سلامتی اوربہتر معیشت ۔۔۔اکیسویں صدی کا تقاضہ

اکیسویں صدی میں جہاں دنیا کی بڑی ریاستیں مختلف میدانوں میں ایک دوسرے سے برتری کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک ایک دوسرے سے بین الاقوامی مارکیٹ پر قبضہ جمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ان ممالک میں عوامی فلاح کیلئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ہر شعبے کے لئے ہُنرمندوں اور اعلیٰ ذہانت کے لوگوں کوتیار کیا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی میں نت نئے اختراعات کو متعارف کیا جا رہا ہے۔یہ ممالک خود ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔اور چھوٹی ریاستوں سے کٹھ پُتلیوں کا کام لیا جاتا ہے۔آپس میں اِن ریاستوں کو دشمن بنائے ہوئے ہیں۔کسی کو سرحدی تنازعات میں اُلجھایا گیا۔تو کسی پر نان سٹیٹ ایکٹرز کو سپورٹ کرنے کا دھبہ لگادیا گیا۔اور اِن کی ترقی کی جہتوں کو اندھی بارود سے مسمار کیا گیا۔یہ ترقی یافتہ ممالک چھوٹی ریاستوں میں پہلے افراتفری اور باہمی جنگ کی سما پیدا کرتے ہیں۔بعد میں حلیف کو اسلحہ بیچ دیا جاتا ہے۔اور حریف کوپابندیوں سے دبا دیا جاتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ چھوٹی ریاستوں کے رہنماؤں نے بھی اِن طاقتوں کی سازشی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے پر ہمیشہ لبیک کہا۔اگر کسی نے مخالفت کی جُرأت بھی کی تو صدام حسین اور لیبیا کے معمر قذافی کی طرح عبرت کا نشانہ بنادیا۔

دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ میں پاکستان نے 16 سال کی طویل ترین جنگ لڑی۔اس جنگ کا آغاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے سے ہوا۔11ستمبر 2001ء کے حملے کے بعد پاکستان کو سیکیورٹی اور امن کے حوالے سے انتہائی ناگُفتہ بہہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔چنانچہ 2001ء سے لیکر اب تک 16سالوں میں پاکستان کی معیشت کو دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 123.1بلین ڈالرز کا نقصان ہوا۔جو کہ ملک کی کل اکانومی کا 41فیصد بنتا ہے۔اگر اس نقصان کا حساب فی سال لگایا جائے تو سالانہ 7.7بلین ڈالرز بنتے ہیں۔جو کہ ملکی تعلیم ، صحت اور سماجی تحفظ کے سکیموں پر لگنے والے پیسوں سے زائد ہیں۔جانی لحاظ سے اس جنگ میں سب سے بھاری نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا۔چنانچہ اس جنگ کے نتیجے میں 60,000سے زائدپاکستانیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔اور 16سال بعد بھی ملک میں امن کی بحالی ملکی سیکیورٹی اداروں کیلئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔اس ضمن میں مسلح افواج نے کئی آپریشنزکیے اور اب بھی رہی سہی دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے آپریشن ردالفساد جاری ہے۔ہاں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں کچھ رکاوٹیں اب بھی حائل ہیں۔

