فلسطینی اور اسرائیلی میڈیاسمیت عرب ممالک سے آنے والی
رپورٹ میں بتایا جارہاہے کہ حال ہی میں اسلامی تحریک مزاحمت کی مرکزی قیادت
نے الشیخ صالح العاروری کا جماعت کے سیاسی شعبے کا نائب صدر مقرر کیا ہے۔
العاروری کو حماس کا نائب صدر منتخب کیے جانے پر اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں
واویلا مچایا گیا تو دوسری طرف صہیونی حکومت، سیاسی اور عسکری حلقوں میں
بھی شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ کی رپورٹ
کے مطابق اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگاروں اور سیاسی رہ نماؤں نے العاروری کو
حماس کے کلیدی عہدے پر تعینات کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار ’الیؤر لیوی کا کہنا ہے کہ العاروری اسرائیل کیخلاف
فلسطینیوں کی مسلح کارروائیوں کا ماسٹر مائیڈ ہے۔ اسے حماس کا دوسرا اہم
ترین عہدہ سونپا اس بات کا ثبوت ہے کہ حماس اپنے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی
کی راہ پر گامزن ہے۔ اس اسے قبل حماس نے غزہ کی پٹی میں اسماعیل ھنیہ کی
جگہ ایک عسکری کمانڈر یحییٰ السنوار کو غزہ میں حماس کا سربراہ مقرر کیا جب
کہ اسماعیل ھنیہ کو جماعت کے سیاسی شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔خیال
رہے کہ حماس کی جانب سے گذشتہ جمعرات کو یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جماعت کی
قیادت نے صالح العاروری کو سیاسی شعبے کا نائب صدر منتخب کیا ہے۔ العاروری
ماضی میں اسرائیل کی جیلوں میں قید رہنے کے ساتھ ساتھ رہائی کے بعد جلا وطن
بھی رہے ہیں۔
مسٹر لیوی نے العاروری کی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ وہ
غرب اردن میں پیدا ہوئے اور 18 سال اسرائیلی جیلوں میں قید کاٹی۔ روہ روانی
کے ساتھ عبرانی زبان بولتے ہیں۔ انہوں نے تیزی کے ساتھ حماس کی قیادت کی
سیڑھیاں چڑھیں۔ وہ شام کے بعد قطر میں رہے اور اب ترکی میں قیام پذیر ہیں۔
وہ ماضی میں لبنان میں بھی رہ چکے ہیں جہاں ان پر مسلح کارروائیوں کی
منصوبہ بندی کا الزام عاید کیا جاتا رہا ہے۔اسرائیلی تجزیہ نگاروں کے مطابق
العاروری کو حماس کا نائب صدر منتخب کیے جانے پر اسرائیل تشویش میں مبتلا
ہوگیا ہے کیونکہ العاروری سیاسی سے زیادہ عسکری ذہن رکھتے ہیں۔
’این آر جی‘ ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون میں ’آساو گیبور‘ نے لکھا کہ 51
سالہ العاروری کئی ماہ سے حماس کی مرکزی قیادت میں سرگرم چلے آرہے ہیں۔
انہیں حماس میں اعلیٰ سیاسی اور عسکری عہدوں پر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔
اسرائیل العاروری پر غرب اردن میں حماس کے عسکری ونگ کے قیام اور اسے مضبوط
بنانے کے ساتھ کئی عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کا الزام عاید کرتا ہے
تاہم حماس نے انہیں سنہ 2011ء میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے میں
فلسطینیوں کی رہائی کے لیے ڈیل کی ذمہ داری بھی انہیں سونپی گئی
تھی۔اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق اسرائیل کے عسکری حلقوں میں العاروری کے
بارے میں سوچ واضح ہے۔ انہیں اسرائیلی عسکری حلقے ایک ذہین اور اسٹریٹیجک
ویڑن کا حامل شخص قرار دیتے ہیں۔ ان کا شکار ایران کے مقربین میں ہوتا۔ یہی
وجہ ہے کہ وہ حماس کے عسکری ونگ کیلئے ایران کی طرف سے کامیابی کے ساتھ
معاونت حاصل کرتے رہے ہیں۔
اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگار یوآف لیمور نے اخبار ’اسرائیل ٹوڈے‘ میں لکھے
اپنے مضمون میں العاروری کو مضبوط اعصاب کا مالک قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ
العاروری کو حماس کے نائب صدر کے عہدے پر فائز کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ
حماس غرب اردن میں اپنا کنٹرول مضبوط بنانا چاہتی ہے۔ حماس کے نائب صدر
العاروری اگرچہ اس وقت غرب اردن میں موجود نہیں مگر ان کی ذہانت، تزویراتی
حکمت عملی غرب اردن میں حماس کی مضبوطی کے ذریعے اسرائیل کے لیے درد سر کا
باعث بن سکتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ العاروری کو حماس کا نائب صدر منتخب کرکے
یہ اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ جماعت کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ
بیرونی دنیا سے رابطوں کے بجائے غزہ کی پٹی میں قیام اور توجہ کو ترجیح دیں
گے اور ان کی جگہ بیرونی دنیا سے رابطوں کے لیے العاروری کو استعمال کیا
جائے گا۔اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ العاروری کے انتخاب سے حماس کی
عسکری پالیسی میں کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ وہ کئی سال تک
اسرائیلی جیلوں میں قید رہ چکے ہیں۔ انہیں قریب سے جاننے والے جانتے ہیں
العاروری ایک سخت گیر مذہبی رہ نما اور شدت پسند ہیں۔اسرائیل کے عبرانی ٹی
وی 10 کے فلسطینی امور کے تجزیہ نگار ’سیمانتوف فیری‘ کا کہنا ہے کہ
العاروری کا بہ طور حماس کے نائب صدر کے انتخاب اسرائیل کے لیے بھی ایک
پیغام ہے۔ حماس اگرچہ فلسطینی دھڑوں کے ساتھ مصالحت کی پالیسی پرعمل پیرا
ہے مگر وہ اعتدال پسندی کے بجائے اپنی عسکری پالیسی پر قائم ہے۔ العاروری
کے انتخاب کے بعد کسی قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حماس نے اسرائیل کو العاروری کو اہم عہدہ سونپ کر یہ
پیغام دیا ہے کہ جماعت پورے ارض فلسطین سے اسرائیل کو نکال باہر کرنے اور
اسرائیلی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے اپنے عزم پر قائم و دائم ہے۔ |