بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ملک کی معیشت خراب ہے مگر وزیر
خزانہ کہتے ہیں کہ بس تھوڑی خراب ہے لیکن کام چل سکتا ہے اور چل رہا ہے۔
مجھے نہیں پتہ معیشت کیا ہوتی ہے ، اکنامکس کیا ہوتی ہے لیکن میرے سارے
اکنامکس پڑھے ہوئے دوست شکل سے ہمیشہ پریشان پریشان اور الجھے الجھے ہی
دکھائی دیتے ہیں اس لئے اندازہ ہے کہ یہ چیز ہمیشہ پریشانی ہی کا باعث ہوتی
ہے۔ویسے مجھے اور میرے جیسے لوگوں یہ ضرور پتہ ہے کہ جب سے ٹماٹر ، پیاز
اور دیگر سبزیاں بلندیوں کی طرف محو پرواز ہیں ہر خاتون خانہ کا چہرہ بھی
ماہر معاشیات کی طرح بجھا بجھا نظر آتا ہے۔ شاید ان خواتین کو بھی معیشت
لاحق ہو گئی ہے۔خرچ زیادہ اور آمدن کم ہونے سے لوگوں کی جیبیں خالی ہوتی جا
رہی ہیں اوریہ سب کو احساس ہے کہ خالی خزانہ اور خالی جیب ہر مشکل کا
شاخسانہ ہوتے ہیں ۔
جن ملکوں کی معیشت کمزور ہوتی ہے وہاں کے حکمرانوں کی معیشت البتہ بہت تگڑی
ہوتی ہے۔ملکی معیشت کی کمزوری کی اصل وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ حکمرانوں کو
ملکی مفاد کی بجائے اپنے ذاتی مفادات زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔وہ اپنی دولت کو
بڑھانے کے لئے ملک اور عوام کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ
کمزور ملکوں کو ان کی معیشت لے ڈوبتی ہے اور وہ حکمران جو اپنا پیسے سمیت
کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر طرح محفوظ ہیں، غلط فہمی میں مارے جاتے ہیں،
بھوکے عوام ان کو عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں۔ ان کا پیسہ جسے وہ سنبھال
سنبھال کر رکھتے ہیں ان کے کسی کام نہیں آتا، حکمرانوں کے لئے جان بچانی
بھی ان حالات میں بہت مشکل ہوتی ہے۔
پندرہ ریاستوں پر مشتمل سویت یونین 1922 میں وجود میں آیا اور 1991تک قائم
رہا۔1991 تک یہ امریکہ کے مقابل ایک عالمی قوت تھا اور امریکہ اور سویت
یونین میں کون زیادہ طاقتور ہے فیصلہ کرنا مشکل تھا۔رقبے کے لحاظ سے یہ سب
سے بڑا ملک تھا جس کی سرحدیں جرمنی سے بحر اوقیانوس تک پھیلی ہوئی تھیں۔
آدھا ایشیا اور آدھا یورپ سویت یونین کا حصہ تھا۔بے پناہ اسلحہ، معدنیات
اور تیل سے مالا مال خطے، ایک بڑی ایٹمی قوت ، لیکن خراب معیشت ان سب کا
بوجھ نہیں اٹھا سکی اور نتیجہ یہ ہوا کہ سویت یونین کئی ٹکروں میں بٹ گیا۔
آج سویت یونین کی جگہ روس، بیلا روس، آرمینیا، آذربائی جان، ایسٹونیا،
جورجیا،کازکستان، کرخستان اور لٹویادنیا کے نقشے پر وجود میں آ چکے ہیں۔
معیشت کی ناکامی کے حوالے سے عباسی دور کا ایک عبرت ناک واقعہ مجھے یاد
آیا۔عباسیوں کے ابتدائی دور میں ان کے وزرااور جرنیل سب ایرانی تھے۔ ایرانی
تاریخی طور پر ایک متمدن قوم تھی۔خلفا کے ساتھ ان کا طرز عمل خادمانہ تھا۔
وہ تہذیب، تمدن اور اخلاقی لحاظ سے بہت بہتر تھے۔ شاہ پرستی ان کے خمیر میں
شامل تھی۔ انہوں نے خود بھی فاعدے حاصل کئے اور حکومت کے بھی انتہائی
مددگار رہے ۔ایرانیوں کے بعد ترکوں کو عروج حاصل ہوا۔ترکوں کا مذہب ان کا
ذاتی مفاد تھا۔خونریزی ان کا اخلاق اور بربریت ان کا تمدن تھا۔ وہ تلوار کے
دھنی تھے اور تلوار کے علاوہ کسی نظام اور قانون کے پابند نہ تھے۔ایک دور
میں ان کی طاقت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ بادشاہ گر ہو گئے۔ جو بادشاہ ان کے
اشاروں پر نہ چلتا اسے وہ چلتا کر دیتے۔
