اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے جو مکمل ضابطہ حیات ہے ۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو ایک بے مثال معاشرہ اور ایک عمدہ تہذیب و ثقافت
کے ساتھ ساتھ بے نظیر رسوم ورواج دیتا ہے۔ فرزندان اسلام اس پر جتنا فخر
کریں وہ کم ہے کہ انہیں اسلام نے خداوند متال کی پہچان عطا کی اور محبوب
خدا ﷺ کا امتی ہونے کا شرف بخشا اور ’’تم بہترین امت ہو‘‘ کا سہرا اس امت
کے سر سجایا۔ اس امت کا طرہ امتیاز قرآن نے بیان کیا کہ نیکی کا حکم دیتے
ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ اور یہی ارض پاک پر رب ذوالجلال کے نظام
وانصرام کو چلانے کا بہترین طریقہ ہے۔
آج کے مادی اور مادر پدر آزاد معاشرے میں اسلام صرف زبان پر رہ گیا اور
عملی طور پر مسلمان اسلام کے حقیقی انعامات اور حقیقی لذتوں سے محروم ہوچکے
ہیں۔ ہر طرف بے راہ روی اور فتنوں کی یلغار نظر آتی ہے۔ فحاشی وعریانی نے
امت مسلمہ کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ فحاشی وعریانی سے پیدا ہونے والے
فتنوں کا آسیب آج ہر مسلمان گھر میں نظر آتا ہے (الاماشاء اﷲ) مغربی یلغار
فیشن کی صورت میں پھیلاتی جارہی ہے اور مسلمان جہالت میں مثل اندھے بھٹک
رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں…… اور ہوبھی کیسے؟ جب مسلمان اسلام
سے دور ہوتا جائے گا۔
اس مادی دور میں اﷲ اور اس کے رسول کی تعلیمات اور ان کو پہنچانے والوں کا
مذاق اڑایا جارہا ہے اور ان پر پرسماندگی کی چھاپ لگا کر اور دوسروں میں ان
کی تشہیر کرکے ان سے متنفر کیا جا رہا ہے۔ جس امت کا شعار میں تھا کہ صبح
کا آغاز نماز فجر اور تلاوت کلام الٰہی سے ہو وہ آج نیند کو ان پر فوقیت دے
کر سورہے ہیں اور اپنی تہذیب وتمدن کو بھول کر مغربی فیشن کو اپنا حق تسلیم
کررہے ہیں۔
فیشن جسے لغت عربیہ میں ’’زینت‘‘ کا نام دیا گیا اسلام اس کے خلاف ہرگز
نہیں لیکن ہادی برحقﷺ نے تمام معاملات میں گواہ وہ مذہبی ہوں یا معاشرتی
ایک حد بندی فرمائی ہے۔ اگر اسلام کی مقرر کردہ حدود میں رہ کر زینت کو
اپنایا جائے تو اس میں کوئی عیب نہیں۔ بلکہ اسلام جسم کی خوبصورتی کے ساتھ
ساتھ اخلاقی حسن کی تعلیم دیتا ہے۔ ناخن تراشنا، بال بنوانا، اچھا لباس
پہننا وغیرہ وغیرہ اسلام اس کے متعلق حکم صادر فرماتا ہے۔
اسلام ایک وسیع ہدایات کا حامل دین ہے جو اپنے ماننے والوں کو رہبانیت کی
اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اپنے آپ کو پراگندہ بال، گردآلود چہرہ، جسم پر
موٹا ٹات اور معاشرے سے لاتعلقی کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ
حیات ہے اور صفائی ستھرائی کو اہمیت دیتا ہے۔ فرمان مصطفیﷺ کا مفہوم ہے کہ
’’اﷲ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے‘‘
امت مسلمہ کے لیے نبی برحق ﷺ کی زندگی اسوہ حسنہ ہے۔ اچھا لباس پہننا،
خوشبو لگانا وغیرہ یہ سنت نبوی ﷺ بھی ہے اور معاشرے کا حسن بھی، عورتوں کو
اجازت دیتا ہے کہ وہ بناؤ سنگار کریں لیکن اپنے شوہر کے لیے، زیور سے خود
کو آراستہ کریں۔ مرد چار ماشے سے کم ایک نگینے والی انگوٹھی پہنے،
وہ فیشن اسلام کے منافی اور تباہی ہیں جس میں اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی
تعلیمات کے منافی راستہ اپنایا جائے اور اسی زینت (فیشن) پر رسول خدا ﷺ نے
وعید بھی سنائی مشکوۃ المصابیح میں ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ’’ معراج کی
رات مجھے بہت بلندی پر پہنچا دیا گیا میں جہنم کا مشاہدہ کررہا تھا کہ میں
کچھ مردوں کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ ان کے بدن آگ کی قینچیوں سے کاٹے
جارہے تھے۔ میں نے پوچھا جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟ جو اتنی اذیت میں مبتلا
ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں، کوئی ان کی فریاد رسی کرنے والا نہیں ہے۔
جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی یارسول اﷲﷺ یہ وہ مرد ہیں جو دنیا میں
ناجائز زینت اختیار کرتے تھے۔ ‘‘ علاوہ ازیں بے شمار وعیدیں اسے فیشن کے
بارے میں کتب احادیث میں ملتی ہیں جو تعلیمات اسلام کے منافی ہے۔ چند ایک
کا ذکر ذیل میں درج ہے
جس طرح ناجائز زینت پر وعید وارد ہوئی ویسے ہیں جائز زینت پر اجر کا اعلان
ہے۔ خوشبو لگانا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے اور مسلمان مردوں کو
حکم دیا گیا کہ بے رنگ خوشبو استعمال کریں لیکن عورتوں کو اس سے منع کیا
گیا۔ عورتوں کو مطلقاً خوشبو سے منع نہیں کیا گیا ایسی بے رنگ خوشبو جو غیر
محرم تک نہ پہنچے اسے لگانے کی اجازت ہے اگر غیر محرم تک پہنچے تو اور اسے
گناہ کی طرف مائل کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اسلام اس کو ناجائز قرار
دیتا ہے اور حلال زینت کو چھوڑ کر حرام زینت کو اختیار کرنے والی عورتوں کو
بدبودار گڑھے میں پھینکا جائے گا۔
قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین شکل
میں پیدا فرمایا اب اگر کوئی عورت مصنوعی حسن کو ترجیح دیتی ہے مثلاً ابرو
باریک کرواتی ہے یا چہرے کے بال نوچتی ہے تو اﷲ تعالیٰ نے ایسی عورتوں پر
لعنت فرمائی ہے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ ایک دفعہ صحابیات کو غیر
شرعی فیشن کی یلغار سے بچنے کے لیے قرآن وحدیث کے جوہر کی مالا پرورہے تھے
آپ نے ایسے فیشن کے بارے دلائل کے بعد فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو
مصنوعی بال لگانے والیوں اور لگوانے والیوں پر اور اﷲ کی لعنت ہو گودنے
والیوں اور گدوانے والیوں پر پلکوں کے بال نوچنے اور نچوانے والیوں پر اور
دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں اور اﷲ کی پیدا کردہ صورت میں تبدیلی کرنے
والوں پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ ‘‘ اور آج کی خواتین فیشن کے نام پر پلکنگ،
تھریڈنگ، باڈی ویکسنگ وغیرہ وغیرہ سے یہی کام کررہی ہیں ۔ یاد رہے کہ عورت
کا دوسری عورت سے پردہ ہے کوئی عورت بغیر کسی ضرورت شرعی دوسری عورت کے
سامنے اپنا ستر نہیں کھول سکتی۔ باڈی ویکسنگ کے نام پر دوسری خواتین کے
سامنے اپنا ستر کھول کر ان سے بال نچوانا یہ غیر شرعی اور غیر اخلاقی فعل
ہے۔
شادی شدہ خواتین فیشن کرنے کے لیے شوہر کی رضا مندی یا خوشنودی کی آڑ بناتی
ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم یہ سب کچھ اپنے شوہر کی رضامندی کے لیے کرتی ہیں
اور غیر شرعی فیشن کرکے شوہر کے ہمراہ پروگرام جات میں شریک ہوتی ہیں۔ ان
کے لیے اس بات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ عورت پر سب سے پہلا حق اﷲ اور
اس کے رسولﷺ کا شوہر کی اطاعت صرف ان کاموں میں ہے جس میں اﷲ اور اس کے
رسولﷺ کی نافرمانی نہ ہو۔ ایسی خواتین کو فرمان نبویﷺ یاد رکھنا چاہیے جس
کا مفہوم ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا ’’جس کام میں اﷲ کی نافرمانی ہو ان میں
مخلوق کا کہنا نہ مانا کرو (خواہ وہ ماں باپ اور شوہر ہی کیوں نہ ہو)۔
قرآن کریم کی سورۃ النور میں ارشاد خداوندی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اور
عورتیں اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں کہ ان کا چھپا ہوا سنگھار جانا جائے‘‘
اس آیت مقدسہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو راستے میں غیر محرموں کے سامنے
پروقار چال سے چلنا چاہیے تاکہ وہ کسی کی توجہ کا مرکز نہ بن جائیں۔ لیکن
