مجھ پرآج تک اس ’’راز‘‘کا’’انکشاف‘‘نہیں ہوسکاکہ سیاسی
لیڈروں کوبیان بازیوں کاشوق کیوں ہوتاہے اور وہ اپناشوق پوراکرنے کے لیے
اوچھی ،متنازع اورجاہلانہ حرکتوں پرکیوں آمادہ ہوجاتے ہیں ۔یہ حضرات ایسے
ایسے بیانات دیتے ہیں جن سے کم پڑھالکھاانسان بھی سمجھ لیتاہے کہ ذوقِ
خودنمائی انسان سے جوبھی کروالے ،وہ کم ہے۔اس لیے ہمیں یہ کہنے میں کوئی
تکلف اورکوئی باک نہیں کہ اکثروبیشترسیاسی لیڈر محض ’’گیدڑ‘‘ ہوتے ہیں ۔انہیں
بس بولنے کاشوق ہوتا ہے اوریہ شوق ان پراس قدرحاوی ہوتاہے کہ انہیں پتہ ہی
نہیں ہوتاکہ کیابولناہے ،کب بولناہے ،کتنا بولنا ہے اور کیسے بولنا ہے ۔وہ
بس بولتے چلے جاتے ہیں اور بولتے ہی رہتے ہیں اورمزے کی بات یہ ہے کہ بولنے
کوہی کامیابی سمجھتے ہیں۔تجزیہ کیاجائے توبجاطورپرکہاجاسکتاہے کہ یہ بولتے
نہیں ،صرف بکواس کرتے ہیں کیوں کہ بولنے کے دوران اکثرایساہوتاہے کہ زبان
سے ایسے الفاظ اداہوجاتے ہیں جنہیں اکھٹاکرکے کسی بھی معنی کی ایک
تصویربنائی جاسکتی ہے لیکن جولوگ بکواس کرتے ہیں ،ان کے لفظوں کوجوڑکر کوئی
تصویر تو کیا کوئی بامعنی نقش بھی صحیح سے نہیں ابھارا جا سکتا۔تازہ ترین
مثال تری پورہ کے گورنرناتھاگاٹارائے کی ہے جنہوں نے اذانوں کوپٹاخوں سے
تشبیہ دے کر مسلمانوں کی اس اہم ترین اوراساسی نوعیت کی نشانی کے خلاف
بھڑاس نکالنے کی کوشش ہے ۔ انہیں غصہ اس بات پرہے کہ انہی کے ہندومذہب کے
لوگ دیوالی کےموقع پر پٹاخوں پرپابندی عائدکررہے ہیں مگر وہ اذانوں
پرپابندی عائدنہیں کررہے ۔انہوں نے اس ضمن میں سیکولرکہے جانے والوں پر طنز
کیاہے کہ وہ لوگ لائوڈاسپیکرکی اذانوں پرخاموش کیوں رہتے ہیں اوراس
پرپابندی کامطالبہ کیوں نہیں کرتے ۔
تری پورہ کے گورنربی جے پی کے لیڈرہیں ،ممکن ہے کہ ان سے یہ بیان
دلوایاگیاہو،یایہ بھی ممکن ہے کہ ان کے شوقِ بیان بازی نے انہیں اندرسے
ورغلایاہوکہ میاں ! ’’زندہ ‘‘رہناچاہتے ہوتو اپنی ’’موجودگی‘‘ کا کچھ نہ
کچھ احساس دلاتے رہاکرواوریوں’’متنازع ‘‘بیان جاری کرکے میڈیاکی ’’سیر‘‘کرآیاکرو،ورنہ
گوشۂ خمول میں پڑے رہو گے اورکوئی ’’خیریت‘‘دریافت کرنے نہ آئے گا۔ ہمارے
ان سیاسی لوگوں کو ’’میڈیا کی سیر‘‘پر اتنا ’’ایمان ‘‘ہے کہ وہ اپنے اس ’’ایمان‘‘کے
’’تحفظ ‘‘کے لیے کچھ بھی کرنے کوتیارہوجاتے ہیں ۔شہرت کے بھوکے کچھ لیڈران
ایسے بھی مل جائیں گے جو’’کچھ ‘‘بھی کرنے کے لیے ہر وقت تیارہوجاتے ہیں ،یقین
