روہنگیا مسلمانوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا

 انسان کتنا کٹھور اور سخت قلب واقع ہوا ہے کہ اپنی آنکھوں سے نجانے کیسے کیسے سانحات ہوتے دیکھتا ہے اور سب کچھ بہت جلد بھول بھی جاتا ہے۔ اتنا سخت تو پتھر بھی نہیں ہوتا، جتنا سخت موجودہ دور میں انسان کا دل واقع ہوا ہے۔ اگست کے بعد سے میانمار میں ہزاروں روہنگیا مسلمان قتل کردیے گئے۔ سیکڑوں بستیاں جلادی گئیں۔ ہزاروں خواتین کو بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو آگ لگائی گئی۔ روہنگیا مسلمانوں پر ہر وہ ظلم کیا، جو ہوسکتا تھا، جس کے صرف تصور سے ہی پورے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ شروع میں کئی ممالک میں ان مظلوموں کے لیے آواز بلند کی گئی، لیکن چند روز میں ہی سب کچھ بھلا دیا گیا۔ میانمار فوج، حکومت اور بدھ دہشتگردوں کے مظالم سے تنگ ہوکر میانمار سے آئے روہنگیا مسلمانوں سے صرف پانچ منٹ ان پر بیتے حالات سن لیے جائیں تو میرا نہیں خیال کوئی شخص اپنی آنکھوں کو بہنے سے روک پائے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو مظالم انہوں نے خود پر بیتے، وہ کس قدر خوفناک ہوں گے، لیکن بہت ہی خوفناک صورتحال تو یہ ہے کہ اگست سے لے کر اب تک میانمار میں کچھ دن کے لیے بھی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی نہیں رکی۔ اب بھی مظالم بالکل اسی طرح جاری ہیں، جس طرح پہلے جاری تھے۔ اب بھی ان کی بستیوں کو جلایا جارہا ہے۔ نوجوانوں، خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ مساجد کو مسمار اور قرآن مجید کی بے حرمتی کی جارہی ہے، لیکن ساری دنیا اندھی، گونگی، بہری ہوچکی ہے۔ دنیا نے مظلوم و بے بس روہنگیا مسلمانوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور ان سب کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں اور شاید اب روہنگیا مسلمان بھی اس لیے چلا نہیں رہے، کیونکہ ان کو یقین ہوگیا ہے کہ بچانا تو کسی نے ہے نہیں، اس لیے خاموشی سے ہی موت کو گلے لگالیا جائے۔ یہ انسانی بحران دن بدن سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ وہاں مظالم میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، لیکن نہ تو عالم اسلام کو ہوش آرہا ہے اور نہ ہی عالمی برادری کی مفافقت ختم ہوتی ہے۔

ارکان میں روز مسلمانوں کے نئے علاقوں میں خونریزی کی جارہی ہے اور یہ سلسلہ مزید پھیلتا جارہا ہے۔ اراکان میں مسلمانوں کی اکثر بستیوں کو جلادیا گیا ہے، جن میں کچھ مساجد محفوظ رہ گئیں تھیں، اب برمی درندے ان مساجد کو بھی شہید کر رہے اور قرآن مجید کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق تین روز قبل گودام فارا بوتھی دونگ کی تین مساجد میں بودھوں نے توڑ پھوڑ کی۔ جو مساجد کسی حد تک محفوظ تھیں، ان کو بھی ایک کے بعد ایک ختم کیا جارہا ہے۔ برمی فوج اور بودھسٹوں نے منگڈو، راتھی ڈونگ اور بوتھی ڈونگ کے بعد تاریخی شہر پھتری قلعہ ( مراو ) سے بھی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام، آبادیوں کو جلانے اور وہاں سے بھی جبری انخلاء کے پروگرام پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ بدھ کی صبح شمس نامی شخص کو مچھلی شکار کرتے ہوئے بودھوؤں نے چھریاں مار کر قتل کر دیا۔ قاتل بودھوں نے قتل کے بعد لاش مسلمانوں کی آبادی کے قریب پھینک دی۔ مقتول گزشتہ سات سال سے برمی فوج کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرتا تھا۔ ایک منصوبے کے تحت برمی فوج سے کاروباری رابطہ رکھنے والے شخص کا قتل روہنگیا مسلمانوں کو ذمے دار ٹھہرا کر نسبتاً اس پرامن شہر کے روہنگیا مسلمانوں پر بھی شب خون مارنے کے لیے جواز پیدا کرنی کی سازش ہے۔ اس سے پہلے یہی طریقہ منگڈو بوتھی ڈونگ میں اپنایا گیا تھا۔ برمی حکومت ایک کے بعد ایک روہنگیا مسلمانوں کی اکثریتی آبادیوں کو ختم کرنے کے لیے پہلے اس طرح کے واقعات سامنے لاتی ہے، پھر قانون پر عمل داری کے نام پر قتل عام شروع کرتے ہیں۔ یہی کچھ اب مراو میں بھی ہوتا نظر آرہا ہے۔

