کیپٹن صفدر کی قے

ابھی حلف نامے اور اقرار نامے کا معاملہ کنارے لگا ہی تھا کہ ایک بار پھر کیپٹن صفدر نے اسی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا جو وہ ماضی میں بھی کئی بار کر چکے ہیں۔ میدانِ سیاست میں خود کو اونچا اور نمایاں کرنے کے لیے اوچھے طریقے اختیار کرنا ہمارے ہاں کی روایت ہے۔ اگرچہ کسی خاص مسلک، مذہب یا عقیدے کو نشانے پہ رکھ کر تیر چھوڑنے سے کوئی اپنے محب وطن یا محب دین ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتا لیکن اس طریق پر سادہ لوح عوام کی ہمدردی خوب سمیٹی جا سکتی ہے اور شاید کیپٹن صفدر کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا جس کے لیے وہ ایوان میں خاصا وقت بولتے رہے۔ ان کی تقریر کو اگر قے سے تعبیر کیا جائے تو زیادہ اچھا ہو گا۔ حیرت اس بات پہ ہوئی کہ ایوان میں اتنی شدت پسندی کے اظہار کو بڑی توجہ دی گئی اور اسپیکر نے کہیں بھی ٹوکنے یا روکنے کی تکلیف گوارا نہیں کی بلکہ انھوں نے کیپٹن صاحب کو ایوان میں اتفاقِ رائے کے لیے راستہ بھی دکھا دیا۔