نہ آئے توآپ بھی تجربہ کرکے دیکھ لیجیے ۔حالاں کہ تری پورہ کے گورنرکایہ
بیان اس لائق نہیں کہ ہم اسے ان صفحات میں پیش کرکے صفحات کی اہمیت کوکم
کرنے کی کوشش کریں مگر صرف اورصرف میرا‘‘شوق خامہ فرسائی ‘‘اس لیےجوش
مارتاہے کہ اس بہانے ہمارےقارئین کی فکری تربیت بھی ہوجائے گی کہ ان جیسے
بچکانہ اوربکواس پرمشتمل بیانات کوکوئی اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔اس
کاجواب بس یہ ہے کہ انہیں ایک کان سے سن لیاکریں اوردوسرے کان سے باہرنکال
دیاکریں اوربس،اپنے کاموں میں مگن رہاکریں کیوں کہ یہ ’’بکواس’’اسی لیے کی
جاتی ہے تاکہ آپ کی توجہ مبذول کرائی جاسکے ،آپ کومشتعل کیا جا سکے
اورآپ اپنے دفاع کے لیے باہرنکل سکیں اوریوں آپ کی قوت کومنتشرکیاجائے ۔اللہ
کاشکرہے کہ اب ہمارے بھائی اس ’’راز‘‘سے اچھی طرح آشنائی حاصل کر چکے ہیں
مگرپھربھی ہمارے معاشرے میں ایسے کچھ لوگ ہیں جوگھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں
کہ بس کوئی ’’متنازع‘‘ بیان ہاتھ لگ جائے اوران کی ’’دوکان داری‘‘ چل پڑے ۔مجھے
معاف کیجیے گاکہ ہمارےمعاشرے میں کیابلکہ تقریباًہرمعاشرے میں ایسے لوگوں
کی کثیر تعدادموجودہےجن کی ’’دوکان داری‘‘اسی طرح کی ’’بکواس‘‘سے چلتی
ہے۔ان کی اس ’’ دوکان داری‘‘ کی ’’مارکیٹ ویلو‘‘کس قدر بڑھ چکی ہے ،اس
کااندازہ اس بات سے لگائیے کہ آج ایسے ’’دوکان داروں‘‘ کا شمار’’لیڈر‘‘،’’مسیحا‘‘اور’’قائد‘‘وغیرہ
میں ہوتاہے ۔ہے نا عجب بات۔؟مگرآج کے معاشرے میں کچھ بھی عجب نہیں ۔
آپ مانیں یانہ مانیں ،ہمارے معاشرے میں بلکہ بالخصوص برصغیرکے معاشرے میں
ایسے لیڈروں کی بہتات ہے جنہوں نے ’’بکواسیات‘‘میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے
اوروہ کسی بھی وقت اپنے ’’تھیسس‘‘ کے شواہدپیش کرسکتے ہیں ۔اخبارات
اٹھاکردیکھیں ،یقین نہ آئے توکہیے ،اورجانتے ہوکہ ان کا’’تھیسس‘‘کن مرکبات
کامجموعہ ہوتاہے ؟یہ بیان دراصل ’’قے‘‘ہوتی ہے جوان کے اندرکی ساری غلاظتیں
باہرلے آتی ہے مگر ہم کتنے بے وقوف ،بے بہرے اوربے شعورہیں کہ اس ’’قے ‘‘کو’’صاف‘‘کرنے
کے لیے آگے آجاتے ہیں اوریوں اس ’’صفائی مہم‘‘میں اپنی توانیاں ضائع کرتے
پھرتے ہیں ۔ آپ کی ذمے داری فقط اتنی ہے کہ ’’بکواسیات ‘‘کے ان ’’ماہرین
‘‘کی طرف سے اپنے دونوں کان بندکرلیجیے کیوں کہ بکواس کوآج تک کسی نے کوئی
اہمیت نہیں دی توہم کیوں دیں؟ |