برما میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام، خواتین کی بے حرمتی، ہزاروں مکانوں کو جلانے اور لاکھوں کو ملک سے جبری بے دخلی کے بعد بھی بودھ انتہاپسند عناصر اور برمی فوج کے مظالم تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ اگست کے بعد سے روہنگیا مسلمان جان بچا نے کے لیے مسلسل نقل مکانی کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ میانمار میں ظلم کے شکار روہنگیا مسلمانوں کی کی نقل مکانی میں اضافہ ہورہا ہے اور 10 ہزار سے 15 ہزار افراد بنگلا دیشی سرحد پر موجود ہیں، جبکہ پناہ گزینوں کی تعداد 5 لاکھ 82 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کی فہرست میں 45 ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد پناہ گزینوں کی تعداد 5 لاکھ 82 ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس فہرست میں حالیہ آنے والے ہزاروں مہاجرین کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد بھی مہاجرین کے آنے کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ بنگلا دیش بارڈر گارڈ (بی جی بی) کیایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نئے آنے والوں کو ایسے علاقے میں رکھا جارہا ہے جہاں کوئی موجود نہیں ہے، تاہم ابتدائی طور پر اس کی وجوہات معلوم نہ ہوسکیں۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہا کہ رکھائن ریاست میں ظلم وستم اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے باوجود کئی خاندانوں نے وہیں پر رہنے کا فیصلہ کیا تھا، تاہم وہ اس وقت وہاں سے نکل چکے ہیں، جب ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ بنگلادیش کیمپوں میں جو روہنگیا مہاجرین بہت تکلیف میں ہے، کیونکہ وہاں کھانے، پینے، طبی سہولیات سمیت کوئی بھی سہولت نہیں ہے، بیماریاں بڑھ رہی ہیں، جن کی وجہ سے آئے دن روہنگیا بچوں اور بڑوں کی اموات ہورہی ہیں۔ روہنگیا مسلمان جان بچانے کے لیے جلدی میں میانمار سے نکل رہے ہیں، لیکن اسی جلدی میں کئی بار کشتیاں دریا میں ڈوب گئی ہیں، جن کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ کے عرصے میں میانمار سے بنگلا دیش ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی کشتیاں الٹنے سے 184 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور دریا میں ڈوبنے والے روہنگیا کی لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دو روز قبل 10روہنگیا مسلمانوں کی لاشیں ملی ہیں۔

