حرم کعبہ کا سفر

میرا ایک قریبی دوست جو میرے دل کے بہت قریب ہے وہ عمرے پہ جارہا ہے جس کی فرمائش پہ میں کچھ الفاظ قلم بند کررہا ہوں کئی حضرات کی نظر میں عمرہ ایک مستحب عبادت ہے اور بعض ایک کی نظر میں سنت مجھے اس بات کا فیصلہ نہیں کرنا کہ عمرہ سنت ہے یا مستحب بلکہ مجھے عمرہ کرنے والے کے وہ کیفیت بیان کرنی ہے جو کیفیت اپنے محبوب کے گھر کو دیکھ کر آتی ہے عمرے کا اگر تجزیہ کریں تو اس کے مناسک اور ارکان سراسر شعائراﷲ (اﷲ کی نشانیاں) کی تعظیم اور محبوبان الہی کی یاد میں عشق و محبت کے والہانہ پن سے عبارت ہیں اﷲ کے گھر داخل ہوتے ہی آنکھیں برسات کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں اور آنسوؤں کی جھڑی سے ہی اس جذبہ و عشق و مستی کی تسکین محسوس ہوتی ہے جسے جدائی کی آنچ نے اور سوا کردیا تھا خانہ خدا میں قدم رکھتے ہی بندہ دیوانہ وار پتھروں سے بنی ہوئی ایک عمارت کے گرد دوڑنا اور چکر لگانا شروع کردیتا ہے وہ اس امن والے شہر میں یہ سمجھ کر قدم رکھتا ہے کہ یہ میرے محبوب کا شہر ہے حرم کعبہ میں پہنچ کر وہ ابھی سجدہ ریز نہیں ہوتا رکوع و قیام اور نماز میں داخل نہیں ہوتا بس غلاف کعبہ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کے پیمانے اشکوں سے لبریز ہوجاتے ہیں اور پلکوں تلے برسات کا سا سماں پیدا ہوجاتا ہے کوئی اس سے پوچھے کہ یہ رقت اور گریہ وزاری کی کیفیت کیوں طاری ہوگئی تو اس کے پاس عقلی طور پر کوئی جواب نہیں بن پائے گاوہ بے ساختگی سے بس یہ کہہ سکے گا کہ مجھے کچھ نہیں پتہ،یہ میرے محبوب کا گھر ہے جسے جاگتی آنکھوں سے دیکھنے کی آرزو ساری زندگی میرے دل میں پرورش پاتی رہی ہے اور میری زندگی کے یہ لمحات عمر بھر کی تمنا کا حاصل ہیں جن کے لیے میں نے ہزاروں میل کی مسافت طے کی ہے اور طویل سفر کی صعوبتیں اور تکلیفیں جھیلی ہیں انسان جتنا خلوص دل اور نیت دل سے اس کو سرانجام دے گا اتنا ہی زیادہ سکون قلب اور مزہ پائے گا،حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ انسان کا اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے عمرے پر جانے کی نیت تو آپ نے باندھ لی لیکن اس کے لیے آپ کے پاس مال اور ذادراہ حلال ہونا چاہیے ایسا حلال مال جس میں حرام کی ایک آنے کی بھی آمیزش نہ ہونیت اور مال کے پاک ہونے کے بعد خلوص کی باری آتی ہے انسان کسی کام کو جتنا صدق دل اور خلوص سے سرانجام دے گا اتنا زیادہ سکون قلب اور اس کام کو کرنے کا مزہ پائے گا اور بارگاہ الہی میں مقام حاصل کرے گاخلوص نیت کے حوالے سے ایک واقعہ عرض خدمت ہے غزوہ تبوک کے لیے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے چندے کی اپیل کی تو ایک صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ۰۰۳ من کھجوریں پیش کی ایک اور صحابی رضی اﷲ عنہ نے سارا دن اسی واسطے مزدوری کی اور اس مزدوری کے عوض ملنے والی ۲ کلو کھجوریں حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کی حضور نے ان کی کھجوروں کو پھیلا کر رکھ دیا تاکہ دکھنے میں زیادہ نظرآئیں اگلی صبح جبرائیل علیہ السلام آئے حضور کو اﷲ کی طرف سے سلام پیش کیا اور کہا کہ اﷲ پاک نے اس صحابی کے لیے سلام بھیجا ہے اور ان کی دو کلو کھجوریں پہلے قبول کی گئی اور 300 من کھجوریں دینے والے عبدالرحمن کی بعد میں یہاں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ عبدالرحمن رضی اﷲ عنہ کے خلوص میں کوئی کمی تھی بلکہ اس صحابی کا خلوص جیت گیا تھا جنہوں نے سارا دن اسی واسطے مزدوری کی کہ رسول خدا کا حکم ہے خانہ خدا سے واپسی کا منظر بھی عجیب تر ہوتا ہے محبوب سے بچھڑنے کا غم وہی جانتا ہے جسے محبوب کا در میسر آیا ہو انسان کو نا چاہتے ہوئے بھی واپس لوٹنا پڑتا ہے اور گھر واپس پہنج کر انسان پھر دن گننا شروع کردیتا ہے کہ کب وہ دن آئے اور وہ اپنے محبوب کے در جاکر سجدہ ریز ہوجائے اسی کیفیت کی سرشاری میں اپنی زندگی کو گزاردیتا ہے میری اﷲ پاک سے دعا ہے کہ اﷲ اس کے سفر میں آسانیاں پیدا فرمائے اپنے محبوب کا دیدار نصیب فرمائے اور اﷲ ہمیں بھی حرم کعبہ میں سجدہ ریز ہونے اور غلاف کعبہ چومنے کی سعادت نصیب فرمائے ،آمین

Fareed Ahmed Fareed
About the Author: Fareed Ahmed Fareed Read More Articles by Fareed Ahmed Fareed: 32 Articles with 29605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.