پاکستان چین کے تعاون سے بنائے جانے والے سی پیک ون روڈ
ون بیلٹ منصوبے سے ملکی تعمیر و ترقی کی خوشگوار امید رکھتا ہے۔ سی پیک
منصوبے کے تحت چین اور پاکستان کو سڑکوں، ریلوے، پائپ لائنز اور فائبر
آپٹیکل کیبلز کے 3 ہزار کلومیٹر طویل نیٹ ورک کے ذریعے باہم منسلک کیا جائے
گا۔ منصوبہ چین کے صوبے سنکیانگ کو براہ راست گوادر کی بندرگاہ سے منسلک
کرے گا، جہاں سے چین کو بحیرہ عرب اور پھر دنیا بھر تک رسائی ملے گی۔ سی
پیک سے چین مشرق وسطی سے آنے والی اپنی تیل سپلائی کو پائپ لائنوں کے ذریعے
سنکیانگ تک پہنچائے گا، جس سے ایندھن کی ترسیل پر اس کے اخراجات میں نمایاں
کمی آئے گی۔ سی پیک ایشیا، افریقہ اور یورپ کو ایک سڑک کے ذریعے بڑے معاشی
و اقتصادی منصوبے سے منسلک کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف خطے کے تقریباً
تمام ملکوں نے اس منصوبے میں شرکت کا فیصلہ کیا ہے، بلکہ افریقہ اور یورپ
کے درجنوں ملک بھی اس میں شامل ہوچکے ہیں۔ 500 ارب ڈالر کے اس منصوبے میں
بنگلا دیش کے علاوہ نیپال، افغانستان اور ایران نے بھی شامل ہونے کی خواہش
ظاہر کر کے بھارتی مفادات کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ یہ منصوبہ جہاں چین کے
لیے بہت سے فوئد لیے ہوئے ہے، وہیں پاکستان کی ترقی کا بھی اہم سنگ میل ہے،
لیکن ہمارے دشمن اس منصوبے کو پروان چڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس منصوبے کا
سب سے بڑا مخالف بھارت ہے، جس نے کبھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی
موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس نے نہ صرف ہر پلیٹ فارم پر سی پیک منصوبے
کی مخالفت کی، بلکہ اس کو ناکام بنانے کے لیے کئی منصوبے بھی ترتیب دیے۔
بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے حاضر سروس آفیسر پاکستان سے
گرفتار کیے گئے ایجنٹ کلبھوشن یادیو نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بھارت
نے سی پیک منصوبہ کو ناکام بنانے کے لیے اپنی ایک ٹیم تشکیل دی، جس کا کام
مختلف طریقوں سے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا ہے۔ بلوچستان
میں علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کرنا اور کراچی سمیت ملک بھر میں بدامنی و
دہشتگردی کی وارداتیں کروانا بھی اسی ٹیم کے مقاصد میں شامل تھا، لیکن وہ
سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے میں ناکام رہا ہے۔ بھارتی مخالفت پاکستان سے
تعصب کی بنا پر ہے، ورنہ چین نے تو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں بھارت کو بھی
شمولیت کی دعوت دی تھی اور اِس سلسلے میں چین میں چند ماہ قبل جو عالمی
کانفرنس منعقد ہوئی تھی، اس میں بھارت کو شرکت کے لیے کہا تھا، لیکن بھارت
کی حکومت کا کوئی نمائندہ اِس کانفرنس میں شریک نہیں ہوا،حالانکہ بھارتی
میڈیا بھی اپنے حکمرانوں کو یہ مشورہ دیتا رہا کہ وہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے
میں کیڑے نکالنے کی بجائے خود اس کا حصہ بنے،کیونکہ اِس منصوبے سے دْنیا کے
تین براعظم باہم مربوط ہو رہے ہیں اور چین اس کے تحت برطانیہ کے ساتھ پہلے
ہی تجارت شروع کر چکا ہے۔
سی پیک منصوبے پر بھارت تو معترض تھا ہی،لیکن اب دنیا کا اکلوتا سپر پاور
امریکا بھی ہمارے ازلی دشمن کی زبان بولنے لگا ہے۔ جب سی پیک منصوبے کا
اعلان کیا گیا تھا تو بھارتی قیادت نے علی الاعلان اس کی مخالفت کی تھی اور
یہ دھمکی تک دی تھی کہ وہ اس منصوبے کو مکمل نہیں ہونے دے گی۔ اب اس نے
امریکا کو بھی اس سلسلے میں اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ امریکا نے کسی تحقیق کے
بغیر اِس معاملے میں بھارت کے موقف کی تائید کی ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے
کہا کہ دنیا بھر میں کئی سڑکیں اور گزرگاہیں موجود ہیں، تاہم کسی ملک کو
صرف ایک گزرگاہ اور ایک سڑک کے ذریعے اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنی
چاہیے، لہٰذا امریکا ون بیلٹ ون روڈ کی مخالفت کرتا ہے۔ امریکی وزیر فاع کا
کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے اس منصوبے کی مخالفت کی وجہ یہ بھی ہے کہ