میانمار میں جس طرح بہیمانہ طریقے سے بے بس و مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر تشدد کیا جارہا ہے، اس کا تصور ہی روح کو بے چین کریتا ہے۔ برمی درندے خواتین کو بھی بدترین تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ امدادی ایجنسیوں کے کارکنوں اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اب تک سیکڑوں خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ بنگلا دیش میں کام کرنے والی امدادی ایجنسی کے مطابق 3293 کیسز ایسے تھے جن کو جنس کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ خواتین کو 25 اگست سے لے کر 17 ستمبرکے دوران زیادتی کا شکار ہوئیں۔ بنگلا دیش کے لیڈا مارکیٹ کے پناہ گزین میں قائم اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فور مائیگریشن (آئی اورایم) کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ سینکڑوں خواتین کا ایسے زخموں کا علاج کیا گیا جو جنسی تشدد کے نتیجے میں آتے ہیں۔ ان خواتین پر جنسی حملے اکتوبر اور نومبر میں آرمی آپریشن کے دوران ہوئے۔ ڈاکٹرس وداؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کی کاکس بازار میں ایمرجنسی میڈیکل کو آر ڈی نیٹرکیٹ وائٹ کے بقول، تنازعوں اور انتہائی کشیدہ حالات میں جنسی تشدد بڑھ جاتا ہے، لیکن جو داستانیں بچ جانے والی روہنگیا خواتین کی سامنے آرہی ہیں وہ ہولناک ہیں۔ خواتین ذہنی امراض میں بھی مبتلا ہورہی ہیں۔ امدای ایجنسیوں کے مطابق 25 اگست سے 350 زیادتی اور جنسی تشدد کا شکار خواتین کو ’لائف سیونگ کئیر‘ فراہم کی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی تنظیمیں بھی گنگ ہیں۔ کسی کو روہنگیا خواتین پر مظالم نظر نہیں آرہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ عالمی برادری اور خواتین کے حقوق کی بات کرنے والی نام نہاد تنظیمیں بھی منافقت کی چادر اوڑھے ہوئے ہیں، جن کا مقصد خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا نہیں ہے، بلکہ خواتین کے نام پر مفادات حاصل کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کے دو خصوصی مشیروں نے کہا ہے کہ میانمار حکومت ریاست راکھائن میں روہنگیا مسلم اقلیت کو مظالم سے بچانے اور اس حوالے سے خود پر عاید ہونے والی بین الاقوامی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ کے دو مشیروں آڈاما ڈینگ اور ایوان سیمینووچ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ میانمار حکومت کو تنبیہ کر دی گئی تھی کہ اس پر اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں روہنگیا مسلم آبادی کو مظالم سے بچانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت جو بڑی ذمے داریاں عاید ہوتی ہیں، وہ پوری نہیں کی جا رہی تھیں۔ اس بیان کے مطابق راکھائن میں روہنگیا مسلم برادری پر مظالم اور خونریزی کی لہر کے باعث جو بحران پیدا ہوا، اس پر بین الاقوامی ردعمل بھی ایک اجتماعی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ روہنگیا برادری پر مظالم کی روک تھام کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری بھی اتنی ہی بری طرح ناکام ہو گئی، جتنا کہ میانمار کی حکومت اس معاملہ میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ کے دونوں مشیروں نے ٹھیک کہا کہ عالمی براری بھی اس معاملے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ عالمی برادری نے ہمیشہ کی طرح منافقانہ کردار ادا کیا ہے۔ اگر عالمی برادری چاہتی تو میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکوائے جاسکتے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ بھی مسلمان دشمنی میں خود میانمار حکومت کی سپورٹ کر رہی ہے، ورنہ صڑف بیانات دینا اقوام متحدہ کی ذمہ اری نہیں ہے، بلکہ مظالم رکوانا اس کا فرض ہے اور اقوام متحدہ سمیت تمام ممالک صرف خالی خولی بیانات دے رہے ہیں، عملی اقدام کوئی نہیں کر رہا۔ کوفی عنان جنہوں نے حال ہی میں میانمار میں رخائین ریاست کے بحران کا جائزہ لینے کے لیے قائم کردہ کمیشن کی قیادت کی تھی، نے سیکورٹی کونسل کے ایک پرائیویٹ اجلاس کو بتایا کہ روہنگیا افراد کو اپنے گھروں کو واپس آنے کے لیے امداد کی ضرورت ہے اور انہیں کیمپوں میں بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوفی عنان نے کہا کہ میانمار کی حکومت ایسا ماحول بنائے کہ یہ مہاجرین وقار اور تحفظ کے ساتھ (اپنے گھروں کو) واپس آ سکیں۔

گزشتہ ہفتے امریکی قانون سازوں نے میانمار کی کشیدہ رخائن ریاست میں صحافیوں اور امدادی کارکنوں کی ’’مکمل رسائی‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ ایڈ روئس نے کہا ہے کہ ’’یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کہ اخباری نمائندوں کو سرزمین پر پہنچنا چاہیے اور یہ کہ ’یو ایس ایڈ‘ سرزمین پر پہنچے۔ چونکہ اْن کی موجودگی کے نتیجے میں ہی تمام قسم کے مظالم پر نگاہ رکھی جا سکے گی‘‘۔ پیٹرک مرفی ایک اعلیٰ امریکی اہل کار برائے جنوب مشرقی ایشیا کا کہنا ہے کہ امریکا نے میانمار کے سولین اور فوجی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کی کارروائی کو روکنے کے لیے اقدام کریں۔ قانون سازوں نے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کے بیان کی حمایت کی ہے، جس میں اْن کا کہنا تھا کہ رہنگیاؤں کے خلاف تشدد کی کارروائیاں، جس کے باعث وہ بڑے پیمانے پر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں، نسل کشی کے مترادف ہیں۔ دوسری جانب بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کے انسانی حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکزی حکومت کو ان کی حالت زار کے تعلق سے حساس رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ معاملے کی سماعت تک انھیں میانمار واپس نہ بھیجے۔ آئندہ سماعت 21 نومبر کو ہوگی۔واضح رہے کہ حکومت نے عدالت میں حلف نامہ داخل کرکے کہا تھا کہ روہنگیا قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ ان کے دہشت گرد گروپوں سے روابط ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں نے دہشت گردوں سے روابط کی سختی سے تردید کی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن بھی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.