ملکی ترقی اورخوشحالی کیلئے جس قدرجمہوریت کاتسلسل
ضروری ہے اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہے کہ جمہوریت کوبدعنوانی سے پاک
کیاجائے۔ہماری تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی آمریت نے جمہوریت کوتختہ
دارپرلٹکایاعوام نے خوشی کااظہارکیا۔جمہوری یعنی عوامی حکومت کے خاتمے
پرعوام کاپرمسرت ردعمل یہ حقیقت واضع کرتاہے کہ عوام کے منتخب نمائندے
عوامی تواقعات پرپورانہیں اترپائے۔یہ سوال اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ آمریت کے
دورمیں جمہوریت کی بحالی کی طویل جدوجہدکرنے والے عوام جلدہی جمہوریت سے
بیزارکیوں ہوجاتے ہیں؟ایساہی ایک سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے
جمہوریت کی تذلیل کیوں کرتے ہیں؟سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی سپریم کورٹ
سے نااہلی کے بعدن لیگی وزراء کھل کر عدلیہ پر برس رہے ہیں وہیں فوج کو بھی
تنقید کا نشانہ بنانے کاسلسلہ جاری ہے۔ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے جس
کے سربراہ میاں نوازشریف ہیں۔یہ حقیقت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ عدالتی
نااہلی کے بعد وزارات عظمیٰ توچلی گئی پر آج بھی حکومت میاں نواز شریف کی
مرضی و منشاء کے مطابق ہی چل رہی ہے۔یعنی جمہوریت کاتسلسل قائم ہے ملک کے
کسی بھی حصے میں مارشل لاء نہیں لگا۔کسی نے بھی جمہوریت کاگلانہیں
دبایا۔کیاسابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی نااہلی کوجمہوریت کاخاتمہ تصور
کیاجاسکتاہے؟نہیں ہرگزنہیں ایک شخص کے مفادات کیلئے قومی مفادات
کوداؤپرلگادیناجمہوریت ہی نہیں بلکہ ملک کیلئے بھی خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔جس
طرح وزیرخارجہ خواجہ آصف نے امریکیوں کو پاکستان میں مشترکہ آپریشن کی
پیشکش کی اور پھر پاک فوج کی طرف سے ٹھوس وضاحت آنا کہ پاکستان کی سرزمین
پر کسی دوسرے ملک کی فورس کے ساتھ مشترکہ آپریشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
۔ملکی سلامتی کے ضامن افواج پاکستان اور منتخب حکومت کے درمیان اختلافات
جمہوری حکمرانوں اور عوام کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ امریکہ جانے سے قبل وزیر
خارجہ زمینی حقائق جاننے کے ساتھ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں جانے قربان کرنے
والوں سے مشاورت کرلیتے تو عوام کے منتخب وزیرخارجہ کاغیرذمہ دارانہ بیان
جمہوریت کیلئے باعث شرم نہ بنتاہے۔سیکورٹی اداروں کے ساتھ مشاورت ہوئی ہوتی
یا امریکہ کو مشترکہ آپریشن کی پیشکش کرنے سے قبل افواج پاکستان کو اعتماد
میں لیتے تو بدمزگی ہوتی نہ جمہوری حکومت اور فوج کے درمیان رابطے کافقدان
واضع ہوتا۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کاکہناہے کہ
پاکستان کی سرزمین پر کسی دوسرے ملک کی فورس کے ساتھ جوائنٹ آپریشن کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا، ہم نے اپنے ملک میں سب کچھ کر لیا، اب ہمارے پاس ڈومور
کی کوئی گنجائش نہیں، پاکستان میں کوئی نو گو ایریا نہیں دہشت گردوں سے
تمام علاقے صاف کر لئے گئے، فوج کوئی فیصلہ خود نہیں کرتی وزیراعظم کا
اختیار چلتا ہے فیصلہ حاکم وقت کا ہوتا ہے فوج سویلین حکومت کے فیصلے پر
