بارہ اکتوبر کا سبق؟

 آج سے کامل اٹھارہ برس اُدھر کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ تھا۔ جب جمہوری حکومت پر شب خون مارا گیا، جب قانون، اصول اور اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر عمل کیا جائے تو پھر کونسی رکاوٹ راستہ روک سکتی ہے؟ تب مسلم لیگ ن کے پاس بھاری مینڈیٹ تھا، شاید پاکستان کی تاریخ میں مسلم لیگ اس قدر متحد، مقتدر اور فعال کبھی نہ تھی۔ مگر پرویز مشرف کے فوجی قبضے کے نتیجے میں اس کے دانے بکھر گئے، سال بھر تو میاں صاحب کو جیل کی ہوا کھانا پڑی، تب تک پارٹی نے کمزوری ضرور دکھائی مگر متحد تھی، مگر جونہی میاں صاحب کسی خفیہ معاہدہ کے نتیجے میں ایک سو ایک صندوقوں ،اپنے اہلِ خانہ اور بہت سے خدمت گاروں کے ہمراہ راتوں رات جدہ روانہ ہوگئے تو بہت قریبی لوگوں کو بھی اس کی خبر اگلی صبح ہی ملی۔ پھر کیا تھا، اس مقدس تسبیح کے دانے ایک ایک کر کے گرنے لگے، جو باقی بچے وہ بہت ہی غیر فعال ہوگئے، اگر کسی نے زیادہ تیزیاں دکھانے کی کوشش کی تو اسے جاوید ہاشمی کی مانند سرکاری مہمان قرار دے دیا گیا، اپنے ہاں مخالفین کو راہِ راست پر لانے کے لئے یہ آزمودہ نسخہ ہے۔ میاں صاحبان کی جلا وطنی سے پارٹی عرصہ امتحان میں رہی، بیگم کلثوم نواز نے بھی پریشانی کے اُن دنوں میں پارٹی کو بہت سہارا دیا، مگر دانے بکھر جانے اور مایوسی پھیل جانے کا موسم تھا، سو معاملات زیر زمین چلے گئے، کسی اچھے وقت کے انتظار میں طویل خاموشی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

اپنے ہاں مارشل لاؤں نے چونکہ تین دہائیوں تک پاکستان کی حکومتوں پر دسترس حاصل رکھی ہے، مگر ہر مارشل لاء نے کسی سیاسی پارٹی پر ہاتھ ضرور رکھا، یا یوں کہیے کہ دکھاوے کے لئے سیاسی پارٹی کو استعمال کیا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہوئی کہ تینوں مارشل لاء کے زمانے میں اگر آمریت نے سیاست کا سہارا لیا اور کسی پارٹی کا نام استعمال کیا تو وہ مسلم لیگ تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ مسلم لیگ سے وافر افراد حکومت کرنے کے لئے دستیاب ہو جاتے ہیں، شاید ان کی اپنی پارٹی کے ساتھ قربت بہت زیادہ نہیں ہوتی، یا وہ پارٹی کے ساتھ یک جان دو قالب نہیں ہوتے، یا دیگر پارٹیاں اس قسم کی ’قربانی ‘دینے پر آمادہ نہیں ہوتیں؟ جیسا بھی ہے اور جو بھی ہے، یہ بات طے ہے کہ مارشل لاء کو مسلم لیگیں ہی راس آئیں، میسر آنے والے لوگ بھی گھر تبدیل کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے رہے۔ پارٹیاں بدلنے کے کلچر کو مارشل لاؤں نے فروغ دیا، ورنہ بہت عرصہ کوئی فرد ایک ہی پارٹی میں زندگی گزار دیتا تھا۔ پھر درمیان والے مارشل لاء کہ جس میں میاں نواز شریف کا ظہور ہوا، کے بعد پارٹیاں بدلوانے والے سیاستدان سامنے آئے، میاں نواز شریف نے بعد ازاں وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے لئے ممبرانِ اسمبلی کو رام کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے، انہیں مختلف علاقوں کی سیر کروائی گئی، ان کو تفریحی علاقوں میں کئی روز تک (بلکہ الیکشن کے روز تک) قیام وطعام کی سہولت دی، بریف کیس کے چرچے ہوئے، آئندہ کے لئے یہ دوسروں کے لئے مثال بن گئی۔

ارکان اسمبلی کی خرید وفروخت وغیرہ کی بنیاد میاں نواز شریف نے ہی رکھی تھی، اور پرویزی مارشل لا کے نتیجے میں یہ فارمولا انہی پر آزمایا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے اکثر پرندے اڑان بھر کر شجرِ اقتدار کی شاخوں میں پناہ گزیں ہوگئے، میاں صاحب اور ان کی یہاں مقیم قیادت بہت ہاتھ ملتی رہی، مگر بے بسی میں ان کی کسی نے نہ سنی۔ حالات نے پلٹا کھایا ، جلاوطنی کے دن پورے ہوئے، میاں برادران واپس آگئے، الیکشن میں پی پی کو اکثریت مل گئی۔ اگلے الیکشن میں ’’باری کلچر‘‘ کے مطابق بھی مسلم لیگ ن کی باری تھی، ایسے ہی ہوا، اقتدار کا ہُما ایک مرتبہ پھر شریف برادران کے سر پر بیٹھ گیا۔ میاں نواز شریف نے واپسی پر اپنے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ برے وقت میں ہمیں چھوڑ گئے ہیں، ہم انہیں کبھی قبول نہ کریں گے، مگر وہ اپنے اس قول اور دعوے پر زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکے، ان کی حکومت چھیننے والے حکمرانوں کی کچن کابینہ کے لوگ بھی آہستہ آہستہ قریب ہوتے گئے اور ایک ایک کرکے اپنی جگہ بناتے گئے، اس وقت بھی نصف درجن کے قریب وزیر یا مشیر یا اہم عہدیدار حکمرانوں کے بالکل قریب ہیں، جو مشرف کے بھی خاص تھے۔ تب وہ مشرف کے لئے دلائل دیا کرتے تھے، اب یہاں مصروف ہیں، بس اتنا سا ہی ہے بارہ اکتوبر کا سبق۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428374 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.