔ یا قوم کسی اور نجات دہندہ کے شدت سے منتظر ہیں۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82182 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More