عباسی خلیفہ متوکل کے قتل کے بعدترکوں نے منتصر باﷲکو خلیفہ بنایا اور اس
کے سوتیلے بھائیوں معتز اور موید سے اس کی بیعت لی۔دونوں نامزد ولی عہد
تھے۔لیکن ترکوں نے منتصر کے بعد زبردستی ان کی نامزدگی ختم کرا کر ان کے
بھتیجے مستعین کو خلیفہ بنا دیا۔ معتز اور مویدکو قید کر دیا گیا۔صرف ایک
سال کی خلافت کے بعد مستعین کو اپنے قتل کا خطرہ ہوا تو وہ دارالحکومت سے
فرار ہو گیا اور ترکوں نے قیدی معتز کو قید سے نکال کو خلیفہ بنا دیا۔
کل چار سال آٹھ مہینے کی مدت اقتدار کے آخری دنوں میں حکومتی عہدیداروں نے
سارا خزانہ خرد برد کر لیا اور معتز کے پاس فوجیوں کو دینے کے لئے کچھ نہ
بچا۔ترک فوجیوں نے ایسے حالات میں مطالبہ کیا کہ اگر پوری تنخواہ نہیں مل
سکتی تو فقط پچاس ہزار دینار ہی دے دئیے جائیں وہ اسی پر قناعت کر لیں
گے۔منتصر کے پاس اس وقت ایک دینار بھی نہ تھااس لئے وہ ان کا یہ مطالبہ بھی
پورا نہ کر سکا۔فوج جو پہلے ہی برہم تھی، غصے میں قصر سلطانی پر چڑھ دوڑی۔
انہوں نے خلیفہ کو باہر بلایا۔ گھبرائے ہوئے خلیفہ نے کہاکہ وہ بیمار ہے ،
دوا پی ہوئی ہے اس لئے باہر نہیں آ سکتا۔ اگر ضروری ہے تو کوئی ایک آدمی
اندر آ کر بات کر لے۔ یہ سن کر سارا ہجوم نعرے لگاتا قصر سلطانی میں گھس
گیا اور پیٹتے ہوئے خلیفہ کو باہر لے آیا۔ہر شخص خلیفہ پر ہاتھ صاف کر رہا
تھا۔ کوئی تھپڑ، کوئی لات اور کوئی کسی چیز سے خلیفپہ وقت کی پٹائی کر رہا
تھا۔خلیفہ کی قمیض تار تار لوگوں کے ہاتھوں میں تھی۔خلیفہ نیم عریاں ننگے
پاؤں گرم زمین پر تپش کی وجہ سے کبھی ایک پاؤں رکھتا کبھی دوسرا مگر ظالم
ترک لگاتار مار پیٹ میں مصروف تھے۔کافی ذلیل اور رسوا کرنے کے بعد قاضی اور
گواہوں کے روبرو خلیفہ کو معزول کرکے گرفتار کر لیا گیااور اس کی جگہ
نظربند محمد بن واثق کوجیل سے نکال کر خلیفہ بنا دیا۔
معتز کی ماں قبیحہ بہت دولت مند تھی۔اس کی دولت کا بہت چرچا تھا۔پچاس ہزار
دینار دینا اس کے لئے معمولی بات تھی جو دے کر وہ اپنے بیٹے کی زندگی بچا
سکتی تھی۔مگر وہ دولت کی حریص تھی اس نے بیٹے کو بچانے کی بجائے اس کی
گرفتاری کے وقت روپوش ہونا بہتر جانا اور غائب ہو گئی۔ترکوں نے اسے تلاش
کیا مگر اس کا پتہ نہ لگا سکے۔جب اسے خود اندازہ ہوا کہ وہ زیادہ دن چھپی
نہیں رہ سکتی اور اگر تلاش کرنے والوں نے ڈھونڈھ لیا تو اس کے ساتھ بہت برا
سلوک کریں گے تو خود کو ظاہر کر دیا اور ترکوں کو پانچ لاکھ دینار سرخ
بھیجے۔مگر اس کے بعد ترکوں کو اس کے اصل خزانے کا پتہ چل گیاجس میں مزید
اٹھارہ لاکھ اشرفیاں تھیں۔ قیمتی جواہرات بہت بڑی تعداد میں تھے۔ایک زمرد
اتنا بڑا تھا کہ اس سائز کا دوسرا زمرد اس زمانے میں موجود نہ تھا۔بیش قیمت
یاقوت اور دیگر جواہرات بہت بڑی تعداد میں تھے۔ترکوں نے وہ دولت وصول کرنے
کے بعد اسے جلاوطن کر دیا اور ہنسے کہ اتنی دولت ہونے کے باوجود اس احمق
عورت نے بیٹے کی جان صرف پچاس ہزار دینار دے کر نہیں بچائی۔ نتیجہ یہ ہوا
کہ نہ دولت بچی اور نہ جانیں۔
تاریخ کا اصول ہے کہ وہ خود کو دھراتی ہے۔ ہر دور میں حرص و ہوس کے مارے
لوگ دولت اکٹھی کرتے ہیں اور مشکل وقت میں دولت بچانے کی پوری سعی کرتے ہیں۔
مگر یہ بے وفا کبھی کام نہیں آتی۔ خود بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے ، جان کے بھی
درپے ہوتی ہے اور ذلت اور رسوائی بھی بہت دیتی ہے۔ |