امن کی بحالی کے بعد پاکستان کیلئے سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام بڑا چیلنج رہا۔سیاسی پارٹیاں اور فوجی جنرلز ایک دوسرے کو مدتِ حکومت پورا نہیں کرنے دیتی۔12اکتوبر1999ء کو جنرل مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے کِک آؤٹ کر دیا۔اور خود اقتدار کی کُرسی پر براجماں ہو گیا۔2008ء میں پی پی پی کی حکومت برسرِاقتدار آئی۔اس دوران بھی یکے بعد دیگرے منتخب وزارائے اعظم کو رینٹل پاور پراجیکٹس میں بے قاعدگیوں اور دیگر الزامات کے تحت وزارتِ عظمیٰ سے دستبردار ہونا پڑا۔ادارہ جاتی اختلافات بھی گُزرے ادوار کی نسبت گہرے دکھائی دے رہے ہیں۔بنیادی وجہ یہی ہے۔کہ کوئی بھی رہنما،اعلیٰ عہدیدار یا ایک سرکاری ملازم اپنی فرائض منصبی کے ساتھ صادق ، امین نہیں رہا۔پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندے عوامی فلاح کی بجائے ٹھیکوں اور ترقیاتی کاموں کے چور بن جاتے ہیں۔ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کو ساری وباؤ ں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔الیکشن کمیشن اور قومی احتساب بیورو جیسے اہم ادارے چوروں کے انتخاب اور چوری کے بعدریکارڈ کی فائلیں جلانے میں بھی مدد کرتے ہیں ۔ان دونوں محکموں کے سربراہ بھی مک مکا کے ذریعے چُن لیے جاتے ہیں۔دو ایوانوں کے مابین حالیہ جنگ،حکومت کی عدلیہ اور فوج پر اعتراضات ، محاذ آرائی اور سیاسی شہادت کی پرانی ریت اپنی عروج کی جانب دکھائی دے رہی ہے۔موجودہ حالات میں جب فوج پائیدار امن کی کھوج میں لگی ہے۔اس وقت آئینِ پاکستان میں ترمیم کرنامذہبی بغاوت اور عدم برداشت کی فضا کو جنم دیتی ہے۔حکومتِ وقت کی ایسی احمقانہ حرکت قومیت،فرقوں و سیاسی جماعتوں میں بٹی ہوئی اور دہشت گردی کی زخمی قوم کی زخموں پر نمک چڑھنے کے مترادف ہے۔
پچھلے 16سالوں میں اقتصادی لحاظ سے پاکستان دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کمزور واقع ہوا ہے۔انسانی ترقی کے اعشاریوں کیمطابق دنیا کے 188ممالک کی فہرست میں پاکستان147ویں نمبر پر ہے جو کہ انڈیا، بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال وغیرہ سے بھی کم ہے۔ ناروے،آسٹریلیااور سوئیزرلینڈ اس فہرست میں بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں بہتری تب ممکن ہوتی ہے۔جب عوام کا پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو۔ترقی یافتہ قومیں اگر ان اعشاریوں میں آگے ہیں ۔تو وہاں خود احتسابی اور ملک کی مجموعی ترقی کا سوچ ہے۔

اس وقت ملکی خزانے پر اندرنی اور بیرونی قرضوں کا بھاری بھرقم بوجھ سوار ہے۔سال 2016ء کے اعداد وشمار کے مطابق بیرونی قرضوں کا کل حجم 73ارب ڈالرز ہے۔جو کہ سال 2013ء میں 61ارب ڈالرز تھا۔ان قرضوں کی وجہ سے پاکستانی کرنسی اور معیشت کا جنازہ نکل گیا۔چنانچہ ڈالرکے مقابلے میں روپیہ کی قدر پاکستانی تاریخ کی کمزورترین درجے پر پہنچ گئی ہے۔آئی ایم ایف ، ورلڈبینک اور مختلف ممالک سے لیے گئے قرضے وقت گُزرنے کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔آرمی چیف نے بھی اپنے تازہ بیان میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔کہ بیرونی قرضوں کے لینے سے ملکی معیشت میں بہتری نہیں آتی۔

بیروزگاری کی شرح 2010 ء سے 2014ء تک 6فیصد تھی۔2017ء میں یہی شرح 8.3فیصد تک جا پہنچی۔ملک بھر میں 7لاکھ افراد روزگار کے حصول کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔5کروڑ 50لاکھ کی آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔غربت کی یہ شرح فاٹا اور بلوچستان میں زیادہ ہے۔ جس میں بالترتیب 73% اور71%لوگ غربت کی چکی میں پیس رہے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان صحت کی بہتر دیکھ بال کے لحاظ سے 190ممالک کی فہرست میں 122ویں نمبر پرہے۔اس کی خاص وجوہات لوگوں میں تعلیم کی کمی، بہتر سہولیات کا فقدان اور غربت سرفہرست ہیں۔ ہر 1000 میں سے 88بچے صحت کے ناقص سسٹم کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔کئی بیماریاں ایسے ہوتے ہیں جن پر علاج کا خرچہ لاکھوں میں آتا ہے جو ایک غریب خاندان کی دسترس سے باہر ہے۔

پاکستان کی لڑھکتی معیشت میں افراطِ زر کی شرح میں کمی دیکھی گئی۔2010ء سے2017ء تک یہ شرح اوسطاََ 7.9ریکارڈ کی گئی۔2012ء میں سب سے زیادہ 11.40%اور 2015ء میں سب سے کم 3.40% ریکارڈ کی گئی۔پچھلے ایک سال میں روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں 8.9%اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

90ء کی دہائی میں صنعتوں کی پرائیویٹائزیشن اور 11ستمبر 2001ء کے بعدصدر مشرف کی کمرشلائزیشن پالیسی اگر صنعتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی۔تو رہی سہی کسر توانائی کی سنگین بحران ،کرپشن ،لاقانونیت،دہشت گردی،صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کا عدم اعتماد اور حکومتی رہنماؤں کی بے توجہی و نااہلیت نے پوری کردی۔
 

Hafiz Abdul Raheem
About the Author: Hafiz Abdul Raheem Read More Articles by Hafiz Abdul Raheem: 33 Articles with 23247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.