ملک میں اس وقت سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آ رہی ہے۔تمام
بڑی جماعتیں مختلف شہروں میں جلسے کر رہی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور
پاکستان تحریکِ انصاف نے ماحول کو گرما رکھا ہے۔مذہبی جماعتیں بھی آئندہ
انتخابات میں کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہیں اور وہ
بھی عوام میں اپنا اثر قائم رکھنے کے لیے مختلف ایشوز پر جلسے جلوس منعقدکر
رہی ہیں۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے۔اس کی
قیادت نااہل ہو چکی ہے اور باقی خاندان احتساب کے عمل سے گزر رہا
ہے۔پاکستانی سیاست میں مقتدرہ کے کردار کو نظر انداز کرنا بھی ناممکن ہے وہ
بھی اپنے مہرے منظم کرنے پر مشغول ہے۔ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں ،قیادتیں،حکومت،اہلِ
فکر و نظر اور قومی مفاد کے محافظ الغرض سبھی مستقبل کی حکمتِ عملی ترتیب
دینے میں مصروف ہیں ۔ مستقبل کی فکر کرنے والوں کو معلوم نہیں کہ اس ملک کا
حال بد حال ہے۔اس وقت کرپشن،بد عنوانی،بد دیانتی اور بد انتظامی ا س ملک کے
سب سے بڑے مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ان مسائل کی بدولت ملکی معیشت کا
بیڑا غرق ہوا۔مہنگائی اور غربت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ ملک اس وقت ایک
غیر یقینی کی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ملک کے مستقبل کی فکر کرنے والوں کو
ملک کے زمانہِ حال سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔
2013کے عام انتخابات کے بعد پاکستانی عوام کو مسلم لیگ ن کی حکومت سے بہت
سی امیدیں وابسطہ تھیں۔مگر بد قسمتی نے ا س عوام کا پیچھا نہ چھوڑا اوروہ
تمام امیدیں خاک میں جا ملیں۔پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دب کے رہ
گیا۔معیشت اس قدر خراب ہوئی کہ فوج کو بھی اس پر لب کشائی کرنا پڑی اور ڈی
جی آئی ایس پی آر کو ٹیکس دینے والوں کے درست اعداد وشمار قوم کو بتانے پڑے
جو کہ انتہائی مایوس کن تھے۔صدر مملکت کی ایک حالیہ تقریر تو اس حکومت کے
خلاف کھلی چارج شیٹ ہے جس میں انہوں نے کہا کہ چار سالوں میں نہ کوئی ڈیم
بن سکا اور نہ ہی کوئی ہسپتال قائم ہو سکا۔انہوں نے سوال کیا کہ کھربوں
روپے کا قرضہ کدھر گیا؟پانامہ کیس نے اس جماعت کو ہلا کے رکھ دیا اور اب یہ
جماعت ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزر رہی ہے۔مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ باقی سیاسی
جماعتیں بھی عوام میں اپنا اچھا تاثر قائم نہیں کر سکیں۔پاکستان پیپلز
پارٹی پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں۔عزیر بلوچ کے مبینہ انکشافات نے اس
جماعت کی قیادت کا کیا دھرا عوام کے سامنے عیاں کر دیا ہے۔تحریک انصاف کی
قیادت بھی عدالتوں میں اپنی پرچیاں پیش کر رہی ہے مگر عدالت اطمینان کرنے
پر نہیں آ رہی ہے۔الغرض ملک کی سیاسی قیادتیں الزامات کی زد میں ہیں ۔اس
وقت ملک میں یہ تاثر ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ سیاستدانوں نے موقع ملنے کے
باوجود اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔انہوں نے ملکی خدمت کی بجائے کرپشن
اور اقربا پروری کو فروغ دیا۔ بیرونی دنیا بھی ہم سے خوش نہیں ہے۔چین بھی
ملکی صورتِ حال پر نالاں ہے۔امریکہ کا دباؤ یہ سیاسی کردار برداشت نہیں کر
پا رہے ہیں۔پاک فوج بھی اس امکان کا اظہار کر چکی ہے کہ اگر معیشت درست نہ
ہوئی تو سیکورٹی کے کچھ معاملات پر سمجھوتے کرنے پڑے گے۔چین سی پیک کی
حفاظت کے لیے اپنی فوج یہاں تعینات کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ایسے منظر
نامے میں اب قومی حکومت یا ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کرنے کی آوازیں بلند
ہو رہی ہیں۔سیاستدانوں کو ایسی گلی میں دھکیلا جا رہا ہے کہ جہاں وہ اس
منصوبے پر متفق ہو سکیں۔کیا قومی حکومت تمام تر مسائل کا حل ہے؟یہ وہ سوال
ہے جو اس وقت قوم کے سامنے ہے۔ملکی آئین میں ایسے کسی نظام کی کوئی گنجائش
نہیں ہے۔ماضی میں بھی ملک میں مارشل لاء لگا کر سویلین کے ذریعے حکومت قائم
کرنے کے تجربے کیے گئے ہیں ۔وقتی طور پر قوم کو کچھ سکون ضرور ملا ہے مگر
یہ ان مسائل کا مستقل حل ہر گز نہیں ہے۔اس طرح کے طریقوں میں غیر ملکی
مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔مفادات پورے ہونے پر قوم کو پھر ان ہی سیاستدانوں
کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔پھر وہی مسائل کا پہیہ گھومنے لگتا ہے۔بد قسمتی سے
ہم آگے کی طرف سفر کرنے کی بجائے ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔قومی حکومت
کے قیام کی بجائے اس وقت اس ملک کو ایک کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔کرپٹ
سیاستدانوں کو شفاف احتساب کے ذریعے انتخابی عمل سے الگ کیا جائے اور مقررہ
وقت پر ہی ملک میں عام انتخابات شفاف طریقے سے کروائے جائیں ۔سیاسی جماعتوں
کی یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ ان سیاستدانوں کو اپنی جماعت سے الگ کر دیں
جن پر الزامات ہیں۔انتخابات میں ٹکٹ صرف اہل لوگوں کو دیں۔ملکی حالات کی
تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف سیاستدانوں پر ہی عائد ہوتی ہے اگر وہ نیک
نیت ہوں،ایماندار ہوں مخلص ہوں اور ملک اور قوم کی درست انداز میں خدمت
کریں تو قومی حکومت یا بنگلہ دیش ماڈل کی صدائیں آنا بند ہو جائیں گی۔اس
ملک کے عوام کا مستقبل صرف اور صرف حقیقی جمہوریت میں ہی پوشیدہ ہے۔ |