عمل کرتی ہے، ایک سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھاکہ ٹیکنو کریٹ حکومت یا
مارشل لاکا کوئی امکان نہیں۔آئین اور قانون سے بالاتر کچھ نہیں کریں گے،
سویلین حکومت ہی آرمی چیف کا تقرر کرتی ہے۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ ملکی
معیشت گر گئی ہے، میرے بیان پر وفاقی وزیر داخلہ کے بیان سے بطور سپاہی اور
پاکستانی مایوسی ہوئی۔ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں جس میں اداروں میں
اختلاف رائے نہ ہوتا ہو، اظہار رائے ہر ایک کا حق ہے، جمہوریت کو پاک فوج
سے کوئی خطرہ نہیں، ہماری طرف سے آرمی چیف کہہ چکے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی
خطرہ نہیں، جمہوریت کو خطرہ جمہوری تقاضے اور عوامی توقعات اور امنگیں پوری
نہ ہونے سے ہوگا، اس وقت ہر چیز سویلین بالادستی میں چل رہی ہے۔جب ملکی
معیشت اچھی ہوگی تو سکیورٹی بھی اچھی ہوگی۔جہاں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی
آر میجر جنرل آصف غفور کی گفتگونے بہت سارے ابہام دورکئے وہیں سمجھنے والوں
کیلئے بہت سارے اشارے بھی چھوڑدیئے ہیں۔اب سمجھنے والے سوچیں اورسمجھیں کہ
کیا منتخب عوامی نمائندوں نے جمہوری تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی؟کیاجمہوریت
عوامی توقعات اور امنگوں کے مطابق چل رہی ہے؟ شائد یہ دنیاکی سب سے بڑی
حقیقت ہے کہ جدید میڈیاکی موجودگی میں کسی ریاست یاملک کے معاشی حقائق و
حالات کو چھپایا جانا ممکن نہیں رہا۔اس حقیقت سے کون انکارکرسکتاہے کہ
پاکستان کے قرضے تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت
پاکستان 22 ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ اس سال فروری میں موجودہ حکومت نے
خود قومی اسمبلی میں تسلیم کیا کہ پاکستان پر 18278 ارب روپے کا قرضہ ہو
چکا ہے ، جو 2012-13 ء میں 13480 ارب روپے تھا یعنی موجودہ حکومت کے صرف
چار سالوں میں قرضے میں 35 فیصد اضافہ ہوا۔ فروری سے اب تک یہ قرضہ 22000
ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ 4 سال پہلے کے مقابلے میں 70فیصد سے بھی زیادہ
اضافہ ہوا۔دوسری طرف مہنگائی میں مسلسل اضافہ،بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے عام
آدمی کاجینامشکل کر دیا ہے۔کیا حکومت موجودہ حالات میں یہ دعویٰ کر سکتی ہے
کہ جمہوریت کے تقاضے پورے ہوئے یاحکومت عوامی امنگوں پر پورا اتری
ہے؟سیاستدانوں کے منفی رویے کے باجودپاک فوج کاجمہوریت کے حق میں دوٹوک
بیان اس بات کی دلیل ہے کہ اس بارجمہوریت کومارشل لاء سے نہیں بلکہ جمہوریت
سے خطرہ ہے۔یعنی بیڈ (گندی)جمہوریت مقابلہ گڈ(اچھی) جمہوریت ۔اُمید کی
جاسکتی ہے کہ اچھی یابری جمہوریت تسلسل کے ساتھ جاری رہنے کے امکانات
پیداہوچکے ہیں۔ہم اس بات پریقین رکھتے ہیں کہ جمہوریت تسلسل کے ساتھ آگے
بڑھتی رہی توایک وقت آئے گاجب عوام باشعور ہوجائیں گے اورغلط لوگوں
کوجمہوریت کے دائرے سے نکال دیں گے پر اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ منتخب
حکمران عدلیہ کے فیصلوں سے بالاترہیں یاافواج پاکستان کیخلاف کسی قسم کی
مہم جوئی میں عوام کرپشن زدہ نظام کادفاع کریں گے۔جمہوری لوگ ملک میں
جمہوریت کاتسلسل قائم رکھناچاہتے ہیں توپھرافواج پاکستان کیخلاف زہراگلنے
سے گزیرزکریں اورعدلیہ کے فیصلوں کااحترام کریں - |