کیپٹن صاحب پرانے ’عاشقِ رسول‘ ہیں۔ ان کا دعویٔ عشق اب تک تو زبانی ہی نظر آ رہا ہے۔ عملی میدان میں تو ان سے کچھ کرامات ابھی تک ملک خداداد کی عوام کو دیکھنے میں نہیں ملیں۔ یہ وہی کیپٹن صفدر ہیں جو ممتاز قادری کی حراست کے دنوں میں مساجد میں خطاب کیا کرتے تھے اور عشقِ رسول کے واقعات سنا کر لوگوں کے دل گرمایا کرتے تھے لیکن انھی کے سسر صاحب کی حکومت میں ممتاز قادری پھندے لگ گیا اور انھی کی جماعت کے بنائے صدر نے بھی اسے معافی کے قابل نہ جانا۔ اب کوئی ان صاحب سے پوچھے کہ جب ممتاز قادری کو پھانسی پہ لٹکایا جا رہا تھا تو آپ نے اس وقت ایوان کی رکنیت کیوں نہیں چھوڑ دی؟ لیکن شاید یہ عشقِ رسول میں اتنے پکے نہ ہوئے تھے کہ اپنے سسر جی کی حکومت سے باغی ہوتے یا پھر عشق کی لو بجھ گئی تھی۔ اب جبکہ صاحب گرفتاری کے بعد ضمانت لے کر ایوان گئے ہیں تو انھیں احساس ہوا کہ ملک کو ایک عقیدے کے ماننے والوں سے سخت خطرہ ہے اس لیے اس بات سے عوام کے نمائندوں کو آگاہ کرنا چاہیے اور ملک و دین کے تحفظ کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ کیپٹن صاحب سمجھتے ہیں کہ اب وہ لوگ ہر محکمہ میں نہ صرف گھس چکے ہیں بلکہ اعلی نشستوں پہ بھی قابض ہیں۔ اور ان کی روک تھام کے لیے ان پابندیاں لگانی چاہیے کہ نہ تو وہ فوج میں بھرتی ہو سکیں ا ور نہ ہی ’اٹامک انرجی‘ ایسے حساس ادارے میں۔ کیپٹن صاحب کو ان تمام نمایاں لوگوں پہ بھی دکھ ہے جو پاکستان میں اعلی سطحوں پہ رہ چکے ہیں ان میں فوجی بھی ہیں اور سویلین بھی ہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ احمدی برادری پہ حملہ کیا جائے تو ڈاکٹر عبدالسلام پہ تبرا نہ کیا جائے۔ سو کیپٹن صفدر نے ڈاکٹر صاحب سے منسوب قائداعظم یونیورسٹی کے ایک شعبہ کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ بھی بڑی شد و مد سے کیا ہے۔ جب انسان نیچے اترتا ہے تو بہت ہی نیچے اتر جاتا ہے۔ گرنے والے کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کتنی گہرائی میں گر رہا ہے۔ ن لیگ ماضی میں بے نظیر بھٹو کے خلاف جو گھٹیا مہم چلاتی رہی تھی اب وہی سوشل میڈیا پہ تحریکِ انصاف کے کچھ لوگوں کی شکل میں ان کے سامنے آئی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود شاید اس جماعت نے کچھ سیکھا نہیں ہے اور کیپٹن صفدر نے ایسا ہی وار احمدی برادری پہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ لوگ اپنی بیٹیاں اونچے گھروں میں بیاہ دیتے ہیں اور پھر بیٹیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ کیپٹن صفدر شاید بھول گئے ہیں کہ اس عوام کا حافظہ اتنا کمزور نہیں۔ سابق وزیراعظم کے داماد ایسے مقام پہ کھڑے ہیں جہاں سے دوسرے کی جانب جو بھی پھینکے گئے پلٹ کے اپنی سمت ہی آئے گا۔ افسوس ہے ان تمام خاموش اراکین پہ جو ایوان میں بیٹھے تھے خواہ وہ حزبِ اقتدار میں سے ہوں یا حزبِ اختلاف میں سے۔ ایک شخص ایوان میں کھڑا ہو کر نفرت اور انتہاپسندی کو فروغ دے رہا تھا اور ہمارا ایوان اس پہ احتجاج نہ کر پایا؟ حکومتی جماعت کے ترجمان اس ساری گفتگو کو کیپٹن صفدر کی ذاتی رائے قرار دے کر محفوظ راستہ لینے کی کوشش ہی کریں گئے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا احسن اقبال اپنے تازہ بیان کی روشنی میں کیپٹن صفدر کا بھی حساب کتاب کریں گئے یا انھیں آزادی ہے کہ جس پہ چاہیں فتوے جاری کریں؟ جسے چاہیں ملک دشمن، دین دشمن قرار دیں۔ کیپٹن صفدر کی گفتگو کسی عام آدمی کی گفتگو نہیں ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی تقریر ہے جو عوام کا نمائندہ ہے اور جو اس گھرانے کا فرد ہے جو ایک طویل عرصہ سے اس ملک کی سیاست میں بڑا حصہ دار چلا آ رہا ہے۔ اس گفتگو کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ سب کسی بیک ڈور حکومتی پالیسی کا حصہ تو نہیں۔ کیا این اے ۱۲۰ کے نتائج نے ن لیگ کو ملائیت سے قربت کا راستہ تو نہیں دکھا دیا۔ یا پھر کہیں ایسا تو نہیں کہ کیپٹن صفدر کے لیے اس گھرانے سے تعلق ایک بوجھ بن چکا ہے اور اب وہ خود اس گھرانے سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں کسی براہِ راست فیصلہ کی ہمت یا جرات نہ رکھنے کی وجہ سے ذیلی راستے لے رہا ہے۔ کہ ایسے میں نقصان تو ہو گا لیکن معتبری کے ساتھ ہو گا۔ حقائق کیا ہیں جلد ہی سامنے آ جائیں گئے لیکن اس معاملے کی ظاہری نوعیت ایسی ہے کہ اس پہ آئینی و قانونی طور کارروائی ہونی چاہیے۔ کسی بھی شخص کو یہ حق نہیں حاصل کہ اس ملک میں بسنے والے انسانوں میں تفریق کرے۔ پاکستان میں کسی شہری کو عقیدے کی بنا پہ اپنے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ ماضی میں یہی ایوان ایک عقیدے کو جب اقلیت قرار دے چکا ہے تو اس کے بعد اس عقیدے کے ماننے والوں پہ مزید زمین تنگ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا یہ کم ہے کہ آپ نے ان لوگوں سے وہ شناخت چھین لی ہے جو انھوں نے خود اپنے لیے پسند کی ہے؟ اور اب آپ چاہتے ہیں کہ ان پہ ملازمتوں کے دروازے بھی بند کر دیے جائیں۔ کیا جناح کے پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پہ لوگوں کو بنیادی حقوق دیے جانے تھے؟ اگر ریاست اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتی تو اسے چاہیے کہ اقلیتوں کو پاکستان سے کوچ کر جانے کا حکم جاری کر دے۔ اور اس کے بعد جو مسلمان اس ریاست میں بچ جائیں تو ان میں مزید چھانٹی کے لیے باریک چھلنی سے کام لیا جائے تا کہ مزید صفائی ممکن ہو سکے۔ اور اس عمل میں کیپٹن صفدر کی خدمات لی جا سکتی ہیں کہ ایک ویڈیو میں وہ بریلوی مسلک اور وہابیت کے درمیان بھی انصاف کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔

کاش کہ وہ دن آئے جب اس ملک میں کسی کو اس کے عقیدے، نظریے یا سوچ کی بنیاد پہ نفرت کا نشانہ نہ بننا پڑے۔ وہ دن کہ جب اس ملک کی دیواروں پہ کسی فرقہ کے لیے کافر کے نعرے نہ لکھے ہوں۔ وہ دن کہ جب ریاست کسی کی مذہبی وابستگی کو پہلے جہاد اور بعد میں دہشت گرد قرار نہ دے۔ اور سب سے اہم وہ دن کہ جب ریاست اور حکومت سے اختلاف کرنے والوں کو برداشت کیا جائے گا۔ ان کی بات سنی جائے گی اور انھیں مطمئن کیا جائے گا۔ لیکن ابھی وہ دن بہت دور ہیں۔ ابھی منافرت کو پھیلایا جائے گا۔ مذہب کی چھڑی سے معصوموں کو ذبح کیا جائے گا اور آواز اٹھانے والوں کو اٹھا لیا جائے گا۔

Kashif Butt
About the Author: Kashif Butt Read More Articles by Kashif Butt: 25 Articles with 17845 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.