اگر خواتین پازیب، گھنگھرو اور بجنے والا زیور پہنیں گی تو یقیناً اس آیت
مقدسہ کے خلاف ان کا عمل ہوگا اور وہ عذاب خداوندی کی مستحق ٹھہریں گی۔
خواتین تو زینت کو پسند کرتی ہیں لیکن آج کے معاشرے کے مرد بھی فیشن میں
خواتین سے کم دکھائی نہیں دیتے وہ بھی اسلامی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فیشن
کرتے ہیں۔ کبھی خواتین جیسے بال رکھتے ہیں تو کبھی داڑھی کا مختلف ڈئزائن
بنواتے ہیں۔ گلے میں چین اور کانوں میں بالیاں ڈالتے ہیں۔ نبی آخرالزاماں ﷺ
کے فرمان کا مفہوم ہے کہ اﷲ ایسے مردوں پر لعنت فرماتا ہے جو خواتین جیسے
لباس پہنچتے ہیں اور ایسی خواتین پر لعنت فرماتا ہے جو مردوں جیسا لباس
پہنچتی ہیں ۔
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم نے ایک دفعہ دوران خطاب فرمایا کہ
’’اے لوگو میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ راہبوں کا لباس
پہننے سے اجتناب کرو کیونکہ جس شخص نے رہبانیت اختیار کی یا راہبوں کے
مشابہہ بنا وہ میرے طریقہ محمودہ یا میرے دین پر نہیں ہے‘‘ لیکن آج داڑھی
کا فیشن کے نام پر مسخر اڑایا جارہا ہے جب کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ
تعالیٰ نے مردوں کو داڑھی کے ساتھ اور عورتوں کو مینڈھیوں کے ساتھ زینت
بخشی۔ مردوں کا ہاتھ میں کنگن پہننا حرام ہے یہ سکھوں کا طریقہ ہے۔ ہاتھ پہ
دھاگہ باندھنا ہندؤں کا طریقہ ہے ۔ احادیث نبویہﷺ میں بے شمار ایسی مثالیں
ملتی ہیں کہ اغیار جس طریقہ پہ چلتے تھے نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کو ان سے
منع کیا اور ان کے منافی چلنے کا حکم دیا جیسے مسلم شریف میں ہے کہ صحابہ
کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں عرج کیا یارسول اﷲﷺ
مشرکین شلوار پہنتے ہیں تہبند نہیں باندھتے ، آپ ﷺ نے فرمایا تم تہبند بھی
باندھو اور شلوار بھی پہنو۔ صحابہ نے عرض کیا مشرکین موزے پہنتے ہیں جوتے
نہیں پہنتے آپ ﷺ نے فرمایا تم موزے بھی پہنو اور جوتا بھ پہنو۔ آپ ﷺ نے
فرمایا ’’ جس قدر ہوسکتا ہے اور جتنی تمہارے اندر طاقت ہے تم شیطان کے
دوستوں (یہود ونصاری) کی مخالفت کرو‘‘ نبی کریمﷺ کی طرف سے اتنی تاکیدیں
اور ہم غیروں کی مشابہت کو اختیار کرنے پر اصرار کررہے ہیں، عمل ان جیسا،
عادات ان جیسی، رسوم ورواج ان جیسے ۔۔ علامہ اقبال نے شاید اسی لیے فرمایا
تھا
وضع میں ہو تم نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
سنن ابی داؤد میں نبی کریمﷺ کا فرمان ہے ’’جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار
کی وہ انہی میں سے ہے‘‘ اس فرمان کو یاد رکھ کر ہمیں اپنی زندگی گزارنی ہے
کہ کہیں ہمارا کوئی عمل کسی غیر مسلم سے تو نہیں ملتا؟ کسی غیر اسلامی
تہذیب کی پہچان تو نہیں جس کو ہم اپنا رہے ہیں؟
میں بار دیگر بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام زینت کے مخالف نہیں۔ بلکہ اسلام
زینت کا حکم دیتا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ غیر اسلامی نہ ہو، گناہ کی
طرف مائل کرنے والا نہ ہو، اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کو ناراض کرنے والا نہ ہو۔
اغیار کے رسوم ورواج کو وہ قومیں اپناتی ہیں جن قوموں کے پاس اپنے رسوم
ورواج نہ ہوں اسلام نے ہمیں ہررسم اور ہر رواج دیا ایک بہترین تہذیب وتمدن
ہمیں عطا کی ہمیں قرآن کریم کی سورۃ النساء کی آیت مقدسہ کو یاد رکھنا ہوگا
۔ فرمان خداوندی ہے ’’جو شخص رسول کی مخالفت کرے اور اہل ایمان کی راہ چھوڑ
کر کسی اور راہ پر چلے بعد اس کے کہ ہدایت کی راہ واضح ہوچکی ہے تو ہم اس
کو اس طرف پھیر دیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے ہم جہنم میں جھونک دیں
گے جو بدترین ٹھکانہ ہے‘‘- |