پاکستان سے گزرنے والے اس منصوبے کا ایک حصہ سی پیک کشمیر سے ہوکر گزرے گا،
جو کہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، جو خود کسی تنازع
کو جنم دے سکتا ہے، اس طرح سے وہ خود ہی اپنی کمزوری کو ظاہر کر رہا ہے۔
چین اور پاکستان نے انتہائی موثر انداز میں ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک
منصوبے پر امریکا کا اعتراض سختی سے مسترد کر دیا ہے۔ دونوں ممالک نے واضح
کر دیا ہے کہ سی پیک منصوبہ کسی بھی ملک کے خلاف نہیں، اور اِس سلسلے میں
امریکی حکام کے متنازعہ بیانات علاقائی تقسیم کا باعث بنیں گے اور خطے کے
لیے نقصان دہ ہوں گے۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کا کہنا
ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ(سی پیک) خطے کی ترقی، رابطوں اور
عوام کی بہتری کا منصوبہ ہے۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ واشنگٹن
منصوبے سے خائف ہے، وہ ایک مخصوص ایجنڈے پر کاربند ہو کر اس پر اثر انداز
ہونا چاہتا ہے، جس کا کوئی جواز نہیں۔یہ منصوبہ صرف پاکستان نہیں، پورے
علاقے کی ترقی و خوشحالی کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا جس علاقے کو
متنازع قرار دے رہا ہے، وہ پاکستانی علاقہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ون بیلٹ ون
روڈ منصوبے (سی پیک جس کا ایک اہم حصہ ہے) کو اس خطے، بلکہ پوری دنیا میں
تعمیر و ترقی کے ایک نئے دور کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس سے عام
آدمی کی حالت تو بدلے گی ہی، اس پورے خطے کے ممالک میں ہم آہنگی بھی بڑھے
گی اور علاقائی سطح کے تنازعات طے کرنے کی راہ ہموار ہونے کے امکانات روشن
ہوں گے۔ چینی قیادت نے سی پیک کے خلاف امریکی وزیر دفاع کے بیان کو یکسر
مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاشی تعاون کا منصوبہ ہے، یہ کسی تیسرے فریق
کے خلاف نہیں اور اس منصوبے کا کسی علاقائی تنازع سے بھی کوئی تعلق نہیں۔
امریکی مخالفت بلا جواز ہے۔ 100 سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں
اس میں شامل ہیں اور بھرپور حمایت کررہی ہیں۔ چینی حکومت نے کہا کہ70 سے
زاید ممالک اور عالمی تنظیموں نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے پر چین کے ساتھ
تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور
سلامتی کونسل نے اسے اپنی اہم قراردادوں میں شامل کیا ہے۔ سی پیک کے باعث
مسئلہ کشمیر پر چین کا اصولی موقف کبھی تبدیل نہیں ہو گا۔ یہ بات خوش آئند
ہے کہ چین کی جانب سے اس سلسلے میں پہل کی گئی ہے۔
امریکا کے لیے یہ ایک اچھا موقعہ تھا کہ وہ ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک
منصوبے کی حمایت کرتا،کیونکہ یہ ایسا منصوبہ ہے جو علاقائی تعاون کے سلسلے
میں سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے اور خطے کے لاکھوں لوگ اِس سے مستفید ہوں
گے،بلکہ جہاں جہاں ابتدائی طور پر اِس منصوبے سے منسلک پراجیکٹس مکمل ہو
چکے ہیں، وہاں وہاں لوگ اِس سے پہلے ہی استفادہ کر رہے ہیں، لیکن امریکا نے
بھارت نوازی کا ثبوت دیا ہے۔ سی پیک پر امریکی سیکرٹری دفاع کے اس اعتراض
سے بالآخر امریکا کا خبث باطن آشکار ہو گیا اوریہ واضح ہو گیا کہ پاک چین
اقتصادی راہداری کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ کے پیٹ میں
بھی مروڑ اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ پچھلے چند
ہفتوں میں امریکا کی جانب سے پاکستان پر جو بے جا دباؤ بڑھایا جا رہا ہے،
اس کا مقصد ایک طرف اگر اسے افغانستان میں امریکا کو کندھا فراہم کرنے پر
آمادہ کرنا ہے تو دوسرا سبب سی پیک سے دستبرداری پر مجبور کرنا بھی ہو سکتا
ہے۔ امریکی وزیر دفاع کے حالیہ بیان کو بھارتی پالیسی کا چربہ قرار دیا
جاسکتا ہے، کیونکہ امریکا اب جنوبی ایشیا کے خطے میں بھارتی بالادستی کی
راہ ہموار کر رہا ہے اور اِس مقصد کے لیے اْس نے اپنی نئی افغان پالیسی میں
بھارت کے لیے وسیع تر کردار متعین کیا ہے۔ امریکا ہمارے خطے میں دہشت گردی
کی جو جنگ لڑ رہا ہے، اِس میں بھی اْسے قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو
رہی،یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان میں بھارت کو بھی کردار دینے کی سوچ رہا ہے
اور اِسی مقصد کے لیے ہر معاملے میں بھارت کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔
امریکی قیادت کی جانب سے اوباما دور میں ون بیلٹ ون روڈ کے تصور اور اس کے
تحت پاک چین اقتصادی راہداری کی کوئی مخالفت نہیں کی گئی، جبکہ صدر ٹرمپ کے
ابتدائی ایام میں بھی سی پیک پر کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا، لیکن صدر
مودی کے دورہ امریکا کے بعد جب ٹرمپ انتظامیہ نے حق اور ناحق سے بے نیازہو
کر اپنا پورا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالنے کی پالیسی اپنائی تو اسے نہ تو
کشمیر یوں سے کیا گیا حق خود ارادی کا وعدہ یاد رہا اور نہ ان پر ڈھائے
جانے والے مظالم کسی توجہ کے مستحق رہ گئے، حالانکہ پاکستان ستر سال سے
واویلا کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ اس
ریاست کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے جو ریاست کا پاکستان کے
ساتھ الحاق چاہتے ہیں، بھارت نے وہاں سات لاکھ فوج مسلط کر رکھی ہے، جو
نہتے کشمیریوں پر رات دن ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑتی رہتی ہے۔ حیرت کی بات ہے
کہ سی پیک کے حوالے سے تو امریکا کو کشمیر کا متنازعہ علاقہ نظر آ گیا ہے،
مگر مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ نظر نہیں آیا۔
امریکا نے پہلی بار سی پیک کی کھلی مخالفت کی ہے، جس نے پاکستان اور امریکا
کے درمیان محاذ آرائی میں اضافہ ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا اور
اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور چین کے درمیان چپقلش بھی بڑھے گی۔امریکا کے سی
پیک سے متعلق بیان پر نہ صرف پاکستان اور بھارت کے پہلے سے کشیدہ تعلقات
میں مزید کشیدگی آئے گی، بلکہ خود پاکستان اور امریکا کے تعلقات بھی خراب
ہوں گے، جو پہلے ہی سرد مہری کا شکار ہیں۔ پاکستان نئی افغان پالیسی میں
بھارت کے کردار کو مسترد کر کے امریکا پر واضح کر چکا ہے کہ یہ کردار قابلِ
قبول نہیں،کیونکہ پہلے ہی بھارت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے
لیے استعمال کر رہا ہے۔ کچھ عرصے سے پاکستان نے امریکا کے بے جا مطالبات سے
تنگ آکر امریکی جنگ سے نکلنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ پاکستانی
حکام دو ٹوک الفاظ میں امریکا کو جواب دے رہے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم شاہد
خاقان عباسی نے بھی کہا ہے کہ وہ وقت گزر گیا ہے جب پاکستان اپنی فوجی
ضروریات پوری کرنے کے لیے امریکا پر انحصار کرتا تھا۔ہمار ے خلاف کوئی بھی
پابندی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کمزورکرتی ہے۔ دنیا دہشتگردی کے خلاف جنگ
میں پاکستانی کوششوں کا اعتراف کرے۔ موجودہ حالات میں امریکا کے لیے
پاکستان کے خلاف پالیسی بنانا اس کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔ اگر امریکا
دوبارہ افغانستان پر اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے تو وہ اس کے پڑوسی ملک
پاکستان کو تنہا چھوڑنے اور اسی اثنا میں ہندوستان اور افغانستان سے ہاتھ
ملانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ امریکا افغانستان میں سولہ سال بعد بھی ناکام
ہے۔ اب اسے کچھ ہی عرصے بعد یہاں سے بھاگنے کے لیے محفوظ راستے کی ضرورت
ہوگی جو یقینا پاکستان کے تعاون سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ امریکا کچھ کروڑ
ڈالر امداد کی وجہ سے اب پاکستان کو دبا کر نہیں رکھ سکتا۔ پاک چین تعلقات
کی قدر و قیمت اب 110 ارب ڈالر بن چکی ہے اور رواں سال تقریباً 4 ارب ڈالرز
ملنے کی توقع ہے اور وہ اربوں ڈالرز بڑی آسانی کے ساتھ مل جاتے ہیں، جبکہ
90 کروڑ ڈالرز کی خاطر پاکستان امریکا کے ساتھ ناپائیدار اور بے مہر تعلقات
کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ ٹرمپ کے لیے عقلمندی اسی میں ہوگی کہ وہ چین کے ساتھ
سازگار تعلقات بنائیں اور پھر اس کے ذریعے پاکستان کے ساتھ تعلقات
سنبھالیں۔ چین پاکستان میں اب وہ طاقت اور اثر و رسوخ رکھتا ہے جو امریکا
کو کبھی یہاں حاصل نہیں رہا۔ |